قلمکار احساس کا مصوّر ہے۔۔صائمہ بخاری بانو

قلم کار احساس کا مصور ہے ،اپنے خیال کا مجسمہ تراش بھی، وہ اپنے الفاظ کے بدن میں اظہار کی روح پھونکتا ہے اور اپنی تمنا کا سلگتا ہوا لوبان گوندھتا ہے، اپنے جذبوں میں رقصاں و مگن سچائی کے رنگ گھولتا ہے وہ شوق کی تسبیح پر وفا کا ورد کرتا ہے ،اور درد کی آیتوں سے اک سماں باندھتا دیتا ہے، تو اس صنم گری پر وجدان جھومتا ہے،ادراک گونجتا ہے پھر یوں اوجِ ثریا پہ سجے ہوئے اپنے تخیل کے صنم کو یہ بت ساز اک ادا سے مورت میں ڈھالتا ہے اور غم تراشتا ہے۔۔

قلم کار اپنے خالقِ کامل کے حکم اور احسان کے سبب ہی خالق کہلاتا ہے، وہ مصور ہے، رنگ ریز ہے، زندگی کا اشارہ ہے، اپنے ہی بیدار شعور کا استعارہ ہے، صنم گر ہے، بت ساز ہے، حرف پر امین ہے اور اظہار پر قادر ہے، وہ اپنے مطہر تخیل پر گواہ ہے اور باکر اظہار کا وارث، محافظ، پاسبان اور ولی ہے۔ ایک سچے قلم کار کے قلم پر یہ واجب ہے کہ اس کا خیال مخلص و سچا ہو، احساس نرمل ہو، الفاظ رفیع الشان ہوں، اظہا ر باکر ہو، تمنا دہکتی ہو، شوق جوبن پر ہو، ذوق جمالِ بے مثل ہو تو درد اوجِ کمال چھو لے ،پھر ایک قوس ِ قزح ہے جو اس کے گردا گرد اور وجود پر القا ہوا کرتی ہے ،یوں وہ اپنے جذبوں کو رنگ بخشتا ہے ،اگر ہم اپنے رنگیلے جذبوں کی ترسیل میں خیانت نہ کریں تو وہ دن کچھ دور نہیں ہو گا کہ ہمارا تخیل  آسمان کی وسعتوں اور رفعتوں سے بھی بڑھ کر بے پایاں اور بے کراں ہو جائے گا۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے ادھر ہوتا کاش کہ  مکاں اپنا
غالب

“میرے ایک دردزاد نے لکھا تھا کہ سخن ساز داد و نقد سے بے نیاز نہ ہوا تو وہ گویا پابندِ سلاسل ہوا، پھر مزید کہا کہ اگرچہ تحسین و شہرت کا حصول ایک حسین اور خوش نما خیال کا مظہر تو ہو سکتے ہیں لیکن ایک بلند بخت اور خوش اقبال تخیل کا مصدر تو ہرگز نہیں، بقول اس حبیب کے جس طرح ایک مطربہ اور رقاصہ داد و تحسین اور انعام و نذرانے محض اپنے پرستاروں سے ہی قبول کرتی ہے نا کہ کسی دوجی مغنیہ یا کتھا کار سے ،بالکل ایسے ہی ایک سخن ور دوجے سخن ساز کو سراہے ایسی امید ہی عبث ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ یہ بات گرہ سے باندھ لینے کی ہے کہ ایک مخلص و صادق تخلیق نگار کو کسی دوجے عصبیت زدہ لکھاری سے خوف کھانے کی چنداں ضرورت نہیں، ہاں مگر اس دن تم ضرور ڈرنا جب یہی تعصب تمہارے قاری کے رویوں میں در آئے۔ وہ کہتا تھا حرف تو وہ ایلچی ہے جو لکھاری اور قاری کے بیچ ربط کی ریشم ڈور تانتا ہے اور اس کے نزدیک اپنے پڑھنے والے سے تعلق بنا پانے والا حرف ہی معتبر و مقبول ہوا کرتا ہے اور وہ حروف جنہیں پڑھتے پڑھتے لکھاری کا احساس قاری پر بیت جائے وہ اپنی ہڈ بیتیوں کی کرلاہٹیں لکھنے والے کے حروف کے پیچوں پیچ چنتا چلا جائے جیسے کوئی حسینہ چپ چاپ، خاموشی سے کپاس چنتی رہے تو ایسے حروف سے بڑھ کر خوش بخت اور طالع مند کیا شے ہو گی”۔

آپ کا خیال ہی آپ کی میراث ہے جب بھی اظہار کیجیے اسے اپنے ہی الفاظ اور اسلوب کی قبا نذر کیجیے نا کہ کسی دوجے لکھاری کی تمنا کو پوجیں۔ اپنے احساس کو اپنے ہی شوق کا سنگھار عطا کیجیے اپنے ہی ذوق کے گہنوں سے سنواریں۔ لکھنا ہی ہے تو اپنے وجود کی سچائی کا بیانیہ لکھیے، آپ یا ہم کسی بھنبھناتی ہوئی مگس کی طرح کسی اور سخن ساز کے ریشم تخیل کے باقی ماندہ خس و خاشاک کاہے کو چاٹیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک سچا قلم کار تو ایسا یکسو، حنیف اور عاشقِ صادق ہوا کرتا ہے جو اپنے ہی تخیل کی کنواری ڈالیوں، اپنے احساس کے مرطوب گودے اور اپنے جذبوں کےگلہائے رنگ و رنگ سے اپنے اسلوب اور اظہار کا زرِ گل کشید کرتا ہے۔ پس یہ سچے لکھنے والے پر واجب ہوا کہ وہ لکھے تو اپنے ہی احساس کا صحیفہ کنندہ کرے۔

Facebook Comments

صائمہ بخاری بانو
صائمہ بانو انسان دوستی پہ یقین رکھتی ہیں اور ادب کو انسان دوستی کے پرچار کا ذریعہ مان کر قلم چلاتی ہیں