• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • کورونا سے نہ مرے تو کیا بھوک سے بچ پائیں گے ؟۔۔شہنیلا ارمان

کورونا سے نہ مرے تو کیا بھوک سے بچ پائیں گے ؟۔۔شہنیلا ارمان

کچھ عرصہ  پہلے حکومت پاکستان کی  جانب سے ایک سروے این ایس ای آر (نان سوشیو ایکنامک رجسٹری ) شروع ہوا تھا جس میں لوگوں کے گھروں میں جا کر انکا ڈیٹا لیا جا رہا  تھا  ۔ اس سروے کے تحت وہ گھر انے جو مستحق ہیں انھیں راشن کارڈ ، صحت کارڈ اور پلاٹ اسکیم جیسی سہولتیں جانچ پڑتال کے بعد فراہم ہوں گی ۔
جس دوران یہ سروے شروع ہوا تھا اتفاق سے اسی دوران ہمارے سر پر  نوکری کرنے کا بھوت سوار ہوا ، بس پھر کیا تھا کہیں سے پتا لگا کے یہاں ویکنسی آئی ہوئی ہے تو فوراً اپلائے کر دیا ، کچھ ہی دنوں بعد ٹیسٹ کی کال آ گئی، ٹیسٹ بھی دے دیا ، انٹرویو بھی دے دیا اور آرام سے سلیکٹ بھی ہو گئے ۔ چونکہ  ہمیں بچپن سے ہی سوشل ورک کرنے ، لوگوں کی مدد کرنے ، ہر کمیونٹی کے بیچ رہ کر انکے  حالاتِ  زندگی جاننے کا شوق تھا اس لئے ہمارے لئے یہ کام بہت دلچسپ ثابت ہونے والا تھا اس لئے ہم جاب کے پہلے دن سے پہلے قدرے حد تک پُر جوش تھے لیکن کام شروع ہونے کے بعد اپنی  خرابی صحت کے باعث  مشکل سے بیس دن ہی ہم نے کام کیا ہوگا لیکن ان بیس دنوں میں ہی ہم نے بہت سے ایڈونچر کیے، جیسے کہ  مردوں کے ہوٹلوں میں ہم لڑکیوں کے ٹولے کا بیٹھ کے کھانا کھانا ، کرسچن سوسائٹی جانا ،انکی عبادت گاہیں دیکھنا ، ایک خواجہ سرا کے پاس تقریباً گھنٹے بیٹھ کر اسکا حال دل سننا ،اسے تسلی دینا ، اپنی اس بیس دن کے اس چھوٹے سے سفر میں   ہماری ملاقات ہر طرح کے طبقے ، ہر زبان ، ہر نسل کے لوگوں سے ہوئی ، لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر قہقہے  بھی لگائے تو بہت سوں  کے حالات جان کر روئے بھی ۔

اسی دوران ہماری ملاقات ایک گھرانے سے ہوئی جن کے گھر میں کفیل صرف ایک بوڑھا باپ تھا وہ بھی کچھ عرصے پہلے فالج جیسی بیماری میں مبتلا ہو چکا تھا ، چار جوان بیٹیاں گھر بیٹھی تھیں، جس میں سے ایک طلاق یافتہ تھی ، ماں کام کیا کرتی تھی جس سے انکا مشکل سے تین وقت کے کھانے کا گزارا ہو رہا  تھا ، ان چھ لوگوں پر مشتمل   فیملی ایک چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے کرائے کے گھر میں رہتی تھی

آج ہم بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ  دوسرا نوالہ اٹھاتے ہی نجانے کیوں ان چھ لوگوں  پر مشتمل خاندان ہماری آنکھوں کے سامنے لہرایا ، اس ماں کا بےبس چہرہ جسکی آنکھوں میں دنیا جہاں کی تھکاوٹ کسی اندھے کو بھی نظر آ سکتی تھی ، اس باپ   کا  اپنی بیماری سے بیزار ہو کر جھنجھلاتے ہوئے اپنا سر پیٹنا ہماری آنکھوں کے سامنے آگیا، اچانک ہی اسی وقت ہمیں خیال آیا کہ  عام دنوں میں جب انکے گھر تین وقت کا کھانا مشکل تھا تو اب جبکہ  تقریباً چار ماہ سے لاک ڈاؤن لگا ہوا ہے اب انکا کیا حال ہو رہا ہوگا ، اس فیملی کا خیال آتے ہی ہمارے ذہن میں ان باقی لوگوں کی تصویر چلنے لگی جن سے ہماری ملاقات ہوئی تھی جن کے گھروں کی حالت اس گھرانے سے زیادہ مختلف نہ  تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تب سے اب تک ہمارے ذہن میں صرف ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے کہ  اگر وہ لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں بند ہو کر اپنی جان بچا رہے ہیں تو کیا گھروں میں بند ہو کر بنا کوئی کام کئے ، بغیر کسی ذرائع آمدنی کے بھوکے رہ کر اپنی جان بچا پائیں ے ؟ اگر وہ کورونا سے نہ  مرے تو کیا بھوک سے بچ پا پائیں گے ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply