جب اپنے سے زیادہ طاقتور فریق ٹکرتا ہے

اندازہ کریں ایسا ملک جہاں ایک ایم-این-اے اپنے جتھے کے ساتھ تھانے پر حملہ کرتا ہے اور اپنے بندے چھڑوا کے بڑے آرام سے چلا جاتا ہے، بات پرنٹ اور سوشل میڈیا تک آتی ہے، شور اٹھتا ہے لیکن ہوتا “ککھ” نہیں۔
14 جون، 2014 کو لاہور ماڈل ٹاؤن میں پولیس نے عوامی اجتماع پر سیدھی سیدھی گولیاں چلائیں، چودہ بندے مرے، مقتولین کے ورثا کو رپورٹ درج کروانے میں عرصہ لگ گیا۔ ہوا پھر بھی “ککھ” نہیں۔اگست، 2015 میں ملک کی تاریخ کا شرمناک ترین سکینڈل منظر عام پر آ تا ہے جہاں سینکڑوں بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ویڈیوز بنائی گئیں اور ان بچوں کے گھر والوں کو بلیک میل کیا گیا۔ کھرا اس علاقہ کی ایک معروف سیاسی شخصیت تک پہنچا، ہر طرف شور اٹھا، ایک بار پھر ہوا “ککھ” نہیں۔
یہ تو وہ واقعات ہیں جن میں ایک فریق حکومت یا کوئی حکومتی اہلکار تھا۔
ملک کی عدلیہ اس وقت تک خاموش رہتی ہے جب تک اگلا فریق پہلے والے سے زیادہ طاقتور نہ نکل آئے۔ اس طرح کے کچھ مواقع پر عدلیہ جاگی، بلا کی پھرتی دکھائی اور وہ حیرت انگیز فیصلے کیے کہ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں امر ہو گئے۔ وہ تمام کیس جو پوری تندہی سے سنے گئے اور جو فیصلے آئے وہ عمومی توقعات سے بالکل ہی برعکس تھے۔سب سے بڑی مثال بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف پر غداری کے مقدمے والا فیصلہ ہے۔یہ وہ مقدمے تھے جن میں اتفاق سے دوسرا فریق پہلے سے بھی زیادہ طاقتور نکل آیا تھا۔
جس قدر توجہ سے عدلہ نےپانامہ کیس سنا ہے جس طرح تیزی سے پیشیاں اور تاریخیں دی گئیں، ڈائیلاگ بولے اور لکھے گئے وہ بھی ان کے خلاف جن کے کچھ ایم-این-ایز کے کارنامے اوپر لکھے گئے ہیں۔اس کیس میں بھی لگتا یوں ہے کہ طاقتور کو اپنے سے زیادہ طاقتور ٹکر گیا ہے ۔لہٰذا کسی بہت ہی حیرت انگیز فیصلے کا انتظار کریں۔ ایسا فیصلہ جو کسی کے بھی وہم و گمان میں نہ ہو۔

Facebook Comments

راحیل افضل
بائیں ہاتھ سے لکھتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply