پدماوت۔۔محمد ابراہیم شہزاد

اگر راجپوتی کنگن میں اتنی ہی طاقت ہے تو مسٹر بھنسالی اسے اپنے بازو کی زینت بھی بنا لیں۔۔مسخ شدہ تاریخ اور مسلمان حکمران کو گھناؤنے انداز میں پیش کرنے والی فلم ”پدماوت“ کو پاکستان میں نمائش کی اجازت کیوں ملی؟

فلم میکنگ ایک آرٹ ہے اور آرٹ سرحدوں کی قید سے آزاد ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ اچھی تفریح سے محظوظ ہونا ہر ایک کا حق ہے لیکن بطور پاکستانی اور بطور مسلمان اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ کہیں ہم اپنی تاریخ، اپنی غیرت اور حمیت کے نکالے گئے جنازے کو اپنی ہی جیب سے قیمت ادا کر کے کندھا تو فراہم نہیں کر رہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری کا مالک ہے جسے بالی وڈ کہا جاتا ہے اور یہاں ایک سے بڑھ کر ایک بڑا ہدایت کار موجود ہے مجھے اعتراف ہے کہ میں ایک فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے سنجے لیلا بھنسالی کو بہت پسند کرتا ہوں دور حاضر میں ان جیسا منجھا ہوا ڈائریکٹر شاید ہی ہندی فلم انڈسٹری میں کوئی اور ہو۔ان کی سینماٹوگرافی، کوریوگرافی، سیٹ ڈیزائننگ، کاسٹیومز، بڑے پردے کی مناسبت سے فلمی چہروں کا انتخاب، کہانی اور کریکٹرائزیشن، مکالمے اور موسیقی غرض کسی بھی شعبے میں معیار پر سمجھوتہ نہ کرنے کی روش ہی ان کو قد آور ہدایتکاروں کی صف میں کھڑا کرتی ہے۔

ان کے کریڈٹ میں ”ہم دل دے چکے صنم“ سے لے کر ”دیوداس“ ”بلیک“ ”گذارش“”سانوریا“ ”گولیوں کی راس لیلا“اور ”باجی راؤ مستانی“ جیسی لازوال فلمیں شامل ہیں۔ لیکن یہاں جس فلم کا ذکر ہونے جا رہا ہے وہ ہے لاتعداد تنازعات کے بعد حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ”پدماوت“ جو فنی اور تخلیقی لحاظ سے تو سنجے لیلا بھنسالی کے ان تمام معیارات پر پورا اترتی ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے مگر کہانی چونکہ تاریخی پس منظر رکھتی ہے اس لئے انصاف کا تقاضا تو یہ تھا اس کا اسکرپٹ  ہندو مسلم تعصب سے بالا تر ہو کر تاریخی حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مستند حوالوں کے ساتھ ترتیب دیا جا تا اور صر ف ہندو دیومالا کو  پردہ  سکرین پر اجاگر کرنے کیلئے تاریخ کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جاتا۔ فلم کی کہانی کا ذکر کرنے سے پہلے ہم سلطان علاؤ الدین خلجی کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں جن کو اس فلم میں ولن کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔

علاؤالدین خلجی  تیرھویں صدی کے اختتام پر 1296ء میں اپنے  چچا اور سسر سلطان جلال الدین فیروز خلجی کو قتل کرنے کے بعد دہلی کے تخت پر براجمان ہوا،اپنے چچا کو بے دردی سے قتل کر کے سلطنت  پر  قبضہ کرنے والے  سلطان  کے بارے میں میری طرح آپ کی بھی پہلی رائے یہی ہو گی کہ وہ ایک ظالم شخص تھا لیکن پس پردہ تاریخی حوالوں کواگر کھنگالا جائے تو ثابت ہوتا ہے سلطنت کی بقا اور نظام کو قائم رکھنے کیلئے اس نے جو قدم اٹھایا وہ ضروری تھا اور اس کی مثالیں ہمیں دنیا کی تمام بادشاہتوں میں اس سے بھی زیادہ وحشیانہ انداز میں دکھائی دیں گی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔

علاؤالدین خلجی ہندوستان میں خلجی خاندان کے دوسرے سلطان تھے وہ خلجی خاندان کے سب سے طاقتور سلطان بھی تسلیم کیے  جاتے ہیں ہندوستان کو سب سے اچھے دن مسلمان حکمرانوں نے ہی دکھائے ہیں۔قیمتوں پر کنٹرول کرنا علاؤالدین خلجی کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے  ،اس نے منڈی سے دلال  یعنی مڈل  مین  کا کردار  ختم کیا اور جاسوسی کا ایسا نظام بنایا کہ کوئی بھی دکاندار  ناپ  تول  میں  کمی یا قیمتوں میں رد و بدل کرتا تو فوراََ  بادشاہ  کے علم میں  آ  جاتا  اور دکاندار کو فوری سزا دی جاتی یہ قوانین اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے  سلطان  علاؤ الدین  خلجی 1296ء سے 1316ء تک  سلطنت دہلی  کے حکمران رہے۔ اگر تیرھویں صدی کے اختتام کے حالات و واقعات کا مطالعہ کیا جائے جب علاؤالدین نے عنان اقتدار سنبھالی تو اس وقت حالات کچھ یوں تھے کہ منگولوں نے وحشت اور بربریت کے پہاڑ توڑتے ہوئے افغانستان  کو  روندھ  ڈالا  تھا اور دہلی کی جانب اپنی اگلی پیش قدمی کے لئے تیار تھے اس سے پہلے کہ وہ دہلی کے گلیوں اور بازاروں کوخون آلود کرتے اور یہاں بھی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتے علاؤالدین (جو جلال الدین فیروز خلجی کا داماد اور مانک پور کا گورنر ہونے کے علاوہ سلطانی فوج کا ایک ذیلی سالار بھی تھا)نے منگولوں کا راستہ روکنے کیلئے دربار میں اپنی تجاویز پیش کیں اور سلطان سے اجازت چاہی کہ وحشی منگولوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے اسے سپہ سالار کی حیثیت سے سلطانی فوج کی قیادت کرنے دے جبکہ جلال الدین منگولوں کی تباہ کاریوں سے اتنا خوفزدہ تھا کہ وہ ان سے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈالنے کو تیار تھا یعنی جنگ سے پہلے ہی ہار تسلیم کر چکا تھا۔

بعض روایات کے مطابق بقائے سلطنت کیلئے علاؤ الدین  اسی وقت خوفزدہ  سلطان  کی  گردن اڑا کر تخت نشین ہوا اور فوج کی کمان سنبھال کر افغانستان کی جانب کوچ کر گیا جہاں اس نے منگول سرداروں کے سر قلم کر کے انہیں شکست دی اور دہلی کو منگولوں کے خطرے سے محفوظ کیا  اور بعض  تاریخی  حوالوں  میں یہ بھی ہے کہ سلطان سے اجازت ملنے کے بعداس نے منگولوں  سے  جنگ کی اور ان کو شکست دینے کے بعد دہلی جانے کی بجائے مانک پورآیا جہاں کا وہ گورنر تھا جبکہ سلطان جلال الدین دہلی میں اس کا انتظار کر رہا تھا جب سلطان کے طلب کرنے  کے باوجود علاؤالدین دہلی نہ گیا تو سلطان نے اس گستاخی کی سزا دینے کیلئے خود مانک پور آنے کا فیصلہ کیا جہاں علاؤ الدین نے اپنے غلام ملک کافور کی مدد سے جلال الدین فیروز کو قتل کیا اور خود تخت نشین ہو گیا۔علاؤ الدین خلجی سکندر اعظم کی طرح  فاتح  اعظم  بننے  کی  خواہش  بھی  رکھتا تھا  یہی وجہ ہے کہ اس کے بیس سالہ دور اقتدار کا زیادہ ترحصہ میدان جنگ میں گزرا اور اس نے ایک دو بار نہیں بلکہ چھ بار منگولوں سے نبر آزما ہونے کے علاوہ افغانستان، گجرات،دکن اور ملتان سمیت سولہ مختلف ہندو مرہٹوں کی بغاوتوں کو کچلا اور راجپوت راجواڑوں پر بھی حملے کیے جن میں چیتوڑ گڑھ کا قلعہ بھی شامل تھا جس پر ایک ہندو مہاراجہ رتن سین کی حکومت تھی،رانی پدمنی جسے پدماوتی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے راجہ رتن سین کی دھرم پتنی تھی جس پر 1540ء میں ایک مسلمان شاعر ملک محمد جایاسی کی لکھی گئی ایک رزمیہ نظم ”پدماوت“ کو لے کر یہ فلم بنائی گئی۔

اب  آتے ہیں  فلم  کے  ریویو  کی طرف جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ یہ کہانی ایک رزمیہ نظم سے لی گئی جو صرف ایک فکشن ہے اور اس کی کوئی تاریخی حیثیت نہیں لیکن اسے راجپوتوں کے ہاں کافی  تقدس حاصل ہے  اس کہانی کو راجپوتوں کی نسلی کہانی بھی کہا جا سکتا ہے۔اس کہانی کے دو حصے ہیں ایک حصہ رتن سین اور پدمنی کی محبت اور ان کے بیاہ پر مشتمل ہے اور دوسرا علاوالدین خلجی کے پدمنی پر عاشق ہونے کے بعد اس کے حصول کیلئے کیے  گئے یدھ پر مشتمل ہے جس میں علاو الدین چیتوڑ گڑھ کے ایک براہمن راج گرو کی زبانی رانی پدماوتی کے روپ اور حسن وجمال کا قصہ سن کر اسے پانے کیلئے بے تاب ہو جاتا ہے اور ریاست چیتوڑ گڑھ کے قلعے کا محاصرہ کر لیتا ہے مگر آٹھ مہینے تک قلعے کا محاصرہ کیے  رکھنے  کے باوجود اسے فتح نہیں کر سکتا بالآخر سلطان اپنے نمائندے ملک کافور کو صلح کا پرچم دے کر قلعے میں روانہ کرتا ہے اور راجپوتو ں کے لاکھ اختلافات کے باوجود رانی پدماوتی رعایا اور مملکت کی بہتری کیلئے صلح کا مشورہ دیتی ہے جسے بحث کے بعد مان لیا جاتا ہے۔

سلطان کو قلعے میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے اور کئی دن تک جشن اور دعوت کا اہتمام کیا جاتا ہے سلطان رتن سین کی مہمان نوازی دیکھ کر رانی پدماوتی کو بہن کہتا ہے اور فرمائش کرتا ہے کہ اس سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے راجپوت سلطان کی اس فرمائش پر بھڑک اٹھتے ہیں لیکن خون خرابے سے بچنے کیلئے اور رانی پدماوتی کے مشورے کواہمیت دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ سلطان کے سامنے ایک آئینہ رکھا جائے اور کچھ دیر کیلئے رانی اوپر جھروکے میں کھڑی ہو گی اور سلطان آئینے میں اس کا عکس دیکھ سکے گا جونہی سلطان رانی کو براہ راست دیکھنے کیلئے اوپر سر اٹھاتا ہے پردہ گرا دیا جاتا ہے ایسا کرنے پر نہ صرف سلطان کی اناکو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ وہ رانی کے حسن کا تشنہ سا عکس دیکھ کر اور بھی بیتاب ہو جاتا ہے۔سلطان اپنی ناراضی کا اظہار کیے  بغیر اپنے خیمے میں واپس جاتا ہے اور رتن سین کو اپنے ہاں دعوت پر بلواتا ہے اور دھوکے سے گرفتار کر کے دہلی لے جاتا ہے۔رانی اپنے راجہ کے فراق میں کڑھتی ہے اور اس کے دماغ میں ایک ترکیب آتی ہے وہ سلطان کو خط بجھواتی ہے کہ وہ اس کے حرم میں آنے کو تیار ہے سلطان رانی کی رضامندی سن کر بہت خوش ہوتا ہے رانی بظاہر قابل قبول شرائط پیش کرتی ہے کہ راجپوتوں کا رواج ہے کہ ان کی بیگمات کی پالکیاں صرف راجپوت قہار ہی اٹھاتے ہیں اور رانی اپنی آٹھ سو داسیوں کے ساتھ حرم میں آنا چاہتی ہے جسے سلطان منظو ر کر لیتا ہے پدماوتی بھاری بھرکم پالکیوں میں اپنے بہترین سپاہی داسیوں کے روپ میں سوار کرتی ہے اور ہر پالکی کو اٹھانے کیلئے قہاروں کے بھیس میں بھی آٹھ سپاہی ہوتے ہیں یوں پدماوتی سلطان کے قلعے میں اپنی خاطر خواہ سپاہ داخل کروانے میں کامیاب ہو جا تی ہے جونہی وہ سلطان کے قلعے میں داخل ہوتے ہیں پدماوتی اور اس کا سینا پتی سلطان کی ملکہ کی مدد سے رتن سین کو خفیہ رستے سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور قلعے میں موجود ان کی فوج سلطان کی سپاہ کو رتن سین کا پیچھا کرنے سے روکے رکھتی ہے یوں رتن سین اپنی مہا رانی کی عقلمندی سے اپنی ریاست چیتوڑ گڑھ واپس آ جاتا ہے۔

اس صریح اعلان جنگ کے بعد علاوالدین خلجی چیتوڑ پر فیصلہ کن حملہ کرتا ہے تمام راجپوت مرد زعفرانی رنگ کی پگڑیاں پہن کر میدان جنگ میں آتے ہیں علامتی طور پر اس وردی کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی آخری جنگ لڑنے کیلئے میدان میں آئے ہیں ادھر رانی اپنے قلعے میں تمام عورتوں کو ساتھ ملا کر ایک مہا چتا روشن کرتی ہے اور سبھی عورتیں سولہ سنگھار کر کے ایک اونچی جگہ پہ اکٹھی ہوتی ہیں اور چتا میں کود جاتی ہیں راجپوت اس رسم کو جوہر کہتے ہیں ایک ہندی روایت ہے کہ پدمنی کے مرنے کے بعد چیتوڑ کا قلعہ آٹھ مرتبہ فتح ہوا اور آٹھوں مرتبہ مردوں کے مرنے کے بعد تمام خواتین نے آگ میں کود کر جوہر کی رسم دھرائی۔قلعہ فتح ہونے کے بعد جب سلطان اندر داخل ہوا تو سوائے جلے ہوئے عورتوں کے جسموں کی سرانڈ کے سلطان کو کچھ حاصل نہ ہوا یوں سلطان رانی کیلئے ہاتھ ملتا رہ گیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فلم کی نمائش کو روکنے کیلئے انتہا پسند ہندؤوں نے جلاؤ گھیراؤ اور احتجاج کس بنا پر کیا حالانکہ فلم میں تاریخ تو مسلمانوں کی مسخ کی گئی اور مذہبی جذبات بھی مسلمانوں کے مجروح ہوئے۔ حقیقت میں یہ بغیر پیسہ خرچ کیے  فلم کی تشہیر کرنے کی ایک ایسی حکمت عملی تھی کہ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام بھی میسر آئیں۔ ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی نے فلم کی مفت تشہیر کیلئے یہ حکمت عملی پہلی بار نہیں اپنائی بلکہ ان کی گذشتہ دو فلموں گولیوں کی راس لیلا اور باجی راؤ مستانی کی ریلیز کے موقع پر بھی یہی پالیسی اپنائی گئی تھی فلم کی شوٹنگ کے دوران ہی چند کرائے کے انتہا پسند غنڈے حاصل کر کے شوٹنگ مکمل ہونے کے بعد سیٹ کو آگ لگوا دی جاتی تھی تاکہ منفی پراپیگنڈہ کر کے میڈیا کی توجہ حاصل کی جائے اور فلم کی تشہیر مفت میں ہویہ حکمت عملی پورے شوٹ کے دوران جاری رکھی گئی یہاں تک کہ رانی پدماوتی کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ دیپکا پاڈوکون کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئی عدالتوں میں مقدمے بھی دائر کیے  گئے لیکن حقیقت میں کیا ہوا صرف علامتی طور پر  ہار مانتے ہوئے فلم کا نام پدماوتی کی بجائے پدماوت کیا اور سنسر سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیا اور بنا پروموشن کا بجٹ خرچ کیے ہی باکس آفس پر قبضہ کر کے ہاؤس فل اور کھڑکی توڑ رش کامزہ بھی لے لیا،کروڑوں کے منافع سے جیبیں بھی بھر لی گئیں۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

واہ مسٹر بھنسالی اچھے ڈائریکٹر تو آپ ہیں ہی لیکن ایک کامیاب بنیئے بھی ہیں جن کا ایک ہی اصول ہوتا ہے کہ چمڑی تو جائے لیکن دمڑی نہ جائے۔فلم میں پدماوتی کا ایک مشہور ڈائیلاگ ہے کہ”راجپوتی کنگن میں بھی اتنی ہی طاقت ہوتی ہے جتنی راجپوتی تلوار میں“ سو مسٹر بھنسالی کرائے کا بلوا کروا کر زنانہ انداز میں جو فلم آپ نے نمائش کیلئے پیش کی ہے آپ کو مشورہ ہے کہ ایک راجپوتی کنگن آپ بھی اپنے بازو کی زینت بنالیں۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کی سیاہ کاریوں کا پردہ فاش کرتی پاکستانی فلم ”مالک“ کو تو فل بورڈ کر کے بین کر دیا گیا لیکن کیا اس فلم کوپاکستانی سنسر بورڈ کے نمائندوں نے آنکھیں اور کان بند کر کے دیکھا تھا جو اسے پاکستان میں نمائش کی اجازت دے دی۔۔۔؟؟؟

Facebook Comments

ابراہیم شہزاد
پیشے کے لحاظ سے گرافک ڈیزائینر، مصور اور خطاط سینئر گرافک ڈیزائنر ایٹ روزنامہ ایکسپریس لاہور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply