خاندان(ایک کہانی)۔۔۔شاہد محمود ایڈووکیٹ

شائستہ کا شوہر جمال ایک محنتی، ایمان دار، اپنے کام سے کام رکھنے والا کم گو اور ذرا سخت مزاج انسان تھا جو گھر گرہستی کی ذمہ داریاں بغیر کہے پوری کر دیتا۔ بیوی بچوں کی ضروریات، گھر کا راشن، یوٹیلیٹی بل، بچوں کی فیسیں سب بن کہے وقت پر ادا کرتا۔ پر اس کی طبیعت کی خشک مزاجی سے اس کے بیوی بچے اس کی موجودگی میں اپنے ہی گھر میں سہمے سہمے رہتے۔ جمال سمجھتا تھا کہ یہ رعب داب بیوی بچوں کو ڈسپلن میں رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ اس کے رویے کی وجہ سے اس کے اور بچوں کے درمیان حتی کہ اس کے اور شائستہ کے درمیان بھی اپنائیت کا فقدان تھا۔ گھر ایسے لگتا تھا جیسے ہاسٹل ہو۔ جمال کو کورونا وائرس کی وجہ سے چند دن مسلسل گھر رہنا پڑا تو بیوی بچوں کے ساتھ بھی بے تکلفی سے بات تک نہ کر سکنے کی عادت کی وجہ سے اسے گھر کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا۔ اسے لگا جیسے وہ اپنے ہی گھر میں اجنبی ہو۔

اس بات کا تذکرہ اس نے ملاقات کے لئے آئے اپنے کاروباری دوست سلیم سے کیا۔ سلیم نے پوچھا کیا آپ کو اپنے بیوی بچوں کی طرف سے کوئی پریشانی ہے تو جمال بولا نہیں یار، اللہ کے فضل سے، میری بیوی اور اولاد بہت اچھی، فرماں بردار،،خدمت گزار اور نیک ہے۔ پر اللہ جانے مجھے گھر میں سکون کیوں نہیں ملتا، میں تو مولوی صاحب سے پوچھ کر سکون قلب کا وظیفہ بھی کرتا ہوں۔ سلیم نے پوچھا یہ جو بیوی و اولاد کی تعریف میرے سامنے کر رہے ہو یہ باتیں کبھی انہیں بھی کہیں ہیں؟ جمال بولا نہیں یار یہ بھی کوئی کرنے والی باتیں ہیں اس طرح بیوی بچوں پر رعب نہیں رہتا اور گھر کا نظم و ضبط تباہ ہو جاتا ہے بس میں ان کی سب ضروریات ان کے بنا کہے پوری کر دیتا ہوں۔

سلیم بولا، گھر کا نظم و نسق نہیں تمہارا سکون تباہ ہو رہا ہے ساتھ اسی کیفیت سے تمہارے بیوی بچے بھی دوچار ہوں گے۔ ان کی ضروریات پوری کرنا تو تمہارا فرض ہے لیکن یہ فرض رعب کی بجائے اپنائیت سے ادا کرو، پیار سے ادا کرو تو اپنے آپ کو اپنے گھر میں ہی اجنبی و بے سکون نہ پاو۔ یہ کہہ کر سلیم تو کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلا گیا لیکن جمال کے ذہن میں زندگی کی فلم چلنا شروع ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں بیوی بچوں کے سہمے ہوئے چہرے گھوم گئے۔ اس نے ایک نئے عزم کے ساتھ بیٹھک سے گھر کے اندر کا رخ کیا تو اس کی بیوی صحن میں واشنگ مشین لگائے کپڑے دھو رہی تھی۔ جمال نے اپنی بیوی کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے کہا؛ شائستہ؛ میں تم جیسی پیاری و فرماں بردار و صبر شکر کرنے والی بیوی ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور تم نے میرے بچوں کی تربیت بھی بہت اچھی کی ہے۔

یہ سننا تھا کہ شائستہ کو جیسے چکر آ گئے اور وہ سہارا لے کر پاس بچھی چارپائی پر بیٹھتی چلی گئی۔ جمال نے گھبرا کر اپنی بیٹی شگفتہ کو آواز دی کہ ماں کے لئے پانی لے کر آئے تو شگفتہ کے ساتھ اس کا بیٹا بھی بھاگا ہوا ماں کے پاس ایا۔ ماں کو پانی دیا تو شائستہ نے کہا بیٹی اپنے باپ کو ٹھنڈا شربت پلاو لگتا گرمی کا اثر ہو گیا اور بیٹے سے کہنے لگی ناصر تم بھاگ کر ڈاکٹر کو بلا لاو تمہارے ابا آج عجیب بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ سب سن دیکھ کر جمال بولا؛ شائستہ آج ہی تو مجھے ہوش آیا ہے کہ اللہ پاک کا شکر ادا کروں کہ اس نے مجھے تم جیسی صابر شاکر بیوی اور نیک فرماں بردار اولاد سے نوازا ہے۔ بس میں اس کا اظہار تم لوگوں سے نہ کر سکا۔ وہ تو سلیم کی باتوں نے میری آنکھیں کھول دیں کہ میرے دل کا سکون تو تم لوگوں کی خوشی میں ہے۔ تم لوگ ہی تو میرے اپنے ہو جن کے ساتھ میں اپنے ہی گھر میں اجنبیوں کی طرح زندگی گزار رہا تھا تو مجھے سکون کیسے ملتا؟ اپنے باپ کی باتیں سن کر شگفتہ و ناصر بے ساختہ اپنے باپ کے گلے لگ گئے اور کہنے لگے بابا آپ بہت اچھے ہیں۔ بس ہمیں آپ سے ڈر لگتا تھا تو آپ سے کہہ نہیں پاتے تھے۔ ناصر کہنے لگا؛ ابو جان! آپ کو پتا ہے عید کے علاوہ آج پہلی مرتبہ میں آپ کے سینے سے لگا ہوں تو ایسا لگتا ہے میرے اندر ٹھنڈ پڑ گئی ہے، آپ کا پیار روح تک سرایت کر گیا ہے اور شائستہ کی آنکھوں میں خوشی و شکرانے کے آنسو تھے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سلامتیاں، ڈھیروں پیار اور محبت بھری پرخلوص دعائیں۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply