انسپکٹر چوہدری صادق گجر شہید کا قتل(آخری قسط)۔۔عزیزا للہ خان

بُرے کام کا بُرا نتیجہ

ایس ایس پی اعظم جوئیہ کا فون سُنتے ہی ایک دفعہ تو میں پریشان ہو گیا مگر میں اپنی پریشانی اپنے ماتحتوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا اب تک جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے تھے جو لشکر جھنگوی والوں نے کیے تھے وہ چھپ کر کیے تھے کیوںکہ ایک گاڑی کو روک کر نشانہ بنانا بُہت آسان ہوتا ہے میں نے ملازمین کو ہوشیار ہو کر بیٹھنے کا کہا ایک ملازم سے میں نے کلاشنکوف خود لے لی تاکہ فرنٹ سیٹ سے میں بہتر طریقہ سے سب کی حفاظت کر سکوں جبار کی آنکھوں پر دوبارہ پٹی باندھ دی جو پہلے کھول دی تھی۔

ملک اسحاق کے خانہ فرہنگ مُلتان کے حملے کے بعد اُس کی رہائش سے ملنے والی ڈائری پر میں نے بُہت کام کیا تھا یہ ٹاسک اُس وقت کے ایس ایس پی مشتاق سُکھیرا نے میرے ذمہ لگایا تھا میں بُہت سے ایسے افراد کو بھی ملا تھا جن سے ملک اسحاق کا تعلق تھا مگر اُن میں سے کوئی بھی جرائم پیشہ نہ تھا مجھے اس بات کی بھی تسلی تھی کہ ملک اسحاق کبھی بھی جبار سندھی کو چھڑوانے کے لیے ایسی حرکت نہیں کرے گا کیونکہ جبارسندھی ایک جرائم پیشہ شخص تھا جو لشکر جھنگوی کی آڑ لے کر ڈکیٹیوں کی وارداتیں کرتا تھا اس کا تعلق غلام رسول عرف چھوٹو بکھرانی جیسے لوگوں سے زیادہ تھا اسلام کی طرف اس کا زیادہ رحجان بھی نہ تھا جبار سندھی ستار ارائیں شائسوار اور غلام رسول چھوٹو تھانہ اسلام گڑھ کی ایک بنک ڈکیٹی میں بھی ملوث تھے جہاں دوران ڈکیٹی ایک کانسٹیبل کو بھی انہوں نے شہید کر دیا تھا۔

میرے اور ایس ایس پی صاحب کے خدشات غلط نکلے اور ہم بخیریت قصور پہنچ  گئے اس سے قبل میں نے قصور شہر کبھی نہیں دیکھا تھا بابا بلے شاہ کی نگری اور ملکہ ترنم نور جہاں کا یہ شہر کافی اچھا لگا اس لیے بھی کہ شاید ہم خیریت سےوہاں پہنچ گئے تھے تھانہ صدر قصور میں ایس ایچ او ہمارا انتظار کر رہا تھا اُس نے بڑی گرم جوشی سے ہمارا استقبال کیا اور اپنے دفتر کے ساتھ والا رہائشی کمرہ ہمیں دے دیا جہاں رات کو ہم نے رہنا تھا۔ ملازمین کافی تھکےہوئے تھے میرا بھی تھکن سے بُرا حال تھا کیونکہ دوران سفر ہم کہیں بھی نہیں رُکے تھے ۔ ایس ایچ او صدرقصور نے ہمارے لیے پُر تکلف کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا ۔ کھانا کھانے کے بعد جبار سندھی کو چار پائی کے ساتھ ہتھکڑی لگا دی گئی ۔ ایس ایچ او کو تھانہ پر مزید نفری تعینات کرنے کا بھی کہہ دیا تاکہ کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا نہ ہوجائے ۔ ملازمین کو میں نے سونے کا کہا امیر خان اور میں جبار سندھی کے ساتھ کمرہ رہائشی میں رہ گئے جبکہ بقیہ ملازمین اور ڈرائیور کو تھانہ کی ایک بیرک میں سونے کا کہہ دیا۔

رات کا ایک بج چکا تھا ۔ تھکن کے باوجود مجھے نیند نہیں آرہی تھی ۔میں نے جبار سندھی سے تفتیش شروع کردی ۔ کسی بھی جرائم پیشہ فرد سے اس کے ذاتی حالات پوچھے جائیں تو وہ ہمیشہ اپنی غربت کارونا روتا ہے اور پھر پولیس والوں کے مظالم بیان کرتا ہے ۔ اس میں بھی کسی حدتک سچائی ضرور ہے کہ ایک دفعہ بحالت مجبوری جرم کرنے کے بعد پولیس کی نظروں میں آنے والا وہ شخص ریکارڈ یافتہ تصور ہوتا ہے اور کئی دفعہ پولیس والے اُس بے گنا ہ کو کسی مقدمہ میں اپنی جان چھڑانے کے لیے چالان بھی کردیتے ہیں اور شاید یہی وجوہات ہیں جو کسی بھی عام شخص کو جبار سندھی یا شاہسوار بنا دیتی ہیں ۔

مجھے نیند آنے لگی تو میں نے امیر خان کو جگا دیا کہ اب وہ جبار سندھی پر نظر رکھے ۔ اتنے میں تھانہ صدر قصور کے سنتری نے اطلاع دی کے بہاولپور سے ایلیٹ پولیس کی دوگاڑیاں پہنچ گئی ہیں ۔ اب ہمیں صبح ہونے کا انتظار تھا تاکہ اپنا بقیہ سفر دن کی روشنی میں کیا جائے۔ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد ہم لوگ قصور سے بہاول پور کے لیے روانہ ہوئے ۔ ایلیٹ کی ایک گاڑی میری گاڑی سے آگے تھی جبکہ ایک گاڑی میری گاڑی سے پیچھے ۔ روانہ ہونے سے قبل میں نےتمام ملازمین کو بریف کردیا تھا کہ ان کی ڈیوٹی کیا ہے کیونکہ ہم ایک انتہائی خطرناک دہشتگرد کو لے کر جارہے تھے ۔میں نے دوران سفر کوئی وائرلیس کال نہیں کی اور براستہ عارف والا بہاولنگر ، چشتیاں حاصل پور جانے کو ترجیح دی  کیونکہ یہ سڑک  خالی ہوتی تھی اور اس پر سفر  کرنا بھی آسان تھا۔ ۔ سہ پہر تین بجے ہم ضلع بہاولپور کی حدود میں داخل ہوگئے ۔ دوران سفر ایس ایس پی جوئیہ صاحب کی بار بار مجھے کالز آتی رہیں ۔ میں نے بہت کم ایسے افسران دیکھے ہیں جو اپنے ملازمین کا اس طرح خیال رکھتے ہیں ۔ ایس ایس پی جوئیہ صاحب نے مجھے ہدایت کی کہ جبار سندھی کو تھانہ عباس نگر پہنچانا ہے ۔ کیونکہ بقیہ ملزمان کوبھی وہیں رکھا گیا تھا۔تھانہ عباس نگر پہنچ کر جبارسندھی کو وہاں پر موجود محمد احمد خان بارکزئی ایس پی کے حوالے کردیا ۔کیونکہ وہ چوہدری صادق قتل کیس کی تفتیش کررہے تھے ۔ میں نے جبار کو تھانہ پر پہنچانے کے بعد کنٹرول کو بذریعہ وائرلیس اطلاع دی کہ ” مہمان کو باخیریت تھانہ عباس نگر پہنچا دیا ہے ۔۔۔”میرا یہ میسج ڈی آئی جی بہاولپور کے لیے تھا۔ میرا کام اب ختم ہوچکا تھا کیونکہ یہ مقدمہ بہاولپور پولیس کا تھا اب اس کی بقیہ تفتیش بھی انھوں نے کرنی تھی میں نے اپنے ایس ایس پی رحیم یارخان اعظم جوئیہ سے گھر جانے کی اجازت لی اور رحیم یارخان روانہ ہوگیا ۔

اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کرم فرمایا تھا جس کا میں بہت شُکر گزار تھا جس جگہ سے جبار سندھی کو پکڑا گیا تھا آسان کام نہ تھا ۔ رات کو میں رحیم یار خان پہنچ گیا گھر  پہنچ کر شکرانہ کے نوافل پڑھے تھکن سے بُرا حال تھا میری فیملی بھی پریشان تھی ابھی میں رحیم یارخان پہنچا ہی تھا کہ مجھے پھر ایس ایس پی صاحب کا پیغام ملا کہ کل صبح پھر آپ نے بہاولپور جانا ہے کیونکہ جبار سندھی کو آپ نے گرفتارکیا ہے اس لیے اس کی گرفتاری جسمانی ریمانڈ اور کلاشنکوف کی برآمدگی بھی آپ نے ہی کرنی ہے ۔ پچھلی اقساط میں ، شاید یہ لکھنا بھول گیا تھا کہ آئی جی پنجاب جہانزیب برکی نے یہ حکم دیا تھا کہ جو پولیس آفیسر چوہدری صادق قتل کیس کے دہشتگردوں کو گرفتار کرے گا اسے ون اسٹیپ ، یا ٹو اسٹیپ پروموشن دی جائے گی ۔ کیونکہ جبار سندھی کو میں نے اور امیر خان جو اس وقت ہیڈ کانسٹیبل تھا گرفتار کیا تھا اس لیے قانونی طور پر جبار کی گرفتاری اور بقیہ برآمدگی وغیرہ میری طرف سے ہونا ضروری تھی ۔

اگلی صبح میں پھر بہاولپور کے لیے روانہ ہوگیا۔ ڈی آئی جی بہاولپور نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی ۔ کیونکہ میں بھی اس ٹیم کا حصہ تھا اس لیے میں چوہدری صادق قتل کیس کے ملزمان کو گرفتار کر سکتا تھا ۔ تھانہ عباس نگر پہنچ کر میں نے ضروری کاغذات کی تکمیل کی ۔ جبار سندھی سے کلاشنکوف جس سے اس نے چوہدری صادق مرحوم کو قتل کیا تھا برآمد کی اور بقیہ تفتیش کے لیے ملزم جبار کو ایس پی محمد احمد خان بارکزئی کے حوالے کردیا ۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ہمارے تمام سینئر افسران جب ملزمان سے تفتیش کے لیے جاتے تھے تو ملزمان کی آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دی جاتی تھی اور یہ سینئر افسران خود بھی نقاب لگا کر آتے تھے تاکہ افسران کو ملزمان پہچان نہ سکیں جبکہ میں اور ہمارے بقیہ جونیئر ملازمین بغیر نقاب کے ان ملزمان کے سامنے پھر رہے ہوتے تھے کیونکہ ہمیں صرف اللہ کا ڈر تھا تفتیش کے بعد ملزمان جبار سندھی ، ستار آرائیں ، شاہسوار اور ابوبکر عرف ضرار، کو چوہدری صادق قتل کیس میں چالان کردیا گیا ۔ یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کورٹ بہاولپور میں بجھوایا گیا ۔ملزمان شاہسوار اور جبار سندھی کیونکہ تھانہ اسلام گڑھ بینک ڈکیتی اور کانسٹیبل کے قتل میں ملوث تھے اس مقدمہ کا ٹرائل شروع ہوگیا ۔۔کیونکہ ملزم جبار سے میں نے کلاشنکوف برآمد کی تھی اس لیے ہر وہ مقدمہ جس میں جبار چالان ہوا اس کی گواہی کے لیے مجھے رحیم یارخان سے آنا پڑتا تھا ۔ ان تمام ملزمان کا ٹرائل ڈسٹرکٹ جیل بہاولپور میں ہوتا تھا ۔ جج صاحب جیل میں تشریف لاتے تھے ۔ صبح سے لے کر شام تک روزانہ کی بنیاد پر مقدمہ کا ٹرائل ہوتا رہا ۔ اس مقدمہ میں شاہسوار اور جبار کو سزائے موت سنا دی گئی۔

13 اکتوبر 1997 ء کو میں نے ملزم جبار کو گرفتار کیا تھا ۔اس لیے مجھے 13 اکتوبر سے ہی سب انسپکٹر سے انسپکٹر بنا دیا گیا ۔ امیر خان کو ہیڈ کانسٹیبل سے اے ایس آئی بنا دیا گیا ۔ اسی طرح رانا ریاض سب انسپکٹر ، میاں عرفان اللہ انسپکٹر ، اسلم غوری ڈی ایس پی پرویز باجوہ اور دیگر ملازمین جو اس ٹیم میں شامل تھے کو ون اسٹیپ پروموشن دے دی گئی ۔ نوید اکرام مرحوم سب انسپکٹر بھی اس ٹیم کا حصہ تھا مگر ڈی آئی جی نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کی پرموشن نہیں ہونے دی ۔ میرے بقیہ بیج میٹس کی پرموشن بھی 17 اکتوبرکو ہوگئی وہ تمام بھی انسپکٹرز ہوگئے میں نے بڑا شور مچایا کہ مجھے ڈبل پروموشن دی جائے کیونکہ اگر جبار کو میں 17 تاریخ کے بعد گرفتار کرتا تو میں ڈی ایس پی ہو جاتا مگر کیونکہ افسران کا کام ہوچکا تھا اور انھیں اب ہماری فوری مزید ضرورت نہ تھی اس لیے میری چیخ وپکار کسی نے نہ سنی کچھ دن بعد چیف منسٹر شہباز شریف نے بہاولپور آنا تھااور ایئر پورٹ پر انھوں نے ہمیں پرموشن بیج لگانے تھے ہم سب ملازمین اپنے ہاتھ میں بیج لیے کھڑے رہے مگر شہباز شریف صاحب اور آئی جی صاحب کے پاس اب ہمارے لیے اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ خود آکر ہمیں شولڈرز لگاتے اور شاباش دیتے ۔ محکمہ پولیس کی یہ خامی ہے کہ جب تک ان سنیئر افسران پر سیاسی یا پبلک پریشر ہوتا ہے یہ چھوٹے ملازمین سے اپنا کام کروانے کے کیے تمام حربے استعمال کرتے ہیں اور جوں ہی ان کا ٹاسک مکمل ہوجاتا ہے تو پھر یہ ملازمین ان کے کیے شطرنج کے پٹے ہوئے مُہرے ہوتے ہیں۔

چوہدری صادق قتل کیس کا ٹرائل ملتان سینٹرل جیل میں شروع ہو گیا ۔ کیونکہ تمام خطرناک مذہبی دہشتگرد ملزمان سینٹرل جیل ملتان میں بند تھے ۔ ہمیشہ کی طرح اس کیس میں کسی سنیئر افسر نے کوئی دلچسپی نہیں لی وہ ملازمین جو چوہدری صادق کے ہر وقت ساتھ ہوتے تھے اور اُس کی وجہ سے پرموشن لیتے رہے ۔ وہ ایک اچھا وکیل بھی نہ کر سکے دوران سماعت شاہسوار اور جبار ہمیں دھمکیاں بھی دیتے تھے مگر ہم خاموشی سے دیکھتے رہتے تھے کیونکہ جج صاحب کی موجودگی میں ایک پولیس والا نہیں بول سکتا گواہان سینیر پولیس افسران اور وارثان کی عدم دلچسپی سے تمام ملزمان شاہسوار جبار سندھی ستار ارائیں اور ابوبکر عرف ضرار کو انسداد دھشت گردی کے جج نے بری کردیا

Advertisements
julia rana solicitors

تھانہ اسلام گڑھ کے ڈکیٹی اور کانسٹیبل کے قتل کے مقدمہ میں شاہسوار اور جبار سندھی کی سزا معافی کی اپیل سپریم کورٹ سے بھی منظور نہ ہو سکی صدر پاکستان نے بھی رحم کی اپیل مسترد کر دی گئی کانسٹیبل کے ورثان کو بھی رقم دینے کی کوشش کی گئی مگر وہ نہ مانے اس طرح شاہسوار اور جبار سندھی کو پھانسی دے دی گئی شاہسوار کے جنازہ میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی اُسے رحیم یار خان میں دفن کر دیا گیا ابوبکر عرف ضرار گزشتہ دنوں پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا ستار ارائیں روپوش ہے اور اس طرح چوہدری صادق گجر کے شاہسوار کے گھر پر ریڈ کرنے سے جو کہانی شروع ہوئی تھی چوہدری صادق گجر کے قتل جبار سندھی اور شاہسوار کی پھانسی پر ختم ہوئی بُرے کام کا انجام ہمیشہ بُرا ہوتا ہے چاہے کوئی بھی کرے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply