• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • کوئٹہ میں پھر دہشت گردی،اہم اجلاس کے بجائے بڑی کارروائی کی ضرورت

کوئٹہ میں پھر دہشت گردی،اہم اجلاس کے بجائے بڑی کارروائی کی ضرورت

طاہر یاسین طاہر کے قلم سے

جب بھی دہشت گردی کاکوئی بڑا سانحہ ہوتا ہے تو حسب معمول وزیر اعظم صاحب کی سربراہی میں سیکیورٹی کے حوالے سے غیر معمولی اجلاس بلایا جاتا ہے،اس اجلاس میں متعلقہ اداروں کے سربراہان و ذمہ داران شریک ہوتے ہیں، اجلاس میں دہشت گردی کے واقعے میں ملوث عناصر،گروہ یا تنظیم کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا جاتا ہے، ساتھ ہی دہشت گردی کی کارروائی کی مذمت بھی کی جاتی ہے اورصوبائی و وفاقی حکومتوں کی طرف سے شہدا اور زخمیوں کے لیے ایک’’پیکج‘‘ کا اعلان بھی کر دیا جاتا ہے۔ہر واقعے کے بعد یہ بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے،بس وہ شکست خوردگی میں معصوم شہریوں اور آسان ہدف کو نشانہ بنا کر خوف و ہراس پھیلاتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں تسلیم کیے بنا چارہ نہیں ہوتا۔ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ ہماری سیکورٹی فورسز اور پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں پاکستان کے عوام کی بڑی تعداد بھی خود کش حملوں اور دیگر دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنی،یہ حقیقت ہے،مگر یہ بھی سچ ہے کہ دہشت گرد جب اور جہاں چاہتےہیں کارروائی کر گذرتے ہیں۔ضرب عضب کے بعد خود کش حملوں کی تعداد میں کمی ضرور آئی ہے لیکن اب بھی دہشت گرد اپنی مرضی کا ہدف لے کر بڑا نقصان کر رہے ہیں۔کوئٹہ اس حوالے سے بد قسمتی کا شکار ہے۔ کے پی کے اور کوئٹہ ایسے ایریاز ہیں جہاں سے افغانستان کے بارڈر ملتے ہیں اور آمد و رفت ہوتی ہے۔

کوئٹہ کا مسئلہ صرف دہشت گردی ہی نہیں بلکہ سہ جہتی دہشت گردی ہے۔وہاں لشکر جھنگوی اب بھی فعال ہے اور اس کی کارروائیاں اس امر پر شاید ہیں۔ رمضان مینگل اس دہشت گرد تنظیم کو کنٹرول کر رہا ہے مگر ساتھ ساتھ وہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے بھی دو ہاتھ کر لیتا ہے جس کے باعث اس پر ہاتھ نہیں ڈالا جا رہا۔ یہ تنظیم ایران و عراق جانےوالے زائرین کو بسوں سے اتار کر شناخت کر کے مارتی ہے تو کبھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے اسی نوے آدمی ایک ہی وار میں تمام کر دیتی ہے۔وہاں بلوچ علیحدگی پسند بھی اپنے خلاف کارروائیوں کا ردعمل دیتے ہیں۔جبکہ افغان و بھارتی ایجنسیوں کا کھیل بھی پوشیدہ نہیں۔

جو ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بنتے ہیں یا جوملک دہشت گردانہ و فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں انھیں اس نوع کے مسائل اور ردعمل کا سامنا بہرحال کرنا ہی پڑتا ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جہاں دہشت گردی ہوتی ہے وہاں ہی جوابی کارروائی کرتے ہیں۔سانحہ پشاور کے بعد بھی یہ بیان اعلیٰ عسکری و سول اداروں کی جانب سے آیا تھا کہ دہشت گرد وں کا افغانستان سے مسلسل رابطہ تھا،جبکہ پولیس کالج کوئٹہ سریاب روڈ کے گزشتہ رات ہونے والے حملے کے بعد بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کا افغانستان میں مسلسل رابطہ تھا۔ یقیناً ہوا گا اور آپریشن کو کنٹرول بھی وہیں سے کیا گیا ہوگا۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس حملے کی پہلے سے دھکی تھی۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ دھمکی کے باوجود سیکیورٹی کے مناسب انتظامات کیوں نہ کیے گئے؟ کچھ دن پہلے حکومت نے شیڈول فورتھ میں شامل افراد کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹ معطل کر دیے تھے،اور پھر ہم نے دیکھا کہ اپنی معطل شدہ شہریت کے ساتھ کالعدم تنظیموں کے سربراہ وزیر داخلہ صاحب سے جا ملے۔یوں ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ ہم ابھی تک دہشت گردی کے خلاف اس کارروئی میں’’پک ایڈ چوز‘‘ والی کیفیت میں ہیں۔یاد رہے کہ’’کوئٹہ میں پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے حملے کے بعد بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل شیر افگن نے کہا کہ اس حملے میں لشکر جھنگوی العالمی ملوث ہے اور حملہ آور افغانستان سے ہدایات لے رہے تھے۔تاہم تحریکِ طالبان پاکستان کراچی کے نام سے بی بی سی کو موصول ایک پیغام میں حکیم اللہ محسود گروپ کے ملا داؤد منصور کی جانب سے یہ حملہ کرنے کا دعویٰ سامنے آیا ہے تاہم آزاد ذرائع سے ‏اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔بیان کے مطابق اس حملے میں چار حملہ آور شامل تھے اور یہ حکومتی کارروائیوں کا ردعمل ہے۔ادھر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے منگل کی صبح بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ایک مبینہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا پیغام تو جاری کیا ہے لیکن پولیس کے تربیتی مرکز پر حملے کے بارے میں وہ خاموش ہیں۔لشکر جھنگوی سنہ 1996 میں ایک دوسری فرقہ وارانہ تنظیم سپاہ صحابہ کی کوکھ سے پیدا ہوئی تھی‘‘پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع پولیس ٹریننگ کالج پر شدت پسندوں کے حملے میں درجنوں اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین سول اور فوجی قیادت نےکوئٹہ میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کی۔پیر اور منگل کی درمیانی شب ہونے والے اس حملے میں پولیس کے 60 اور ایک فوجی اہلکارشہید جبکہ 120 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔پولیس حکام نے زخمیوں کی تعداد 124 بتائی ہے جن میں ریسکیو آپریشن میں شامل چار فوجی اور دو ایف سی کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے 20 کی حالت تشویشناک ہے۔حملے میں شہید ہونے والے اہلکاروں کی اجتماعی نماز جنازہ کوئٹہ کینٹ میں واقع موسیٰ سٹیڈیم میں ادا کی گئی جس میں وزیراعظم اور آرمی چیف نے بھی شرکت کی۔اس حملے کی ذمہ داری عالمی دہشت گرد تنظیم دولتِ اسلامیہ نے قبول کی ہے۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ امر واقعی ہے کہ لشکر جھنگوی العالمی ہو یا داعش، کالعدم تحریک طالبان ہویا کالعدم سپاہ صحابہ یا اس کی’’ کالعدمی‘‘ کے بعد نئے نام سے ظہور کرنے والی اس کی کوئی اور شاخ ،سب فکری رویےمیں ایک ہی ہیں۔ حملہ لشکر جھنگوی کے دہشت گرد کریں یا داعش کے دہشت گرد یا طالبانی دہشت گرد۔ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تمام قسم کے دہشت گردوں سے بچائے۔ایسے المناک واقعات کے بعد اعلیٰ سطح کے اجلاس یقیناً ہوا کرتے ہیں۔مگر اجلاس کے بعد میڈیا کو یہ خبر جاری کی جائے کہ ’’بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کےخلاف موثر کارروائی کا فیصلہ‘‘ تو اس کا مطلب یہی لیا جائے گا کہ جب دہشت گردوں نے جنوری سنہ 2013 میں ایک حملے میں 92 جبکہ فروری میں ایک بازار پر حملے میں 81 افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔تو ان سے در گذر کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جائے گا کہ جب اگست2016میں ہسپتال میں وکلا اور عام شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو بھی بلوچستان میں پناہ گزین دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف موثر کارروائی نہ کی گئی۔ اگر کی گئی ہوتی تو یہ واقعہ رونما نہ ہوتا۔اجلاس ضروری مگر دہشت گردوں کے خلاف کسی تخصیص کے بغیر کارروائی اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرے۔اس کے لیے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو نشانہ بنائے بغیر کامیابی موثر نہیں ہو گی۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply