پارک میں بیٹھا قانون شکن جوڑا

لاہور کے ریس کورس پارک میں ایک گوشہ معذور افراد کے لیے مختص ہے۔ اس کے گرد جنگلہ لگا کر حد بندی کی گئی ہے، معذور افراد کے سوا کسی دوسرے کو جانے کی اجازت نہیں۔ اب ایک تو حد بندی کی وجہ سے پارک کا یہ حصہ نکھرا نکھرا لگتا ہے، دوسرا اس میں روشیں اور کنارے لگی ترشی ہوئی جھاڑیاں نظر کو کھینچتی ہیں، تیسرا اس میں لگے جھولوں پر جھولنے کو جی چاہتا ہے۔

یوں تو ہم قانون پسند واقع ہوئے ہیں، لیکن اس روز مخصوص حصے میں ایک جوڑے کو بینچ پر خوش گپیاں کرتے اور ان کے بچوں کو جھولوں سے استفادہ کرتے دیکھا تو رہا نہ گیا۔ کینٹین کے عقب میں ایک راستہ وہاں کو جاتا تھا، وہیں سے داخل ہوگئے۔ ابھی جھولوں کی جانب بڑھے ہی تھے کہ گارڈ صاحب آن دھمکے۔ کہنے لگے یہاں آپ کو داخلے کی اجازت نہیں۔ ہم نے وہاں کھیلتے بچوں کی جانب اشارہ کرنا چاہا، لیکن اتنی دیر میں ان کی والدہ انہیں لے کر بینچ پر بیٹھے شوہر کے پاس جا چکی تھیں۔ ہمیں بحث پسند نہیں، ضابطوں کی بھی پابندی کرتےہیں۔ پھر گارڈ سے بحث کی بھی کیوں جائے؟ وہ تو بے چارہ تنخواہ دار ملازم ہے، اسے جو حکم ملتا ہے اس نے پورا کرانا ہے۔ ہم پارک کے ممنوعہ حصے میں پھریں گے تو ڈانٹ اسی غریب کو پڑے گی۔ بس یہ سوچ کر کچھ کہے بغیر واپس ہو لیے۔ اس خاندان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اتنا ضرور کہا، پھر انہیں کیوں نہیں نکالتے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

گارڈ نے کوئی تاویل پیش کی، ہم نے سنی نہیں۔۔۔ ہم خاتون کو دیکھ رہے تھے۔ ہمارے نکالے جانے پر ان کے چہرے پر مسکراہٹ سی تھی۔ عجیب سی مسکراہٹ۔ شاید احساس برتری سے بھرپور، یا پھر احساس ندامت لیے ہوئے۔ ہم طے نہ کر پائے کہ اپنے ساتھ خصوصی سلوک پر وہ خاتون مغرور ہیں یا شرمندہ۔ اسی وقت ایک اور خاندان بھی پارک میں داخل ہونا چاہتا تھا اور گارڈ سے الجھ رہا تھا۔ خاندان کا مرد سربراہ گارڈ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔۔۔ بلند آہنگ مغلظات کے دوران اس نے پارک میں بیٹھے میاں بیوی، ان کے دو بچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گارڈ سے کہا۔۔۔ یہ تمھارے رشتہ دار لگتے ہوں گے نا! ہماری نظریں پھر ان خاتون کی طرف اٹھیں۔ مسکراہٹ موجود تھی۔ تفاخر یا ندامت؟ فیصلہ نہ کر پائے اس مسکراہٹ میں بھید سا کیوں تھا؟ کہیں کہیں اس میں اداسی کی جھلک بھی آ جاتی۔ غالباً خاتون کو یہ سب اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔ ہم نے اداسی کو معنی پہنانے کی کوشش کی۔باہر نکل کر پارک کنارے دکان سے آئس کریم کھانے لگے۔ ایک دلچسپ سا کھیل شروع ہوا۔ وہ دونوں بچے جھولوں کی جانب جاتے تو گارڈ مضطرب ہو کر اٹھ کھڑا ہوتا۔ انہیں منع کرتا۔ خاتون بچوں کو واپس لانے کے لیے اٹھتیں لیکن اتنی دیر میں انہیں کھیلتے دیکھ کر کئی اور لوگ وہاں آ جاتے۔ گارڈ ان سے تکرار کرتا، وہ جوڑے کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے انہیں کیوں بیٹھنے دیا ہے؟ گارڈ کوئی جواب دیتا، خاتون کے چہرے پر وہی پراسرار سی مسکراہٹ کھیلنے لگتی۔بچوں کے لیے خاتون آئس کریم لینے آئیں۔ جی چاہا کہ ان سے خصوصی سلوک کی وجہ پوچھیں، معذور افراد کے لیے پارک میں کسی اور کو نہیں جانے دیتے تو وہ کیوں بیٹھے ہیں؟ کیا ان کے میاں بہت بڑے افسر ہیں یا پھر پارک کے ذمہ داران سے رشتہ داری ہے؟ سوالات یلغار کرتے رہے، پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بچوں کی آئس کریم لینے کے بعد لگا وہ چلنے کی تیاری میں ہیں۔ خاتون نے چیزیں سمیٹیں، ان کے شوہر اٹھتے ہوئے لڑکھڑا گئے۔ تب ہم نے حیرت اور خوف سے دیکھا۔۔۔ وہ چلنے پھرنے سے معذور تھے۔

Facebook Comments

عمیر محمود
فکر معاش اور فکر سخن کے درمیان زیست کرتا ایک طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply