پہلا تبلیغی دورہ۔۔۔چندایک یاداشتیں ( آٹھویں قسط)

سائیں کہنے لگے کہ اس بستی میں کوئی ایک بھی مسلمان آباد نہیں، یہ سارے ہندوکمیونٹی کے لوگ ہیں۔
پھر یہ نوحے؟
ارے امام حسین ع صرف ہمارے تھوڑی ہیں ھندو بھی امام عالی مقام سے عقیدت رکھتے ہیں وہ پوراعشرہ نہ صرف نوحہ سنتے ہیں بلکہ ہماری مجالس میں بھی شوق سے شریک ہوتے ہیں۔ آپ بھی انشاء اللہ کئی ایک ہندوبھائیوں سے اپنی مجالس اور جلوس میں ملاقات کرینگے۔
یہ سن کرعجیب سافخر محسوس ہواکہ امام ہوتوایساجوساری انسانیت کاسرمایہ ہو اور جس سے سب عشق کریں۔۔واہ میرے مظلوم مولا! میں قربان تیرے عشق کے!
چونکہ آج پہلی محرم تھی اوراس چھوٹےسے گاوں کی تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ عشرہ مجالس ہونے جارہاتھاورنہ یہاں ایک دوچھوٹی مجالس منعقد ہوتیں، البتہ ماتمداری کاسلسلہ پورے ایام عزامیں جاری رہتا جبکہ جن کے پاس سواری کی سہولت موجود ہوتی وہ مجالس سننے کے لئے شہر چلےجاتے۔
بہرحال گاوں کی اس چھوٹی سی امام بارگاہ کے باہر کافی چہل پہل اور رونق تھی۔ بزرگ آتے جاتےدعائیں دیتے جارہےتھے، بچے آکے سلام کرتے اور ہاتھ جوڑ کر سائیں یاعلی مدد کہہ کےمان بڑھا جاتے۔
اتنے میں چندایک شیٹوں پہ اشتہار بھی جگہ جگہ لگادیاگیاجب ہماری نظراچانک صحن کے کنارے لگے بجلی کے پول پہ آویزاں مارکر سے لکھے اشتہار پہ پڑی توہمارا تراہ ہی نکل گیاکہ زندگی میں پہلی بار ہمارے نام سے پہلے ” مولوی” کاسابقہ چسپاں کردیاگیاتھااور یہ لفظ کراچی میں نہ صرف کسی اہمیت کاحامل نہ تھابلکہ باقاعدہ بدنام تھامگر یہ سوچ کر کوئی مزاحمت نہ کی کہ شاید یہاں مولوی کوئی ایساویسا لفظ نہ ہواور ہوتابھی کیسے کہ یہاں کوئی اس نام کی مخلوق تھی ہی نہیں جوبدنام ہوتی ،یہ سوچ کردل کوڈھارس سی بندھ گئی مگر اس کے بعد سے تو” رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کاساماں ہوگئے”کے بمصداق یہ لفظ عام مومنین میں ہمارے نام کالازمی جزوبن گیااوراس کی معاشرتی ناپسندیدگی کسی حد تک ہم نظر انداز کرتے چلے گئے۔
سہ پہر سے دوڈیک پہ فل والیوم میں نوحہ لگادیاگیا،پتہ چلاکہ کراچی کی طرح یہاں بھی ندیم سرور بہت مقبول نوحہ خواں ہیں ، ہرجگہ اور ہر شخص ان کے نوحے سن رہاہے وہ کیوں نہ مقبول ہوتے کہ وہ اس وقت نوحہ پڑھاکرتے تھے اور خوب پڑھاکرتے تھے جبکہ ریحان کی شاعری بھی کسی حدتک معقول ہوتی تھی وہ ہمارے بھی اتنے پسندیدہ نوحہ خوان تھےکہ چندایک سال پہلے علامہ ضمیراختر نے جامعہ سبطین کے منبر سےریحان اعظمی کی شاعری اور ندیم سرور کے اندازنوحہ خوانی کامذاق اڑاتے ہوئے کہاتھاکہ ” سب نے یہی کہاہے اللہ بہت بڑاہے” یہ کونسی شاعری اور کونسانوحہ ہے؟ یہ اجڈ قوالی کونوحہ کہتے ہیں، توہمیں بہت برالگاتھا مگراب لگتاہے کہ علامہ صاحب کچھ غلط بھی نہیں کہہ رہے تھے مگر ندیم کی تنقیص سے علامہ صاحب کااصل مقصد ماجد نامی جوان کی نوحہ خوانی کوپروموٹ کرناتھاجوان کی ہرمجلس میں سوزخوانی اور نوحہ خوانی کیاکرتے تھےاس لئے ضمیر اخترصاحب کہتے تھے کہ نوحہ وہی ہے جو ماجد پڑھتاہےباقی سب ایویں ہے،ماجد ایک اچھے سوزخوان کی حیثیت سےعزاداری کی خدمت کررہے تھے مگر علامہ صاحب کی صحبت میں رہ کر انہوں نے بہت جلد یہ اندازہ لگالیاکہ سوزخوان بن کے خدمت کرنے سے زیادہ علامہ بن کے قوم کی درگت بنانے میں فائدہ ہے سواب وہ علامہ کہلاتے اورتفسیر قرآن وعقائد سے شغل فرماتے ہیں۔ اور ادھرندیم سروربھی اب نوحوں کے ساتھ وہی کچھ کررہے ہیں جو عاطف اسلم قوالیوں کے ساتھ کررہاہے۔اللہ انہیں ہدایت دے۔
نماز مغربین کے بعدامام بارگاہ میں لاوڈاسپیکر لگادیاگیااور مجلس شروع ہوئی اور حقیر نے فضائل اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ نماز کی اہمیت بارے کچھ نکات عرض کئے مگرسامعین کے رسپانس سے لگ رہاتھاکہ فضائل ان کے دل کوچھورہے ہیں جبکہ نمازکی بات ان کے سروں کے چھ فٹ اوپر سے گزررہی ہےاور میں نے بھی مشق سخن برابر جاری رکھاجس کامثبت نتیجہ یہ سامنے آیاکہ ایک جوان جواکثر مغربین کی نماز میں دکھائی دیتااس نےعاشوراکے جلوس سے واپس آتے ہوئے مجھے کہاکہ مولوی صاحب! جولوگ صبح کی نماز نہیں پڑھتے وہ ظہرین یامغربین پڑھ لیتے ہیں اور جونماز پنجگانہ میں ڈنڈی مارتے ہیں وہ کم ازکم نماز جمعہ میں شرکت کی کوشش کرتے ہیں اور جوجمعہ بھی نہیں پڑھتےوہ عیدین کی نماز توضرور پڑھتے ہیں مگر میں نے باقی نمازیں توچھوڑئیے کبھی عید کی نماز بھی نہیں پڑھی ہےلیکن آپ کی مجالس سن کر میں نے یہ ارادہ کیاہے کہ اب میں کوئی نمازترک نہیں کروں گااور آپ اس پہ عمل ہوتادیکھ بھی رہے ہیں ۔ہم نے اس کاشکریہ اداکیااور اس کے لئے دعائے خیر کی۔
خیر مجلس روزانہ اسی ٹائم پہ ہوتی رہی اب ہمیں اشتیاق تھا اس دیوبندی مولوی سے ملاقات کاجس کے سوالات کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک مولوی صاحب گاوں بدر ہوگئے تھے۔
ہم نے انہی مونچھوں والے حضرت سے اس کاتذکرہ کیاتووہ بولے کہ محرم الحرام کی فلاں تاریخ کو قریبی محلے میں حضرت علی اصغر کی نیاز ہے وہ اس میں ضرور شریک ہوتے ہیں وہیں ان سے آپ کی ملاقات ہوگی،ہم اس تاریخ کو مقررہ وقت پہ جب نیاز کی محفل میں پہنچے اور ان مولوی صاحب کاپوچھاتوایک مومن نے ایک دھان پان سے آدمی کی طرف اشارہ کیاجوکالاکپڑاپہنے نوجوانوں کے ساتھ بہت خلوص سے نیاز کی پلیٹیں لوگوں کے سامنے رکھتے جارہے تھے۔میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ یہی دھان پان ساشخص میرے گمان بلکہ اب تک کے کتابی اور لسانی یقین کے برعکس بھی نکل سکتاہےاشارہ پاکروہ چلے آئے مجھے بتایاگیاکہ یہی دیوبندی مولوی ہیں۔ ارے دیوبندی ؟ مولوی؟ ہمارے منہ سے الفاظ ہی سوالیہ انداز میں نکلنے لگےکیونکہ ہم نے اپنے ذہن میں ان کاایک خوفناک خاکہ کھینچ رکھاتھاکہ بالشت بھر لمبی داڑھی،ماتھے پہ شکنیں،پانچےضرورت سے زیادہ اوپر،اندازوآواز کرخت اورسخت ،اخلاق سے مکمل عاری اور غروروتکبر کے ساتھ تعصب کاپہاڑ مگر یہ ان تمام خصوصیات سے یکسر عاری بہت بااخلاق،ملنسار ،سب کے دوست اور مرنجان مرنج قسم کے آدمی تھے ۔
گاوں کے بچوں ،جوانوں اور بزرگوں سے ہنس ہنس کرمل رہے تھے اور وہ سب بھی ان سے دوستوں کی طرح ہنسی مذاق کررہے تھے ایک بار تومجھے ان کی مولویت پہ ہی شک ہونےلگا جوبہت جلد باتوں باتوں میں یقین میں بدل گیاکہ وہ باقاعدہ مولوی نہ تھے بس واجبی سی دینی تعلیم حاصل کررکھی تھی اور گاوں کے اکثر لوگوں کے ساتھ قریب میں واقع ڈاولینس کمپنی میں ملازم تھےاس لئے ان کے درمیان گاڑھی چھنتی تھی اور سب ان کے دوست اوروہ سب کے دوست تھے اور دیوبندی مکتب کی مسجدمیں صبح اور مغرب عشاء اور جمعہ کی نمازوں کی امامت کرتے تھے۔وہ بہت خندہ پیشانی کے ساتھ ملے اور بیٹھتے ہی انہوں نے جیب سے اپنابٹوانکالااور کھول کر اندرونی حصہ میری طرف کیاتواس میں لگی تصویر دیکھ کرمیراایک بار پھر تراہ نکل گیاکہ یااللہ مولوی وہ بھی دیوبندی اور یہ تصویر۔۔۔۔؟
اب وہ تصویر کس شخصیت کی تھی ۔۔پڑھئیے اگلی قسط میں۔۔۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply