جنگ سے پہلے پاک بھارت میڈیا کا کردار

بچپن میں ہمیں ہمارے بڑے یہ سکھایا کرتے تھے کہ جہاں دو لوگوں کو جھگڑتا ہوا دیکھو تو ان میں صلح کروانے کی کوشش کرو نہ کہ "جلتی پر تیل ڈالو"۔ "لڑائی لڑائی معاف کرو اللہ کا گھر صاف کرو" جیسی دل کو لگنے والی باتیں کس کے بچپن کی زینت نہیں رہیں؟ مگر صد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا معاشرہ جیسے جیسے "بڑا" ہو رہا ہے ویسے ویسے بچپن کے یہ سادہ مگر قیمتی سبق بھلاتا جا رہا ہے۔

حال ہی میں بھارت اور پاکستان کی جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کشیدگی کے پیدا ہونے کے اسباب جو بھی ہوں مگر سب جانتے ہیں کہ دونوں ایٹمی قوتیں ہیں، یہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہو گی۔ اور سچ پوچھیں تو میں جانتا ہوں کہ یہ جنگ ہو گی ہی نہیں، کیونکہ دونوں ممالک کی افواج میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس حقیقت سے واقف ہیں کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کتنی بھیانک ہو سکتی ہے۔ قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں، لوگوں کی مائیں، بہنیں، باپ، بھائی، بچے ہلاک ہوتے ہیں۔ شہر کے شہر برباد ہو جاتے ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں۔ آنے والی کئی نسلیں اس کی قیمت چکاتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی نقصان اپنی جگہ ہے، پہلے ہی ہم دنیا میں ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہیں، جنگ تو ہمارے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو گی۔

اس کے باوجود نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے میڈیا کا کردار نہایت برا رہا ہے۔ میڈیا نے بجائے دونوں میں صلح کے مواقع پیدا کرنے کے، "جلتی پر تیل" ہی ڈالا ہے۔ اس کو عوام کو جذبہ دلانے کا نام تو دیا جاتا ہے مگر در حقیقت اس سے عوام مشتعل ہوتے ہیں۔ جب عوام مشتعل ہوتے ہیں اور اس "بے ہوش جوش" میں جنگ کو ہی اپنا نصب العین سمجھنے لگتے ہیں تو سیاستدانوں پر عوام کی اس رائے کا دباؤ پڑنے لگتا ہے۔ اس سے سیاستدانوں اور ملکی قیادت کے غلط فیصلوں کے امکانات بڑھتے ہیں اور انہیں اس چیز کا جواز بھی مہیا ہوتا ہے کہ وہ جنگ چھیڑ ہی دیں۔

اس میں پاکستانی میڈیا کی نسبت بھارتی میڈیا کا کردار حسبِ توقع زیادہ مضر رہا ہے۔ نہ صرف میڈیا بلکہ بھارتی سیاستدانوں اور صاحبانِ اقتدار کی طرف سے فی الفور بغیر تسلی بخش شواہد کے پاکستان کو جارحیت اور دہشت گردی کے کچھ واقعات کا ذمہ دار قرار دینا بھی شدید قابلِ مذمت ہے۔ میرے ذاتی تجربے کی حد تک بھارتی میڈیا کی طرف سے اس طرح کی متعصبانہ اور جانبدارانہ صحافت کوئی نئی بات نہیں۔ البتہ اس کا جواب پاکستان کی طرف سے متشددانہ اور جذباتیات پر مبنی تقریروں سے نہیں بلکہ عالمی ضمیر اور انسانی عقل کو مخاطب کرتے ہوئے متعصبانہ بیانات اور بے بنیاد الزامات کا جواب دینا ہونا چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری جانب سے اس درست لائحۂ عمل کی شرح میڈیا پر چلنے والے پروگراموں اور سوشل میڈیا پر عوام کی طرف سے آنے والے ردِ عمل کی حد تک تسلی بخش سطح سے بہت نیچے رہی ہے۔

برِ صغیر میں میڈیا کے اس کردار کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں۔ ان دونوں کے ملاپ سے یہ طرزِ عمل جنم لیتا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ بحیثیتِ مجموعی بھارت اور پاکستان کی عوام کی تربیت میں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کا بہت فقدان ہے۔ اس کا مظاہرہ ذاتی، خاندانی اور ازدواجی زندگی سے لے کر ہماری تجارت، الیکشن اور داخلی و خارجہ پالیسیوں تک ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو اپنے لیے ایک الگ مضمون یا شاید کتاب کا مستحق ہے مگر قصہ مختصر یہ کہ ہمارے یہاں جذباتی اور جوشیلے فیصلوں کو نہ صرف کہ زیادہ درست سمجھا جاتا ہے بلکہ انہیں سراہا جاتا اور خوب پزیرائی سے نوازا جاتا ہے۔ جو شخص جذبات سے ہٹ کر دانست کی بات کرے اسے پہلے ہی درجے میں "بے غیرت" قرار دے دیا جاتا ہے یا پھر خارجی قوتوں کا ایجنٹ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ٹی وی میڈیا میں چینلز ایک دوسرے کے ساتھ شدید مقابلے میں ہیں۔ ہر چینل دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور اپنی برتری کو ہر روز اپنے ناظرین کے سامنے ثابت کرنا اور بار بار اس کی یاددہانی کروانا چاہتا ہے۔ فی نفسہ اگرچہ یہ کوئی بری چیز نہیں مگر یہ اس چاقو کی مانند ہے جو ایک باورچی کے ہاتھ میں ہو تو آلۂ کار ہے اور بچے کے ہاتھ میں ہو تو مہلک ہتھیار۔ چونکہ یہ مقابلہ ایسی عوام کے سامنے ہو رہا ہے جو چیزوں کو ڈرامائی انداز میں سننا، دیکھنا اور سمجھنا پسند کرتی ہے لہذا اس مقابلے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ میڈیا عوام کے مزاج کو جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، سامنے رکھتے ہوئے خبریں اور پروگرام بھی ویسے ہی چلاتا ہے جو ان کے اس مزاج کو نہ صرف کہ تسکین پہنچائیں بلکہ اس کی مزید نشو نما کریں۔ یہ موضوع بھی پہلے کی مانند ایک طویل مضمون یا کتاب کا مستحق ہے۔ انشاء اللہ مستقبل میں ان دونوں موضوعات پر اپنے تاثرات کا اظہار کروں گا۔

اس میں کیا شک ہے کہ اگر خدا نخواستہ ہمارے ملک پر کوئی دشمن حملہ کر ڈالے، یا ہمارے وطن کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرے، یا ہماری دھرتی کی طرف گندی نگاہوں سے دیکھے تو ہمیں بھی اس کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔ دونوں ممالک کے عوام اپنے وطن پر تن، من، دھن سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے ہر دم تیار ہیں۔ وطن کی حمیت اور سالمیت پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے اور نہ ہی اس کا کوئی سودا کیا جانا ہی ممکنات کی فہرست میں سے ہے۔ مگر ان تمام جوابات کے ساتھ ساتھ، اس چیز کی سعیِ پیہم کرتے رہنا چاہیے کہ کسی نہ کسی طریقے سے جنگ سے بچا اور حالات کی کشیدگی کو جلد از جلد ختم کیا جا سکے۔ نصب العین یہ ہونا چاہیے نہ کہ لاکھوں لوگوں کی جانوں سے کھیلنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دونوں ممالک کے دانشوروں، کالم نگاروں، لکھاریوں، صحافیوں، مذہبی راہنماؤں اور دیگر بزرگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کو جذبات کی دنیا سے نکال کر حقیقت پسندانہ فیصلے کرنے کا سبق دیں۔ جیسے بچپن میں ہمارے بڑے ہمیں اچھی اچھی باتیں سکھایا کرتے تھے۔ اسی طرح دونوں ملکوں کے میڈیا کو چاہیے کہ حقیقی معنوں میں بڑے ہو جائیں اور بچپن کے سیکھے ہوئے سبق یاد کریں۔

Facebook Comments

محمد سعد علی
جرمنی میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔ مذہب اور سماجیات پر لکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply