ملالہ اور شیطان

ملالہ یوسفزئی پر 2012 میں حملہ ہوا تھا۔ اس کی عمر اُس وقت 15 سال تھی، حملے کے وقت سکول وین سے گھر جا تے ہوئے اس کے سر میں گولی لگی تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی اور اس حملے کا مرکزی ملزم عطا اللہ اور اس کے 10 ساتھی شوکت، عرفان، اظہار، اسرار، سلیمان، بلال، ظفرعلی، سلیمان، اکرام اور عدنان کا تعلق سوات سے تھا، حملے کے بعد وہ افغانستان فرار ہوگئے، جس کے بعد 2013 اور 2014 میں سکیورٹی فورسز نے مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے حملے میں معاونت کرنے والے 10 ملزمان کو گرفتار کیا تھا جن کی شناخت شروع میں خفیہ رکھی گئی اور بعد میں مقدمہ چلا کر ان کو سزا سنا دی گئی تھی ۔
ملالہ کو نوبل پرائز اور دوسرے بہت سے اعزازات ملنے کے بعد اب کینیڈا کی اعزازی شہریت بھی مل گئی ہے- کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ملالہ کی تعریف کی اور اسے”کینیڈا کی سب سے نئی اور شاید بہادر شہری” قرار دیا۔ اب وہ انیس برس کی ہے ، اتنی چھوٹی عمر میں اتنی کامیابی قسمت سے ہی ملتی ہے، وہ بھی ایک لڑکی کو جو کہ پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملالہ نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ وہ پاکستانی ہے اور ہمیں اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یہ ساری معلومات دینے کے بعد میں نے اپنے مولوی نما دوست کی طرف دیکھا، سگریٹ کی راکھ بجھائی اور ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بولا۔۔۔ ملالہ نے بہت ترقی کی، اس ترقی کو روکنے کے لیئے اب نہ جانے شیطان کی اگلی چال کیا ہو گی؟ یہ سن کر میرے مولوی نما دوست کے ماتھے پر بل پڑ گئے، تیوری چڑھ گئی اور عجیب و غریب اندز میں گویا ہوا کہ اصل میں ملالہ کو ترقی شیطان ہی دے رہا ہے ۔ یہ سب شیطانی کھیل ہے۔ میرے بھولے جٹ وڑائچ تم ان چیزوں کو نہیں سمجھتے وہ بچی بچپن سے ہی استعمال ہو رہی ہے۔ شیطان اس کو پال رہا ہے۔ وہ طاغوتی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ وہ شیطان کے نرغے میں ہے۔ یہ بہت بڑی سازش ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دے گی اور ہم بس ہاتھ ملتے رہ جا ئیں گے ۔ مولوی نما دوست نے پر جوش تقریر کی۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا،میری ہنسی چھوٹ گئی۔ او کاٹھ کے اُلو ! ۔۔۔۔۔ تو کیا تم اس ملالہ ،شیطان کی پرکالہ کو جا کر قتل کرو گے؟ تب شیطان کس پر سوار ہو گا ؟او کنویں کے مینڈک ۔۔۔ مسلمان تو صدیوں سے ہاتھ ملتے آ رہے ہیں بلکہ ہاتھ رگڑ رہے ہیں ، ہاتھ رگڑنا تو تم مولوی لوگ اچھی طرح سمجھتے ہو، ہے نا !! یہ کہتے ہوئے میں نے اس کی گردن پر ایک چپت لگائی اور ہم دونوں قہقہے لگاتے ہوئے سینما میں گھس گئے، آج بیوٹی اینڈ دی بیسٹ کا آخری شو تھا۔

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply