“یہ لو خنجر! اور اڑا دو گردن اپنے قاتل کی۔
جس نے تم سے زندگی چھینی اس کی سانسیں چھین لو۔”
معصوم ہاتھوں میں تلوار تھما دی گئی۔
اس نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑے ہوئے خنجر پر ڈالی اور ایک نظر سامنے کھڑے قاتل پر ڈالی۔
نہ جانے کیا ہوا کہ اس کے
رونگٹے کھڑے ہو گئے،
آنکھوں میں آنسو آ گئے،
سانس پھول گیا،
چہرہ متغیر ہو گیا،
جسم کانپنے لگا،
قدم لڑکھڑا گئے اور
اس کے ہاتھوں سے خنجر چھوٹ گیا۔
سسکتی آواز اور کپکپاتے ہونٹوں سے وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی:
“وہ میرا باپ ہے۔”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں