اپنا ٹائم آئے گا۔۔اشعر نجمی

جنگ آزادی کو یاد کیجیے، اس وقت بھی ہندوستانی عوام سر دھڑ کی بازی لگانے کو سڑکوں پر اُتر آئی تھی، جس کی قیادت گاندھی جی کررہے تھے اور ان کے ساتھ کئی دوسرے قومی لیڈر عوام کی رہنمائی فرما رہے تھے، انھیں سمت دکھا رہے تھے، انھیں حوصلوں کی کمک پہنچا رہے تھے اور انھیں متحد رکھ کر ایک مقصد کی طرف مرکوز کیے ہوئے تھے۔

اب تھوڑا آگے بڑھیے۔ یہ 1974 ہے۔ طلبا سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں۔ اندراگاندھی کی سرکار کے خلاف عوامی بے چینی اپنے شباب پر ہے، چنانچہ طلبا نے مورچہ سنبھالا اور ملک گیر سطح پر تقریباً 2 سال تک یہ تحریک سڑکوں پر بغیر تھکے چلتی رہی اور بالآخر اندراگاندھی کو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لیکن اس تحریک کی بھی قیادت گاندھی وادی لیڈر جے پرکاش نارائن کررہے تھے جن کے ساتھ کئی اسٹوڈنٹ لیڈر شامل تھے۔ اس تحریک نے ہندوستانی سیاست کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ اس تحریک میں شامل کئی اسٹوڈنٹ لیڈر بعد میں قد آور قومی لیڈر بن کر ابھرے جن میں ایک نام بی جے پی کے ارون جیٹلی کا بھی شامل ہے۔

اب 2019-20 میں لوٹ آئیے۔43 سال بعد ایک بار پھر طلبا تحریک شروع ہوتی ہے۔ اب کے چیلنج 1974 سے بڑا ہے لیکن اس بار طلبا کے ساتھ نہ صرف عام آدمی شامل ہے بلکہ گھریلو عورتیں اور کمسن بچے بھی شامل ہیں۔ یہ تحریک 1974 کی طلبا تحریک کو کافی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔پورے ملک میں کروڑوں لوگ باہر سڑک پر نکل آتے ہیں، ان سب کے ہاتھوں میں کوئی سیاسی یا رنگ برنگا جھنڈا نہیں بلکہ ترنگا لہراتا ہوانظر آتا ہے۔ پھر ظل الٰہی کے حکم سے گولیاں چلتی ہیں اور 26 سینے چھلنی ہو جاتے ہیں۔جوان اور بوڑھے جسموں پر لاٹھیاں برستی ہیں اور ہڈی پسلی ایک کرکے رکھ دی جاتی ہے۔ طالبات کا استقبال لوہے کی چھڑ ی سے کیا جاتا ہے اور عورتوں کی کوکھ کو بوٹوں سے کچلا جاتا ہے۔ گرفتاریاں ہوتی ہیں تو جیلوں کی کوٹھڑیاں پناہ مانگنا  شروع کردیتی ہیں۔ حوالات میں گرفتار کمسن بچوں کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی ہے اور ان کے مقعد سے خون بہنے دیا جاتا ہے۔

جب جائداد کی ضبطی کا حکم نامہ جاری ہوتا ہے تو زندہ اور مردہ کی تخصیص بھی ختم کردی جاتی ہے۔ وارنٹ جاری ہوتے ہیں تو قبر میں گزشتہ چار سال سے پڑے ہوئے شخص کو بھی نہیں بخشا جاتا اور نہ ہی نابالغ بچے کا تعاقب کرتی ہوئی پولیس کی گولی اسے معاف کرتی ہے۔ حوصلوں کو پست کرنے کے لیے اتنا کچھ کافی سے زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ کس دنیا کے لوگ ہیں جن   کا راستہ نہ سرکار کی ضد روک پاتی ہے، نہ پولیس کی گولی اور نہ مین  سٹریم میڈیا کی بے حسی۔ یہ عورتیں کس سیارے کی مخلوق ہیں جن کے عزم کو ننگے آسمان کے نیچے سرد راتیں بھی منجمد نہیں کر پاتیں۔ یہ کیسے نوجوان ہیں جن کی قوت ارادی کے سامنے سرکار کی اشتعال انگیز کاروائیاں سسکیاں بھرنے لگتی ہیں۔ اس بھیڑ کا مذہب کیا ہے؟ کسی کو نہیں پتہ۔ سرکار ان کا مذہب طے کرتے کرتے عاجز آچکی ہے لیکن ہر بار اس بھیڑ کی حقارت بھری مسکراہٹ اسے ٹھوکریں لگا دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تاریخ کا پہیہ الٹا گھومنا شروع ہوگیا ہے لیکن ٹھہریے، ایسا نہیں ہے بلکہ ہندوستان ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔

جنگ آزادی اور طلبا تحریک (1974) کا جو لوگ ہندوستان کی موجودہ تحریک سے موازنہ کرتے ہیں، وہ ایک فرق کرنا بھول جاتے ہیں۔ وہ فرق کیا ہے؟ جنگ آزادی اور طلبا تحریک کے قائد بھی تھے اور ان کی رہنمائی کرنے والے بھی موجود تھے لیکن موجودہ تحریک کی قیادت کوئی سیاسی یا مذہبی لیڈر نہیں کررہا ہے اور نہ یہ تحریک انھیں منھ لگا رہی ہے، یہ تحریک ایسے خود کار آلہ کی طرح منظم کام کررہی ہے جس کی شاید بہت ہی کم نظیر دنیا میں ملتی ہو۔ موجودہ تحریک اسی لیے نسبتاً زیادہ اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے کہ آج سارے سیاسی رہنما اپنے اپنے عافیت کدوں میں سمٹے ہوئے ہیں۔ ملک کے اپوزیشن میں شامل پارٹیاں صرف اپنے پارٹی ورکروں کی قیادت کررہی ہیں۔ ان پارٹیوں کے لیڈر کبھی کبھی کوئی پریس کانفرنس بلا لیتے ہیں، کبھی تفریح اور سیرسپاٹے کی غرض سےپارٹی ورکروں پر مشتمل اپنے اپنے شہروں میں جلوس نکال کر اس تحریک میں اپنی حاضری درج کرادیتے ہیں، کبھی پریس ریلیز کرکے خانہ پُری کردیتے ہیں اور بس۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ تو سڑکوں پر نکلے طلبا اور نوجوانوں کی لاکھوں کی بھیڑ کی قیادت کی کمان سنبھالنے کو تیار ہے، نہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یا اسمبلی کے سامنے دھرنا دینے کو تیار ہے، نہ بھوک ہڑتال کا ارادہ ہے، نہ شاہین باغ کے یخ بستہ جسموں کو ہمت افزائی کا ایندھن پہنچانے کی فرصت ہے۔ حتیٰ کہ اس سنگین معاملے کو لے کر اپوزیشن متحد تک نہیں ہے جس سے ان کی دیانت داری کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اپوزیشن میں شامل جتنی پارٹیاں ہیں، انھیں عوام سے کوئی غرض نہیں، یہ اب بھی ‘اِن ڈور’ گیم کھیلنے میں مصروف ہیں کہ فلاں پارٹی نے میرے اتنے ایم ایل اے ہتھیالیےیا فلاں پارٹی سے الیکشن میں نشستوں کی تقسیم پر اتفاق رائے نہیں ہو پایا، اس لیے ہم ساتھ نہیں آسکتے خواہ عوام جائے بھاڑ میں، ہمارے لیے ہماری پارٹی اور پارٹی ورکر زیادہ اہم ہیں۔موجودہ تحریک اس نوعیت سے جنگ آزادی اور 1974 کی طلبا تحریک سے ممتاز ہے کہ آج سڑکوں پر نکلی کروڑوں عوام کا بچہ بچہ اپنے آپ میں ایک لیڈر ہے جو اپنے شعور و جذبے اور فہم و فراست کی رہنمائی میں یہ جنگ لڑ رہا ہے۔

لیکن یاد رکھیے ان چہروں کو، ان پارٹیوں کو جو گہرے بادل کے چھٹنے اور تاریکی کے مندمل پڑتے ہی ہاتھ جوڑے آپ کی چوکھٹ پر ایک بار پھر کھڑے نظر آئیں گے۔وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، اپنا ٹائم آئے گا۔

لیکن پھر کہیں ایسا نہ ہو (جیسا کہ اکثر ہوتا ہے) کہ ہاتھ سے ترنگا چھوڑ کر آپ اپنے علاقوں کے انھی آزمودہ لیڈروں کے نعرے لگاتے اور انھی بے حس پارٹیوں کے جھنڈے ڈھوتے نظر آئیں۔ پھر کہیں ایسا نہ ہوا کہ انتخابات میں آپ کا مسلمان اُبل کر باہر آجائے اور لوگوں سے اپیل کرنا شروع کردے کہ سیکولرزم ہے تو اچھی چیز، لیکن ہمیں مسلم لیڈر چاہیے۔اس پوسٹ کے ساتھ جو تصویر لگائی ہے، آپ اسے بھول گئے ہوں گے لیکن مجھے یاد بھی ہے اور میرے پاس محفوظ بھی ہے کہ کس طرح ناعاقبت اندیشوں نے کنہیا کمار کو صرف اس لیے ووٹ نہیں دیا تھا چونکہ وہ مسلمان نہیں تھا بلکہ ‘صرف سیکولر تھا’ اور آج یہی کنہیا کمار موجودہ تحریک کے شہروں شہروں ‘آزادی’ کا گیت گاتا پھر رہا ہے، ہمارے کندھے سے کندھا ملا کر سرکار سے لڑ رہا ہے لیکن وہ مسلم امیدوار کہاں ہے جس کے لیے مسلمانوں نے کنہیا کمار کی بلی چڑھائی تھی؟مجھے حیرت نہیں ہوگی اگر کل پھر یہی نقشہ نظر آئے، چونکہ ہماری یادداشت کافی کمزور ہے۔ اس لیے ‘اپنا ٹائم’ آنے سے پہلے اپنے اپنے ذہنوں میں ان لوگوں کے نام ان کے پتوں کے ساتھ محفوظ کرلیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply