آخری مسافر۔۔عنبر عابر

طیارہ حادثے  میں آخری بچ جانے والا مسافر ہسپتال کے بستر پر لیٹا ہوا تھا اور ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔اس کی حالت اچھی تھی اس لئے وہ کسی کو ملاقات سے منع نہیں کر رہا تھا۔

“میرا بیٹا بھی اس طیارے میں تھا۔۔۔ہم اس کے منتظر تھے۔۔۔۔پر وہ نہیں آیا“

یہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا، جو اپنے بیٹے کے آخری احوال جاننے کیلئے موہوم امید کے سہارے بچ جانے والے واحد مسافر کے پاس آیا تھا۔

“ہاں وہ میرے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا۔وہ ایک بااخلاق نوجوان تھا۔“ آخری مسافر نے گھمبیر آواز میں کہا۔

“وہ بہت خوش تھا۔۔۔۔وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے پاکستان آرہا تھا۔۔۔۔کل ہی ہماری اس سے بات ہوئی تھی۔۔۔وہ کہہ رہا تھا یہاں آکر وہ دو دن لمبی تان کر سوئے گا اور کوئی اسے ڈسٹرب نہیں کرے گا“ ادھیڑ عمر شخص کے ہونٹوں پر بجھی سی  مسکراہٹ تیرنے لگی تھی۔ ”

ہاں وہ اپنی یونیورسٹی کی باتیں کر رہا تھا۔اپنے دوستوں کی۔ساتھی طالب علموں کی۔ہم دونوں دوست بن گئے تھے۔ ہمارا سفر بہت خوشگوار رہا اور ہم دونوں کتنی ہی دیر تک ہنستے رہے ہیں“ آخری مسافر بولتا چلا گیا۔ ”

جب طیارہ کریش ہونے لگا تو اس کی کیا کیفیت تھی؟

آہ اس نے عین جوانی میں وہ کچھ دیکھا جو نہایت خوفناک ہے“

باپ شاید اپنے بیٹے کو تصور میں دیکھ رہا تھا اور خوف کے ان لمحات کو پرکھ رہا تھا جو اس کے بیٹے پر گزرے ۔

“میں اس کے حوصلے پر حیران ہوا۔وہ بالکل ڈرا ہوا نہیں تھا۔اس نے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ مرنا ایک دن ویسے ہی ہے تو ڈرنے کی کیا تُک؟“

آخری مسافر نے کہا تو باپ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔شاید اس کا درد مدھم پڑ گیا تھا۔

“کیا سچ میں وہ خوفزدہ نہیں ہوا؟ کیا واقعی اس پر اتنی تکلیف نہیں گزری جس کا میں تصور کر رہا ہوں؟“ باپ نے پوچھا۔

“یقین جانیں بالکل نہیں۔وہ مکمل پرسکون تھا۔اس نے آپ کیلئے اور اپنے گھر والوں کیلئے مجھے پیغام بھی دیا“ آخری مسافر نے سنسنی خیز لہجے میں کہا۔

“کیسا پیغام؟“ باپ نے بے صبری سے پوچھا۔ ”

یہ کہ وہ آپ سے ساری عمر کہہ نہیں سکا لیکن وہ آپ کو تہہ دل سے چاہتا تھا۔وہ اپنے گھر والوں کو کہنا چاہتا تھا کہ مَیں تم میں سے ہر ایک سے محبت کرتا ہوں“ آخری مسافر بولا تو باپ نے ایک طویل سانس لیا۔

یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنے بیٹے کے ساتھ آخری باتیں کر چکا ہو اور اس کا آخری دیدار کر آیا ہو۔اس کے سینے سے منوں بوجھ ہٹ گیا تھا۔وہ چند لحظے آخری مسافر کی آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ان آنکھوں نے اس کے بیٹے کو دیکھا تھا۔پھر اس نے بطورِ تشکر آخری مسافر کا ہاتھ زور سے دبایا اور کمرے سے نکلنے لگا۔

آخری مسافر ترحم اور حسرت سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔

“ایک دوسرے مسافر کا وارث اندر آنا چاہتا ہے کیا آپ اجازت دیتے ہیں؟“ ایک خوبرو نرس نے اندر آکر آخری مسافر سے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

اندر آنے والی ایک برقعہ پوش خاتون تھی۔سلام دعا اور خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد اس نے رندھی آواز میں کہا۔ “حاشر۔۔۔ میرا شوہر تھا اور اسی طیارے میں سوار تھا۔۔۔۔میں چھ ماہ سے اس کے انتظار میں آنکھیں فرشِ راہ کیے ہوئے تھی “

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری مسافر نے اسے لحظہ بھر دیکھا اور پھر بولا۔ “ہاں۔۔۔ حاشر۔۔۔۔ وہ میرے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا۔وہ ایک باخلاق شخص تھا“ آخری مسافر کو وہ سب جھوٹ کہنے تھے جن سے جاں  بحق ہونے والے مسافروں کے پیاروں کی تسلی ہوسکتی تھی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply