کوئٹہ اور خون کی ہولی

ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے

ابھی تازہ کُھدی قبروں کی مٹّی بھی نہیں سُوکھی (اختر عثمان)

کوئٹہ ایک بار پھر سے لہو لہان ہے۔ اب کی بار نشانہ پولیس کی تربیت حاصل کرنے والے افراد بنے ہیں اور اس پر تبصرہ کرنے والوں کے جتنے منہ ہیں اتنی ہی بھانت بھانت کی بولیاں بھی سنائی دے رہی ہیں۔ صرف گذشتہ ۱۰ مہینوں میں ۲۵۰ افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں اور ۳۰۰ سے اوپر افراد زخمی بدن لیے امن کی فاختہ کے انتظار میں ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان ۲۵۰ افراد میں مرد و زن کی کوئی تمیز موجود نہیں حتیٰ یہ کہ ۱۰۰ سے اوپر افراد صرف سیکیورٹی فورسز سے منسلک ہیں۔ ان اعداد و شمار سے کم از کم ایک بات تو ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ "شناخت کر کے بہایا گیا ہے میرا لہو"

Advertisements
julia rana solicitors london

سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ وہ کون ہے جو سیکیورٹی اداروں کا بھی دشمن ہے، دھرتی کے ناسوروں کو بے نقاب کرنے والے وکیلوں کی جان کے بھی درپے ہے، ہزارہ برادری کے وجود سے بھی خائف ہے۔۔۔ ہر بات میں بھارت پر ملبہ ڈال دینے والے ارباب سے البتہ اتنا ضرور سوال ہے کہ اس دیدہ دلیری کے ساتھ دہشت گردی کے اتنے واقعات اگر بھارت سے آنے والے جاسوس ہی کر رہے ہیں تو پھر آپ کی سیکیورٹی ایجنسیز کیا ستو پر کر سو رہی ہیں۔۔ اور اگر یہ کوئی لشکر یا سپاہ کر رہی ہے تو حکمران اور کس قیامت کا انتظار کر رہے ہیں؟ دانشور حضرات فرماتے ہیں کہ جی مشکل وقت ہے ایسے میں اداروں سے کوِئی سوال نہ کیا جائے۔ اس بات پر تو میں فقط یہی عرض کروں گا کہ یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کسی زیادتی کی شکار خاتون سے کہا جائے کہ مقدمہ نہ کرنا بدنامی ہو گی۔۔ حضور عزت تو بیچ بازار نیلام ہو رہی ہے آپ کس کو کس سے بچانا چاہتے ہیں؟

Facebook Comments

صفدر جعفری
خود اپنی تلاش میں سرگرداں۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply