اس امر میں تو کوئی شک نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک آمر جرنیل نے پھانسی پر لٹکایا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھٹو نے کوئی قربانی دی تھی ؟ بھٹو کی شخصیت بیک وقت اچھائیوں اور برائیوں کا مجموعہ تھی ۔ حکمران بننے کا اس کا خواب ملک توڑے بغیر ناممکن تھا ۔ پیپلز پارٹی کے مقابل عوامی لیگ کی نشستیں دو گنا سے بھی زیادہ تھیں ۔ لیکن شیخ مجیب الرحمٰن کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کی بجائے بھٹو جنرل یحییٰ کے اشاروں پر ، ہر قیمت پر خود حکمران بننے پر تل گیا ۔ چناں چہ ملک ٹوٹ گیا ۔ بھٹو اکیلا اس کا ذمہ دار نہ سہی ، لیکن ملک توڑنے والوں کے ساتھ شامل ضرور تھا ۔ البتہ حکمران بننے کے بعد اس نے آئین کی تیاری میں اسمبلی کو ہر سہولت فراہم کی ۔ قادیانیت کو کفر قرار دینے کے قانون پر دستخط بھی کیے ۔ عوام کو سیاست میں شامل کیا ۔ لیکن اگلے انتخابات میں دھاندلی کی انتہا کر دی ۔ جعلی انتخاب کے ذریعے دوبارہ وزارت عظمیٰ پر قبضہ کر لیا ، جس پر اس کے خلاف زبردست عوامی تحریک چلی ۔ جنرل ضیاء تو جیسے گھات لگائے بیٹھا تھا ، مارشل لاء لگا کے بھٹو کو زندان میں پھینک دیا ۔ مخالف سیاسی جماعتوں نے بھٹو کی پھانسی کا مطالبہ کیا ۔ سب سے پہلے یہ مطالبہ عبدالولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی نے کیا ۔ تب آصف علی زرداری اسی پارٹی میں تھے اور ان کے والد حاکم علی زرداری سندھ میں اس پارٹی کے صوبائی صدر تھے ۔ یہاں تک غور کیا جائے تو بھٹو کسی نیک مقصد کے لیے قربانی دینے کو نہیں ، بل کہ اقتدار پر غاصبانہ قبضے کے بعد عوام کی مخالفانہ تحریک کے نتیجے میں جیل گیا تھا ۔
دوسری طرف بھٹو کی پھانسی سراسر ناجائز تھی ۔ خود فیصلہ سنانے والوں نے بعد ازاں اقرار کیا کہ جنرل ضیاء نے دباؤ کے ذریعے ان سے یہ فیصلہ کروایا ۔ تف ہے ایسے ہر شخص پر ، جو جج کے عہدے پر فائز ہو ، بھاری بھر کم تنخواہیں وصول کرے ، بے کراں مراعات بھی حاصل کرے ، بے پناہ اختیارات کا حامل ہو ، اور پھر بھی کسی کے دباؤ میں آ کر یا ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرے ۔ اس سب کے باوجود یہ کہیں ثابت نہیں ہو سکا کہ بھٹو نے پھانسی خود قبول کی یا اگر اس نے “قربانی” دی تو کس عظیم مقصد کی خاطر !
میں ایک بار پھر عرض کروں کہ بھٹو کی پھانسی بہت بڑا ظلم تھا ۔ پھر اس ظلم کے بعد جنرل ضیاء اس ملک کا مطلق العنان حکمران بن گیا ۔ ملتان سے سید یوسف رضا گیلانی جنرل ضیاء کی کابینہ میں شامل تھے ۔ 1984 میں جنرل ضیاء ایک جعلی قسم کا ریفرنڈم کروا کر خود “منتخب صدر” بن گیا ۔ اس جعلی ریفرنڈم میں بھی وہی یوسف رضا گیلانی جنرل ضیاء کے چیف پولنگ “ایجنٹ” تھے ۔
یہ واقعات آج تک زیر بحث ہیں ، اور ہمارے سیاسی حالات پر ان کے اثرات ہیں ۔
بھٹو کی پھانسی سے اتنے فوائد جنرل ضیاء نے نہیں سمیٹے ، جتنے بعد میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر آنے والوں نے سمیٹے ۔ بھٹو کی بڑی بیٹی بے نظیر دو بار وزیراعظم منتخب ہوئی ۔ سندھ کے عوام نے بھٹو کی مظلومیت سے متاثر ہو کر ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ۔ جس کے نتیجے میں وہ لوگ اقتدار اور مزے لوٹتے رہے جن کے ہاتھوں میں قیادت آئی ۔ سرے محل ، سویٹزر لینڈ کے بینکوں میں خفیہ اکاؤنٹس ، دبئی میں جائیدادیں ، پاکستان کے مختلف شہروں میں قیمتی جائیدادیں قیادت کے نصیب میں آئیں ، جب کہ تھر کے بچے کہیں قحط سے مرتے ہیں اور کہیں پانی کی نایابی سے ۔
دیہی سندھ میں انفراسٹرکچر کا ستیاناس ہو چکا ۔ عوام کی حالت زار ناقابلِ بیان ہے ۔ 2007 میں بھٹو کی بیٹی بے نظیر کو راول پنڈی میں قتل کر دیا گیا ۔ قتل سے تقریباً ایک ماہ قبل بے نظیر بھٹو نے پولیس کے نام ایک تحریری درخواست میں اپنے قتل کے اندیشے کا اظہار کیا ۔ اور چند افراد کے نام بھی لکھے ۔ بے نظیر کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت پر آصف علی زرداری ، بلاول زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور خورشید شاہ آ گئے ۔ جو نام بے نظیر نے لکھے ، ان میں سے ایک کو خوش کرنے کے لیے زرداری صاحب نے “ڈپٹی پرائم منسٹر” کا عہدہ ایجاد کیا ۔ عوامی نیشنل پارٹی آج بھی انھی لوگوں کے ساتھ کھڑی ہے ۔ “باپ” نامی حکومتی پارٹی انھیں ووٹ دے کر اپوزیشن لیڈر بناتی ہے ۔ اس پر سوال پوچھا گیا تو گزشتہ روز بلاول زرداری نے کہا؛ ہماری جماعت کی قربانیاں ہیں ۔”
اب بھلا سوچیے کہ اگر بھٹو کی پھانسی قربانی تھی یا بے نظیر کا بہیمانہ قتل قربانی تھی ۔۔۔۔ تو ان قربانیوں کا “باپ” کے ووٹوں سے کیا تعلق ؟ بھٹو کی قربانی کا آصف علی زرداری ، بلاول زرداری ، یوسف رضا گیلانی اور عوامی نیشنل پارٹی سے کیا تعلق ؟ کچھ یاد تو کیجیے کہ بھٹو کی پھانسی کے وقت ، اور اس کے بعد بھی یہ سب لوگ کس سمت کھڑے تھے ؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں