ابنِ سینا/مبشر حسن

ابن سینا کی پیدائش ہوئی 980 عیسوی میں اور وفات ہوئی 1037 عیسوی میں ۔ بخارا کے یہ رہنے والے تھے۔ابوعلی الحسین ابن عبدالله ابن سینا ایرانی طبیب دنیائے عرب و اسلام کا مشہور ترین فلسفی سائنس دان ہے ۔ وہ خاص طور پر ارسطوئی فلسفے اور طِب کے میدان میں اپنے کام کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔اس نے’’ کتاب الشفا ‘‘ لکھی جو ایک وسیع فلسفیانہ و سائنسی انسائیکلو پیڈیا ہے۔
ابن سینا بخارا کے مضافات میں ایک مقام افشہ پر پیدا ہوا۔ اس نے دینی ودنیوی تعلیم گھر میں ہی پائی جہاں قدیم ایرانیوں کی مخالف اسلامی روایات زندہ تھیں۔ وہ جسمانی اور ذہنی اعتبار سے قبل از وقت بالغ ہو گیا اور بخارا پہنچا جہاں فلسفہ اور طب کی تعلیم حاصل کی۔ سترہ برس کی عمر میں شاہ نوح ابن منصور کا کامیاب علاج کرنے کے باعث اسے شاہی کتب خانے میں آنے جانے کی اجازت مل گئی۔ اس کے بعد وہ علم وعمل میں خو دا پنا استاد بن گیا۔ وہ اپنے عہد کی زندگی اور تعلیم سے بھر پور فائدہ اٹھانے کا مادہ رکھتا تھا۔طوائف الملو کی کی گرم بازاری کے زمانے میں وہ لگا تارقسمت آزمائی کرتا رہا۔ کسی بڑے فرماں روا کی اطاعت اسے گوارا نہ ہوئی۔ مدتوں ایک سے دوسرے دربار میں پھرتا رہا اور آخر کار ہمدان میں شمس الدولہ کا وزیر ہو گیا۔ اس بادشاہ کی وفات کے باعث اس کے بیٹے نے اسے چند ماہ کے لیے ایک قلعے میں بند رکھنے کا حکم دیا۔ رہائی پانے کے بعد ابن سینا علاء الدولہ کے پاس اصفہان پہنچا اور وہیں وفات پائی ۔ اس کی زندگی صرف 57 سال پر محیط تھی۔

ابن سینا کا سب سے بڑا کارنامہ اس کی دو کتابیں ہیں ۔’’ کتاب الشفاء‘‘ غالباً آج تک واحد آ دمی کی لکھی ہوئی اس قسم کی سب سے بڑی کتاب ہے۔ اس میں منطق اور نفسیات فطری علوم اور اور مابعد الطبیعیات پر بات کی گئی ہے لیکن اخلاقیات یا سیاست کی کوئی حقیقی تصویر نہیں ملتی ۔ اس کتاب میں ابن سینا کی فکر کافی حد تک ارسطو کی مرہون منت ہے لیکن دیگر یونانی و نوفلاطونی اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے نظام فکر کی بنیاد خدا کو وجو دلازم سمجھنے کے تصور پر ہے: جوہر اور وجود صرف خدا میں ہی ہم وقوع ہیں ۔ خدا میں سے ایک بے زماں صدور کے ذریعہ درجہ بدرجہ کثیر ہستیاں وجود میں آئیں اور عمل خود آگہی (Self-Knowledge) کا نتیجہ ہے۔ ابن سینا کے نزدیک خالق کا وجود ثابت کر نے کے لیے مخلوقات کو ذریعہ بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ جو چیز میں دنیا میں موجود ہیں یا موجود خیال کی جاسکتی ہیں ان کے امکان ہی سے ایک واجب الوجود ذات اولیٰ کا ثبوت ملتا ہے جس کے اندر مکان اور وجود ایک ہیں۔ نہ صرف تحت قمری دنیا ’’ممکن‘‘ ہے بلکہ افلاک بھی بذات خود’’ممکن‘‘ ہیں۔ ان کی ہستی ایک دوسری کی ہستی کے واسطے سے واجب قرار پائی ہے جو امکان سے بالاتر ہے ۔ یہی واحد اول ابن سینا کا خدا ہے جس کی طرف بہت سی صفات مثلاً خیال وغیرہ منسوب کی جاتی ہیں، لیکن محض منفیانہ اضافی حیثیت ہے۔۔۔جس سے وحدت ذات میں خلل نہیں پڑتا۔

ابن سینا کہتا ہے کہ واحد اوّل سے صرف ایک چیز پیدا ہوسکتی ہے۔۔۔یعنی کائنات کی عقل اول۔ اس سے کثرت پیدا ہوتی ہے۔
(1) جب عقل اول اپنی علت کا خیال کرتی ہے تو ایک تیسری عقل پیدا ہوتی ہے جو بیرونی افلاک کی خالق ہے۔
(2) جب یہ تیسری عقل اپنی حقیقت پر غور کرتی ہے تو ایک نفس ( جو ہر حیات ) پیدا ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے افلاک کی عقل کارفرما ہوتی ہے ۔
(3) جس حد تک عقل اول ممکن بالذات ہے اس سے ایک جسم پیدا ہوتا ہے یعنی بیرونی فلک اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔ ہر عقل اپنے اندر سے ایک تثلیث پیدا کرتی ہے۔۔۔عقل، نفس، جسم۔ چونکہ عقل بلاواسطہ جسم کو حرکت میں نہیں لاسکتی اس لیے اُسے اپنے فعل کے لیے نفس کی ضرورت ہے۔ آخر میں عقل فعال آتی ہے جو ارضی مادے مجسم صورتوں اور نفس انسانی کو پیدا کرتی اور تشکیل دیتی ہے۔ یہ سارا عمل جس کا تصور زماں میں نہیں ہوسکتا ایک حامل یعنی مادے کے اندر واقع ہوتا ہے۔ مادہ تمام موجودات کا قدیم امکان محض ہے اور عقل کو محدودکرتا ہے ۔ یہ تمام افراد کا جو ہر ہے۔

یہ خیالات راسخ العقیدہ مسلمانوں کے لیے قیامت سے کم نہ تھے۔ معتزلی متکلمین نے تو بس اتنا کہا تھا کہ خدا کوئی بری یا خلاف عقل بات نہیں کر سکتا۔لیکن اب ابن سینا کے ہاں فلسفے کا کہنا تھا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہونے کے بجائے صرف ان چیزوں پر قدرت رکھتا ہے جو بالذات ممکن ہیں اور بلا واسطہ صرف عقل اول کو پیدا کرتا ہے۔

قوائیت(Potentiality) اور واقعیت (Actuality) کے ارسطوئی نظریات ابن سینا کی فکر میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ وہ خاص طور پر اس کے نظر یہ علم اور تصور روح میں اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ روح کو عقل فعال سے صادر شدہ قرار دیتا اور کہتا ہے کہ یہ نباتی حیوانی یا منطقی ہوسکتی ہے۔ روح جسم کی جانداری ہے اور جسم روح کی وجہ سے ہی وجود میں آ تا ہے، یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو جسم سے پہلے وجود رکھتی ہو۔ صرف انسانی روح استدلالیت کے قابل ہے لہٰذا اسے جسم اور اس کے جذبات پر مختار ہونا چاہیے۔موت آنے پر روح جسم سے جدا ہو جاتی ہے۔ اگر یہ اپنی منطقی قوائیت کا ادراک حاصل کر لے تو حالت دفور میں اعلی تر اصولوں پر ابدی طور پر غوروفکر کے قابل بن جاتی ہے۔ نا کام رہنے پر یہ دوبارہ جسم کی جستجو میں ابدی عذاب سہتی ہے ۔
ابن سینا کا تصور کا ئنات راسخ العقیدہ مسلمان اہل فکر سے مختلف تھا۔ وہ کائنات کو واحد خلیقی عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ازل سے موجود سمجھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابن سینا نے اسلام پر کار بند رہتے ہوئے بھی عربوں اور ان کے ذریعہ یورپ میں قدیم دنیا کی فلسفیانہ و سائنسی روایت کو پھیلانے میں خاصا بڑا کردار ادا کیا۔ اس کی تحریر میں بارہویں صدی عیسوی کے دوران چین میں لاطینی میں ترجمہ ہوئیں۔انہوں نے نہ صرف ٹامس آ کونیس بلکہ بحیثیت مجموعی قرون وسطی کے فلسفہ پر بھی اثر ڈالا۔ ابن سینا نے اسلامی الہیات کو روایتی یونانی فکر کے ساتھ مدغم کر دیا ۔ اس محتاط طور پر منطقی تالیف کو گیارھویں صدی کے اواخر میں الغزالی کی جانب زبردست چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply