اُمید کی آخری کرن۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

کل پاک بھارت کرکٹ میچ تھا۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ پاک بھارت میچ کے دوران سڑکیں سنسان ہوتی ہیں اور عوام کی اکثریت گھروں میں دبک کر میچ دیکھتی  ہے۔ مگر فیصل آباد جلسہ کے مناظر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عوام نے میچ میں دلچسپی لینے کے بجائے عمران خان کے جلسے میں شرکت کرنا ضروری سمجھا حالانکہ عوام کو معلوم ہے کہ عمران خان ہر جلسے میں وہی رٹی رٹائی باتیں کرتا ہے۔ اسی بات سے معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کے جلسوں میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت کا مقصد عمران خان کیساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔ اسی چیز کا نام آگاہی ہے کہ اب عوام کو اپنی ترجیحات کا کسی حد تک اندازہ ہو چکا ہے۔

میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ آپ عمران خان کو جتنا دباتے جائیں گے یہ اتنا ہی قوت اور طاقت سے اوپر آتا جائے گا۔ اب عوام نے اس پورے نظام کو بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے اب یہ نظام بدل کر ہی رہیں گے۔ صورتحال اب یہ بن چکی ہے کہ عمران خان اگر ایک درمیانے درجے کا سیاست دان بھی کھڑا کر دے گا لوگ صرف عمران خان کی امید پر اسے بھی ووٹ دے دیں گے۔

ابھی کچھ ہی دیر پہلے مجھ سے ایک دوست نے پوچھا کہ بالفرض عمران خان بھی اقتدار میں آنے کے بعد موجودہ حکومت کی طرح امریکہ کے آگے الٹا لیٹ جاتا ہے تو؟

میں نے عرض کیا کہ ہم امریکہ کیساتھ برابری کے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں ان کا نوکر بن کر نہیں۔ عمران خان کے سپورٹرز زیادہ تر تعلیم یافتہ طبقہ ہے جو عمران خان کے غلط فیصلوں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر عمران جان کا وہ کڑا احتساب ہو گا کہ پورا ملک دیکھے گا۔

ویسے بھی جو بندہ عالمی فورم پر کھل کر اسلاموفوبیا کی بات کرتا ہو، جو بندہ امریکی صدر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہو،جو بندہ امریکی اور دیگر عالمی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ کے پاکستان کیساتھ ہتک آمیز رویہ پر کھل کر تنقید کرتا ہو، جو شخص پاکستان میں موجود امریکی سفیر کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں ناک  گھسانے  پر تنقید کرتا ہو، جو بندہ    یہ کہتا ہو کہ میں امریکہ اور دیگر تمام ممالک کیساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات کا خواہاں ہوں ،ایسے بندے سے اچھا گمان رکھنا چاہیے اور الحمد للہ ہم اچھا گمان رکھتے ہیں۔

یہ عمران خان نے اس وقت کیا جب وہ اپنے اقتدار کے بام عروج پر تھا۔ اب دوبارہ آنے کے بعد اگر عمران خان اس کے برعکس کچھ کرتا ہے تو انشاءاللہ عمران خان پر کھل کر تنقید ہو گی کیونکہ میری نظر میں وہ کوئی دیوتا یا بھگوان نہیں بلکہ صرف ایک سیاست دان ہے جس کے ہر غلط فیصلے پر کھل کر تنقید ہونی چاہیے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں شخصیت پرستی سے باہر نکل کر ملک کیلئے سوچنا ہو گا۔ عمران خان خدانخواستہ کوئی خدا نہیں ہے بلکہ ایک عام سیاست دان ہے اسے کوئی اعلیٰ و ارفع مخلوق بھی نہ سمجھا جائے۔ میں اسے دیگر سیاست دانوں کے ساتھ موازنے کے بعد قدرے بہتر پاتا ہوں اسی لئے پیمانہ سہولت کا معمولی سا جھکاؤ عمران خان کی طرف ہے ورنہ بیڈ گورننس و مہنگائی جیسی خامیاں تو اس کے دور میں بھی رہی ہیں ہم نے ان پر کھل کر تنقید کی اور مسلسل کرتے رہے۔ مگر موجودہ حکومت کے آنے کے بعد مہنگائی اور بیڈ گورننس کے جو ریکارڈ ٹوٹے اس پر مجھے اعتراض ہیں کہ جس طرز پر عمران خان کو چلتا کیا گیا وہ درست نہیں تھا حالانکہ عمران خان کے دور اقتدار میں یوں لگ رہا تھا کہ عمران خان اگلا الیکشن بدترین طریقے سے ہارے گا مگر موجودہ حکومت نے اڑتا تیر بغل میں لے لیا اور ستم ظریفی یہ کہ ایسی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ عمران خان کی غلطیاں اس سے کہیں چھوٹی معلوم ہونے لگیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دستیاب سیاست دانوں میں عمران خان آج بھی عوام کیلئے ایک آخری امید کے طور پر زندہ ہے بلکہ اسی طرح جیسے ایک مسافر گُھپ اندھیرے میں سفر کر رہا ہو اچانک اسے دور اندھیرے میں معمولی سی روشنی نظر آ جائے۔ بس عوام کیلئے عمران خان اسی روشنی کی ایک کرن ہے جو غریب عوام کا خون چوسنے والے اس فرسودہ سسٹم میں تبدیلی لا سکتا ہے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply