جنس کا تعین ۔ جین (21) ۔۔وہارا امباکر

لڑکا یا لڑکی ۔۔ بائیولوجی کا یہ سوال اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسان۔ لیکن یہ ہوتا کیسے ہے؟ تھامس مورگن جو جینیات کے بانیوں میں سے تھے، انہوں نے جنس کے تعین میں جینیات کے کردار کو خارج از امکان قرار دیا تھا۔ “نر یا مادہ میں سے کیا برآمد ہوتا ہے؟ اس کا تعلق ان کنڈیشنز سے ہے جس میں یہ بڑھتا ہے۔ نر اور مادہ کے درمیان فرق کو جین میں سے تلاش کرنا بے کار ہے کیونکہ بیضہ ایک متوازن حالت میں ہوتا ہے”۔ مورگن کا خیال غلط تھا۔

نیٹی سٹیونز کے والد ایک بڑھئی تھے۔ نیٹی نے تعلیم حاصل کی تھی اور سکول میں استانی بن گئی تھیں۔ سکول کی تنخواہ اور ٹیوشن سے پیسے جمع کر کے سٹینفورڈ یونیورسٹی میں بائیولوجی میں داخلہ لیا جو اس وقت کسی خاتون کے لئے انوکھا انتخاب سمجھا جاتا تھا۔ زولوجی میں اپنے کام کے لئے اٹلی میں 1903 میں مچھیروں کی بستی کا انتخاب اس سے بھی انوکھا ہو گا۔ یہاں پر ان کے ساتھ کام کرنے والے تھیورڈور بووری تھے۔ بووری نے مچھیروں سے سمندری ارچن کے انڈے حاصل کر کے ان پر کروموزوم کی شناخت کی تکنیک بنائی تھی۔

کیا کروموزوم جنس کا تعین کر سکتی ہے؟ اس سوال کے لئے سٹیونز نے ایک سادہ جاندار کا انتخاب کیا جو سُرسُری تھی۔ (جس کو میل وورم یا آٹے کا کیڑا بھی کہا جاتا ہے)۔ سٹیونز نے جب بووری کا طریقہ ان میں نر اور مادہ پر استعمال کیا تو اس سوال کا جواب جیسے خود ہی چھلانگ لگا کر خوردبین تلے نظر آ گیا۔ سرسری میں بیس کروموزوم ہوتے ہیں۔ یہ دس جوڑوں کی صورت میں ہوتے ہیں۔ مادہ کیڑوں میں یہ دس جوڑے میچ ہوتے تھے۔ جبکہ نر کیڑے میں نو جوڑے تو ویسے ہی تھے۔ لیکن دو کروموزوم جوڑے کی صورت میں نہیں تھے۔ ایک بڑا اور ساتھ ایک چھوٹا سا کروموزوم۔ سٹیونز نے تجویز کیا کہ یہ چھوٹا کروموزوم جنس کا تعین کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس کو “جنس کا کروموزوم” کہا۔

جنس کے تعین کی اب سادہ سی تھیوری مل گئی تھی۔ نر کے پاس یہ دونوں کروموزوم ہیں۔ ایک نارمل سائز کا جو مادہ بناتا ہے اور ایک چھوٹے سائز کا جو نر بناتا ہے۔ جب سپرم سے یہ چھوٹا والا کروموزوم حاصل ہوتا ہے تو اگلا کیڑا نر اور اگر نارمل سائز کا تو اگلا کیڑا مادہ۔

اسی کی تصدیق ایڈمنڈ ولسن کے کام سے ہو گئی۔ انہوں نے اس کی اصطلاحات کو سادہ کر دیا۔ چھوٹے کروموزوم کو Y کہا، نارمل سائز والے کو X۔ نر کے خلیے XY والے تھے جبکہ مادہ کے خلیے XX والے۔ بیضے میں مادہ کی طرف سے X کروموزوم آتا ہے۔ اگر Y کروموزوم والا سپرم اس کو فرٹیلائز کر دے تو یہ ملکر XY بن جائیں گے اور نر بنے گا۔ اگر X والا کر دے تو XX اور نتیجہ مادہ کی صورت میں نکلے گا۔ یہ جنس کے تعین کا عمل ہے، جو رینڈم ہے اور پہلا سپرم جو اپنا جینیاتی پے لوڈ داخل کرتا ہے، اس وقت جنس کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم جانتے ہیں کہ ہر نوع میں نر اور مادہ میں بہت فرق ہوتے ہیں۔ یہ انفارمیشن کہاں پر ہے؟ اس نے ایک مسئلہ پیدا کر دیا تھا۔

سٹیونز اور ولسن نے جو سسٹم دریافت کیا تھا، اس کا ایک اہم نتیجہ نکلتا تھا۔ اگر وائے کروموزوم میں نر بننے کی تمام انفارمیشن ہے تو اس کروموزوم میں وہ تمام ہدایات ہوں گی جو نر اور مادہ کو جدا کرتی ہیں۔ ماہرینِ جینیات کا خیال تھا کہ اس میں درجنوں ایسی جینز ہوںگی جو اناٹومیکل، فزیولوجیکل اور سائیکولوجیکل نمو کوآرڈینیٹ کرتی ہیں۔ یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ یہ کام ایک ہی جین کر سکتی ہو گی۔ لیکن دوسرا رخ یہ ہے کہ وائے کروموزوم جینز کے رہنے کے لئے اچھی جگہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جوڑے کی صورت میں نہیں ہوتا۔ اس کا کوئی ڈپلیکیٹ اور بیک اپ نہیں ہے۔ اس کروموزوم کی ہر جین کو اپنی حفاظت خود کرنی ہے۔ خراب ہونے پر مرمت نہیں کی جا سکتی، کچھ بھی دوسری جگہ سے کاپی نہیں کیا جا سکتا (جو دوسرے کروموزومز کا طریقہ ہے)۔ اگر یہاں پر میوٹیشن کا حملہ ہو جائے تو ریکوری کا طریقہ نہیں ہے۔ وائے کروموزوم ماضی کے ان زخموں کے نشان رکھتا ہے اور اس وجہ سے انسانی جنیوم کا سب سے نازک حصہ ہے۔

اس جینیاتی بمباری کا حل یہ نکالا کہ ان نے کئی ملین سال سے خود کو مختصر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے جین جو اہم تھے، انہیں دوسرے کروموزوم کے سپرد کر دیا، جہاں وہ بحفاظت سٹور ہو سکیں، ایسے جین جو غیراہم تھے، وہ ریٹائر کر دئے گئے یا متروک ہو گئے۔ اس میں انفارمیشن کم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا اپنا سائز چھوٹا ہوتا گیا۔ ایک ایک ٹکڑا کر کے، میوٹیشن اور جین کے ختم ہو جانے کے بے کیف سائیکل میں۔ وائے کروموزوم کا سب سے چھوٹا ہونا محض اتفاق نہیں۔ مکھر جی اس کو “planned obsolescence” کہتے ہیں۔ مردوں کے لئے بنے ریٹائرمنٹ ہوم میں سگار کے کش لیتے ہوئے دھویں میں ختم ہوتے شخص کی طرح۔

جینیاتی لحاظ سے یہ ایک بڑا دلچسپ پیراڈوکس پیش کرتا ہے۔ جنس انسان کی پیچیدہ ترین خاصیتوں میں سے ہے۔ یہ کروموزوم ہمیں بتاتا ہے کہ اس کی کوڈنگ کئی جینز سے ملکر نہیں ہو سکتی۔ ایک جین جو اس نازک کروموزوم میں دبی ہوئی ہے، وہ اس خاصیت کا ماسٹر ریگولیٹر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کروموزوم کے اندر اس جین کی تلاش لندن میں ایک ماہرِ جینیات پیٹر گڈفیلو نے 1980 کی دہائی میں شروع کی۔ انہوں نے ایک برطانوی اینڈوکرائینولوجسٹ جیرالڈ سوائر کی سٹڈی پڑھی تھی۔ خواتین کے بانجھ پن پر تحقیق کرتے ہوئے سوائر نے ایک سنڈروم دریافت کیا تھا۔ بہت ہی کم پایا جانے والے سوائر سنڈروم میں XY کروموزوم کے ہوتے ہوئے بھی ایک فرد خاتون ہوتا ہے۔ نفسیاتی، جسمانی اور ہر لحاظ سے۔ سوائر سنڈروم والی خاتون میں وائے کروموزوم تو موجود ہوتا ہے لیکن کسی وجہ سے یہ اپنے ہونے کا اعلان نہیں کر پاتا۔ ایسی خواتین کو ڈھونڈنا، ان کے وائے کروموزوم کا ایک ایک کر کے مطالعہ کرنا، اس میں وہ میوٹیشن ڈھونڈنا جس کی وجہ سے یہ اپنا کام نہیں کر سکا۔ یہ جنس کی جین کی تلاش تھی۔ (اور یہ آسان نہیں تھی)۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈیوڈ پیج نے ایم آئی ٹی میں اپنی ٹیم کے ساتھ اس طریقے سے وائے کروموزوم کا ایک علاقہ دریافت کر لیا تھا۔ یہ سب محنت طلب تھا۔ ایک ایک کر کے اس علاقے سے جین کو کنگھالنا تھا۔ گڈفیلو آگے بڑھ رہے تھے جب انہیں 1989 کے موسمِ گرما میں انہیں خبر ملی کہ پیج نے جین تلاش کر لی ہے۔ اس کو ZFY جین کہا گیا۔ ٹھیک جگہ پر موجود جین ابتدا میں اچھا امیدوار لگ رہی تھی لیکن جب گڈفیلو نے اس کا احتیاط کے ساتھ تجزیہ کیا تو یہ فِٹ نہیں ہو رہی تھی۔ سوائر سنڈروم والی خواتین کے سیکونس میں اس جین کوئی ایسی میوٹیشن دریافت نہیں ہوئی جو سگنلنگ روکتی ہو۔ گڈفیلو واپس اپنی تلاش پر لگ گئے۔

پیج کی ٹیم ٹھیک جگہ تک تو پہنچ گئی تھی لیکن ٹھیک جین کو مس کر دیا تھا۔ اسی سال اس سے قریب ایک اور جین ملی۔ چھوٹی سی جین، بغیر کسی انٹرون کے، ٹائٹ پیکنگ میں، غیردلچسپ لگنے والی۔ اس کا نام SRY رکھا گیا۔ یہ SRY پروٹین بناتی تھی۔ اس پروٹین کی نر جانوروں میں موجودگی بھی اس خیال کے ٹھیک ہونے کی طرف اشارہ تھی۔ سوائر سنڈروم والی خواتین کے تجزیے نے اس جین کی ایک میوٹیشن کو ظاہر کر دیا تھا جو ان کے خاندان کے دیگر افراد میں نہیں تھی۔ اب اپنا کیس ثابت کر دینے کے لئے ایک آخری ڈرامائی تجربہ رہ گیا تھا۔

اگر یہ جین جنس کا تعین کرتی ہے تو اگر مادہ میں اس جین کو فعال کر دیا جائے؟ کیا مادہ کو نر بنایا جا سکتا ہے؟ گڈفیلو نے مادہ چوہوں میں اس جین کی اضافی کاپی داخل کی۔ ان کی اگلی نسل میں جو بچے XX کے ساتھ پیدا ہوئے تھے (جینیاتی لحاظ سے مادہ)، وہ جسمانی لحاظ سے اور عادات کے حساب سے نر تھے۔ گڈفیلو نے معکوس سوائر سنڈروم ایک جین کو تبدیل کر کے پیدا کر دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو کیا جنس صرف ایک جین ہے؟ تقریباً، سوائے ایسٹروجن کے لیول کی سطح کم ہونے جیسی چند ایک چیزوں کے اس جین کے غیرفعال ہونے کی وجہ سے XY ہونے کے باوجود جنسی شناخت ہر لحاظ سے خاتون کی تھی۔ SRY جین میں ایک تبدیلی پورے شخص کو بدل دیتی ہے۔ یہ اتنا ہی سادہ ہے، جیسا کہ ایک سوئچ آن یا آف ہو جائے۔ اس میں کسی بھی طرح کا کوئی ابہام نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن اگر یہ ایک آن یا آف سوئچ ہے تو مرد اور خاتون کے درمیان کے کئی رنگ؟ اس کا پس منظر جینومک کوڈ کے جینیاتی کاسکیڈ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply