کشمیر ۔ موجودہ صورتحال (29)۔۔وہاراامباکر

یکم جنوری 1949 کی جنگ بندی کے بعد ریاست پانچ الگ حصوں میں بٹ گئی۔ آزاد جموں و کشمیر، جموں، وادی کشمیر، لداخ اور شمالی علاقہ جات (جو اب گلگت بلتستان کہلاتے ہیں)۔ لائن آف کنٹرول اس کو تقسیم کرتی ہے کہ کونسا علاقہ انڈیا کے زیرِانتظام ہے اور کونسا پاکستان کے۔ انڈین جموں و کشمیر کی ایک پارلیمنٹ بن گئی، جس کے دو ایوان تھے اور تین ڈویژن (جموں، کشمیر اور لداخ)۔ پاکستان میں دو الگ انتظامی حصے جہاں قوانین الگ رہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان۔
پاکستان نے پوزیشن یہ لی کہ پاکستان صرف عبوری طور پر انتظام چلا رہا ہے جب تک اقوامِ متحدہ کے تحت استصوابِ رائے نہیں ہو جاتا۔
اس کے علاوہ دو حصے مزید ہے جو انڈیا کے مطابق اس ریاست کا حصہ ہیں۔ لداخ کے شمال مشرق میں اکسائی چن۔ دوسرا سنکیانگ کے ساتھ وادی شکسگام جس پر 1963 میں پاکستان نے چین کا حق تسلیم کر لیا تھا۔ (انڈیا کی پوزیشن یہ ہے کہ چونکہ یہ علاقہ پاکستان کے پاس ہی نہیں تھا، اس لئے یہ ایسا کرنے کا مجاز نہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نومبر 1947 میں ان علاقوں پر چار حکومتیں موجود تھیں۔ آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کا کنٹرول تھا جس کے پیچھے آزاد آرمی تھی۔ وادی کشمیر میں شیخ عبداللہ اور نیشنل کانفرنس تھی۔ اس کے پیچھے پیپلز ملیشیا اور انڈین آرمی تھے۔ جموں کے مشرقی اور وسطی حصوں میں ہری سنگھ کی انتظامیہ تھی جس کے پیچھے جموں و کشمیر آرمی اور پولیس تھی۔ گلگت میں کراچی کی طرف سے پاکستانی ایڈمنسٹریٹر جس کے پیچھے پروپاکستان فورس جس میں گلگت سکاوٗٹ شامل تھے۔
ہم سب سے پہلے انڈین جموں و کشمیر کی طرف چلتے ہیں جہاں مہاراجہ کے زوال کے ساتھ نیشنل کانفرنس جلد ہی غالب فورس بن گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحاق کے بعد نئی دہلی نے مہاراجہ ہری سنگھ پر دباوٗ ڈال کر شیخ عبداللہ کو جیل سے رہا کروا کر انتظامیہ میں شامل کروایا۔ تاہم، جو لیڈر پروانڈیا نہیں تھے، وہ جیل میں ہی رہے۔ اس میں شیخ عبداللہ کے دو بڑے سیاسی حریف بھی تھے۔ جموں کے چوہدری غلام عباس اور کسان مزدور کانفرنس کے پریم ناتھ بزاز جو کشمیر میں مقبول تھے۔ پریم ناتھ اور عبداللہ، دونوں ہی سوشلسٹ تھے اور مہاراجہ کے مخالف تھے۔ جنوبی کشمیر میں بزاز زیادہ مقبول تھے۔ (دلچسپ چیز یہ کہ اس وقت ہندو راہنما پروپاکستان تھے، مسلمان راہنما پروانڈیا)۔
عباس کو جیل سے فروری 1948 میں رہا کیا گیا۔ یہ پاکستان چلے گئے اور آزاد کشمیر سیاست میں ان کا اہم کردار رہا۔ جبکہ ان کی پارٹی مسلم کانفرنس جلد ہی نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں کشمیر میں پس منظر میں چلی گئی۔ پریم ناتھ بزاز کی رہائی 1950 میں ہوئی اور انہیں ریاست سے نکال دیا گیا، جہاں وہ 1962 میں واپس آ سکے۔
نیشنل کانفرنس یا اس سے نکلی ہوئی پارٹیاں انڈین کشمیر کے سیاسی منظر پر چھائی رہیں۔ 2002 میں انہیں پہلی انتخابی شکست کانگریس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے اتحاد سے ہوئی۔
انڈیا نے آٹھ بار گورنر راج یا صدر راج نافذ کیا۔ ساڑھے تین ماہ کیلئے 1977 میں۔ 1986 میں دس ماہ کیلئے۔ 1990 میں پونے سات سال کیلئے۔ 2002 میں دو ہفتے کیلئے۔ 2008 میں چھ ماہ کیلئے۔ 2015 میں دو ماہ کیلئے۔ 2016 میں تین ماہ کیلئے۔ جبکہ آخری بار جون 2018 میں لگایا گیا جو تاحال جاری ہے۔
ریاست کے تمام وزرائے اعلیٰ کا تعلق کشمیر سے رہا، ماسوائے غلام نبی آزاد کے جو جموں کے علاقے ڈوڈا سے تھے اور تین سال وزیرِ اعلیٰ رہے۔ پاور سنٹر کشمیر میں ہونے کی وجہ سے جموں اور لداخ نظرانداز کئے گئے علاقے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدا سے ہی کشمیر کے بارے میں دو اہم عوامل رہے۔ پہلا تو یہ کہ انڈیا کی طرف سے کشمیریوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا کہ وہ ملک سے وفادار نہیں۔ دوسرا یہ کہ شیخ عبداللہ سمیت کئی لیڈروں کا خیال یہ رہا کہ خارجہ، دفاع اور مواصلات تو انڈیا کے پاس رہیں گے لیکن باقی سب کچھ کشمیری حکومت کے پاس ہو گا۔ انڈیا کے نومبر 1952 کے آئین کے آرٹیکل 370 میں بھی بڑی حد تک ایسا ہی تھا۔ لیکن ابتدا سے ہی آہستہ آہستہ انڈیا نے اس کو اپنا باقاعدہ حصہ بنانا شروع کر دیا۔ رسمی طور پر اس سٹیٹس کو 2019 میں ختم کر دیا گیا جس سے ریاستِ جموں و کشمیر تحلیل ہو گئی۔ اس ریاست کی جگہ پر دو یونین ٹیرٹری کے علاقے آ گئے۔ ایک جموں و کشمیر جبکہ دوسری لداخ۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply