دین،سیاست اور ملائیت (قسط4)۔۔۔عنایت اللہ کامران

گزشتہ سے پیوستہ:

حقیقت یہ ہے کہ انہی حضرات کے بھائی بندوں نے اس ملک کا بیڑا غرق کیا اور ان کا ملبہ یہ حضرات اب بے چارے مولوی پر ڈال کر اپنے اس کام کو جاری رکھنے کے جتن کررہے ہیں۔ان کی علمی حالت کا یہ حال ہے کہ ان بے چاروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ جو مطالبات یہ کررہے ہیں ان کا مطلب کیا ہے؟جو الفاظ ان کے منہ میں ڈالے گئے ہیں ان کا مقصدکیا ہے،طوطے (توتے) کی طرح رٹے ہوئے جملے ادا کرکے یہ خود کو سارے جہان کا عالم اور فاضل سمجھتے ہیں۔جب میں کسی لبرل،سیکولر یا دین بیزار شخص کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ”سیاست اور دین دو الگ الگ چیزیں ہیں“تو یقین جانئیے میں اپنی ہنسی نہیں روک سکتا،قہقے لگانے کو جی چاہتا ہے،انکی علمی حالت پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔یہ مولوی پر”بے چارہ دورکعت کا امام“ کہ کر پھبتی کستے ہیں لیکن انکی اپنی علمی قابلیت انہیں ”دو کوڑی“ کابنادیتی ہے۔آئیے ذرا جائزہ
لیں کہ دین اور سیاست کیا چیز ہے اور کیا یہ دونوں جدا جدا یعنی الگ الگ ہیں؟۔

نئی قسط

سیاست(Politics):
سیاست یونانی زبان کے ایک لفظ”ساس“ سے مشتق ہے جس کا مطلب بنتا ہے ”شہر و شہر نشیں“(ویکی پیڈیا اردو)۔یونان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوتی تھیں جنہیں Polis کہاجاتا تھا اور ان کے معاملات کو Politike کہا جاتا تھا۔معروف مفکر ارسطو نے Politike کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جسے انگریزی میں Politics کہا گیا۔یوں Polis کے معاملات کو چلانے والے Politicion کہلائے۔( حمزہ گورایہ)۔

معروف عالم دین شیخ الحدیث جامعہ تفہیم القرآن (مردان) مولانا گوہر رحمان صاحب اپنی کتاب اسلامی سیاست میں اس حوالے سے بیان کرتے ہیں ”سیاست بروزن امارت،”ساس”  بروزن قالَ،یقُولُ سے مصدر ہے،اس باب کا مصدر ”سوس“بروزن قول آتا ہے۔”سیاست” اور” سوس “کے اساسی معنی ”اصلاح کرنا اور سنوارنا کے ہیں“۔اس لغوی مفہوم کی مناسبت سے یہ دونوں مصدر “ریاست و حکومت اور تدبر مملکت” کے معنوں میں بھی بکثرت استعمال ہوتے ہیں،اس لئے کہ حکومت اور ریاست کا مقصد بھی عوام کی حالت کو سنوارنا اور اصلاح کرنا ہوتا ہے“۔مولانا صاحب مزید فرماتے ہیں ”سیاست کسی چیز کی اصلاح کے لئے کمر بستہ اور کھڑے ہوجانے کو کہاجاتا ہے اور سیاست ایک مدبر اور قائد کا کام ہوتا ہے۔سائس(آج کل سیاستدان)اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سرداروں ،قائدین کی قوم میں سے ہوتا ہے“۔
علامہ ابن خلدون فرماتے ہیں ”سیاست اور حکومت مخلوق کی نگہداشت اور ان کے مفاد کی کفالت و ضمانت کا نام ہے،یہ سیاست اللہ کی نیابت ہے،اس کے بندوں پر اسی کے احکامات نافذ کرنے کے کام ہیں۔۔
1:زمین آباد کرنا اور عمرانی تمدن قائم کرنا 2:اللہ کے احکامات نافذ کرنا اور اخلاق فاضلہ اختیار کرنا۔
علامہ ابن خلدون مزید فرماتے ہیں:سیاست ان تدابیر کا نام ہے جن کی وجہ سے لوگ صلاح و مصلحت عامہ کے قریب ہوجائیں اور فساد و بگاڑ سے دور ہوجائیں“۔
انگلش کے لفظ Politicsکا اردو میں مطلب بنتا ہے نظام حکومت،نظم و نسق،یعنی نظام حکومت چلانا،یا کسی علاقہ،شہر،ملک کا نظم و نسق قائم کرنا۔اردو میں Politics سیاست کہا جاتا ہے یہ لفظ”سیاست“عربی زبان کا ہے”عربی زبان میں ثلاثی مجرد باب سے مشتق اسم ہے،عربی سے من و عن اردو میں داخل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے،سب سے پہلے 1639 ء میں ”طوطی نامہ‘‘ میں تحریراً مستعمل ملتا ہے“۔اسمِ کیفیت(مونث۔واحد) اس کا مطلب 1:کسی ملک کا نظام حکومت،ملکی تدبیر اور انتظام،طریقہ حکمرانی،احتسابِ حکومت کا قیام،حکومت کرنے کی حکمت عملی۔2:چالاکی،دانشمندی،تدبیرجبکہ حفاظت،نگرانی،حکومت اور سلطنت اسکے مترادفات ہیں۔3:جزا و سزا(اردو میں ریاست کے علم کو سیاست کہا جاتا ہے)۔                          (Management,Conduct (of affairs) Right Ordering, Government, Governance, Administration,Punishment)

سیاست کی تعریف مغربی مفکرین کے نزدیک:
ارسطو کہتا ہے کہ“علم سیاسیات شہری ریاستوں کا علم ہے۔“ دور جدید کے ماہرین علم سیاسیات کی تعریف کے ضمن میں مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ بعض علم سیاسیات کو ریاست کا علم کہہ کر پکارتے ہیں اور بعض حکومت کا علم جبکہ بعض مصنفین علم سیاسیات کو ریاست اور حکومت دونوں کا علم قرار دیتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر گارنر (Prof. Dr. Garner)کا کہنا ہے کہ ”علم سیاسیات کی ابتدا اور انتہا ریاست ہے۔”
لخچلی (Bluntschli)کے نزدیک ” علم سیاسیات ریاست کا علم ہے جو ریاست کے بنیادی حالات اس کی نوعیت اور اس کی ظاہری حیثیت کی روشنی میں اس ادارہ کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔”
جی ایچ جیمز (G.H.James)کہتے ہیں ” علم سیاسیات ریاست سے شروع ہوتا ہے اور ریاست پر ہی ختم ہوتا ہے۔”
پروفیسر ڈاکٹر سٹیفن لیکاک (Prof. Dr. Stephen Leacock)کے نزدیک ”سیاسیات ایسا علم ہے جو حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔”
پروفیسر سیلے (Prof. Seeley)کہتے ہیں کہ”علم سیاسیات حکومت کے حقائق کی جستجو کرتا ہے جس طرح کہ معاشیات دولت سے تعلق رکھتا ہے۔ بیالوجی زندگی سے، الجبرا اعداد سے اور جیومیٹری کی جگہ اور اس کی وسعت سے“۔
پروفیسر گلکرائسٹ (Prof. Gilchrist): ”علم سیاسیات ایسا علم ہے جو ریاست اور حکومت دونوں کی نوعیت سے بحث کرتا ہے۔”
گیٹل (Gettell): ” علم سیاسیات ریاست اور ریاستوں کے مابین تعلقات سے تعلق رکھنے والا علم ہے اور یہ حکومت کے مختلف اداروں سے بھی بحث کرتا ہے۔”
پال جینٹ (Paul Janet): ” فرانسیسی مصنف پال جینٹ کا کہنا ہے کہ علم سیاسیات عمرانی علوم کا وہ حصہ ہے جو ریاست کی بنیادوں اور حکومت کے اصولوں سے تعلق رکھتا ہے۔”
پروفیسر ڈاکٹر لاسکی (Prof. Dr.Laski): ” علم سیاسیات ریاست کے علاوہ حکومت کی تنظیم اور ارتقا کا بھی احاطہ کرتا ہے۔”
ای سی سمتھ (E.C.Smith): ” علم سیاسیات معاشرتی علوم کی ایک شاخ ہے جو ریاست کے نظریے اور تنظیم اور حکومت اور اس کی کارکردگی سے متعلق ہے۔”(ویکی پیڈیا اردو)

سیاست کیا ہے؟درج بالا سطور میں آپ کو سیاست کے لغوی معنی (انگلش،عربی،اردو،فارسی اور یونانی) کے علاوہ کچھ مغربی اہل علم مفکرین کے مطابق سیاست کی تعریف آپ کی خدمت میں پیش کی ہے ہمارا موضوع چل رہا ہے کیا سیاست اور دین الگ الگ چیزیں ہیں اور کیا دین کو سیاست سے جدا ہونا چاہیے؟اب تک آپ نے اس سے قبل جو ملاحظہ کیا
ہے اسے ذہن میں رکھیے گا تاکہ پوری بات آپ کی سمجھ میں آجائے۔

جو لوگ مذہب اور سیاست کو الگ الگ چیزیں سمجھتے ہیں وہ ذرا قدیم تاریخ کے اوراق کھولیں،اسلامی تاریخ اور حوالے بعد میں سب سے پہلے اہلِ مغرب کی ہی تاریخ کا مطالعہ کیجیے جن سے آپ نے سیاست اور دین کی علیحدگی کافلسفہ مستعار لیا ہے،قوم یہود (بنی اسرائیل)کی تاریخ ملاحظہ فرمائیے،بنی اسرائیل کی سیاست ہمیشہ ان کے انبیائے کرام کے ہاتھ میں رہی ہے،حضرت سلیمان ؑ،حضرت داؤدؑ،حضرت یوسفؑ،حضرت موسیٰؑ ان کے مشہور پیغمبر و رسول اور بادشاہ گزرے ہیں۔اس لئے یہ فلسفہ کہ دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں انتہائی لغو،جھوٹا اور بے بنیاد ہے،اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی سر پیر ہے۔یہ فلسفہ اہل مغرب نے اس لئے ایجاد کیا کہ انکے مذہبی پروہتوں نے(جیسا کہ اس مضمون کی ابتدائی سطور میں عرض کیا جا چکا ہے)بڑی چال اور تدبیر کے ساتھ اقتدار اور حکومتوں میں نفوذ کیا اور اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے حکمرانوں کے اختیارات غیر اعلانیہ طور پر ہتھیائے۔ان لوگوں نے مذہب کے نام پر خود کو مرکز نگاہ بنایا،لوگوں کا اعتماد حاصل کیا،لوگوں نے ان کے پاس اپنی امانتیں رکھوانی شروع کردیں ،ان امانتوں کو انہوں  نے سود پر بطور قرض دینا شروع کیا اور بہت جلد اتنی دولت اکٹھی کرلی کہ یہ حکمرانوں کو قرض دینے لگے،دنیا کا سب سے پہلا بنک اور پہلی (ابتدائی) کرنسی (رسیدات کی شکل میں)ان لوگوں نے متعارف کرائی،چونکہ بادشاہوں کو قرض دیتے تھے لہذا  بادشاہوں سے بعض شرائط بھی منواتے رہے، ہوتے ہوتے یورپین ممالک میں یہ اتنے طاقتور ہوگئے کہ بادشاہ کے نام سے ٹیکس یہ جمع کرتے تھے یعنی ٹیکس کلکٹر بن گئے،اور صرف عائد کردہ ٹیکسز کی وصولی پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی ہوس کی تسکین کے لئے تحائف کے نام پر مزید کا مطالبہ بھی کرتے تھے بلکہ اس وقت تک نہ ٹلتے تھے جب تک کہ اپنا مطالبہ پورا نہ کروالیتے،بادشاہوں اور حکومتوں کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے یہ حکومتوں کو آپس میں لڑاتے بھی تھے کیونکہ ممالک کی آپس کی لڑائی میں ہی انکے کاروبار کی بقا تھی،انہوں نے بادشاہوں اور حکومتوں کو اپنے دام میں بری طرح پھنسا لیا تھا،یہی نہیں اخلاقی طور پر پستیوں کی جس اتھاہ گہرائیوں اور دلدل میں یہ دھنسے ہوئے تھے وہ ناقابل بیان ہے،یہی وجہ ہے کہ تنگ آکر انکے خلاف تحریک شروع ہوئی جو بالآخر فرانس کے بادشاہ فلپس چہارم کے دور میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی،جیکس ڈی مولائے جو اس گروہ کے آخری گرینڈ ماسٹر تھے کو ہلکی آنچ پر جلاکر کباب بنادیا گیا،اور پھر کلیسا کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا،کلیسا کی اقتدار سے بے دخلی محض اس گروہ کی استحصالی پالیسیوں کی وجہ سے ہوئی۔ہمارے دیسی لبرلز اور سیکولرز جو اچھل اچھل کر اور گلے پھاڑ پھاڑ کر اسلام بیزاری کا اظہار کررہے ہوتے ہیں اور دین و سیاست الگ الگ چیزیں ہیں جیسے رٹے رٹائے جملے بول رہے ہوتے ہیں تو حقیقتاً انہیں نہ تو انہیں ٹمپلرز(فری میسنز)کی تاریخ کا کچھ علم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے اصل مقاصد کا انہیں کچھ پتا ہوتا۔

جاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

عنایت اللہ کامران
صحافی، کالم نگار، تجزیہ نگار، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ سیاسی و سماجی کارکن. مختلف اخبارات میں لکھتے رہے ہیں. گذشتہ 28 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک، کئی تجزیے درست ثابت ہوچکے ہیں. حالات حاضرہ باالخصوص عالم اسلام ان کا خاص موضوع ہے. اس موضوع پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں. طنزیہ و فکاہیہ انداز میں بھی لکھتے ہیں. انتہائی سادہ انداز میں ان کی لکھی گئی تحریر دل میں اترجاتی ہے.آپ ان کی دیگر تحریریں بھی مکالمہ پر ملاحظہ کرسکتے ہیں. گوگل پر "عنایت اللہ کامران" لکھ کربھی آپ ان کی متفرق تحریریں پڑھ سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply