اُستادِ محترم نے قیدی نمبر ون کے حق میں کالموں کی بھرمار کر کے حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔ حکومت میں بیٹھے اُن کے ایک پرستار نے پچھلے دنوں مجھ سے پوچھا کہ یہ اُستادِ محترم کو کیا ہو گیا ہے؟ ہمارے حق میں لکھتے لکھتے وہ اچانک ہمارے خلاف کیوں ہو گئے؟
میں نے عرض کی کہ اپنے حامیوں کو دشمن بنانا کوئی آپ سے سیکھے لیکن اُستادِ محترم ابھی آپ کے دشمن نہیں بنے صرف مایوس ہو گئے ہیں کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت نے قیدی نمبر ون کے ساتھ بہت نا انصافی کی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ اُستادِ محترم اور قیدی نمبر ون کون ہے؟
تو جناب اُستادِ محترم ڈاکٹر مجاہد منصوری ہیں جو تین دہائیاں قبل پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ہمیں صحافت پڑھاتے تھے۔ قیدی نمبر ون میر شکیل الرحمٰن ہیں۔ اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ قیدی نمبر ون کیسے ہو گئے؟
دراصل کچھ دن پہلے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس برائے سال 2020جاری ہوا تو اس میں پاکستان کی پوزیشن 142سے گر کر 145ویں نمبر پر آ گئی۔ ایک غیرملکی سفارتکار نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پاکستان کی پوزیشن میں کمی کی وجہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری ہے؟
میں نے اُسے بتایا کہ پاکستان کی پوزیشن میں کمی کی وجہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری نہیں بلکہ 2019میں میڈیا پر عائد کی جانے والی پابندیاں اور غیرعلانیہ سنسر شپ ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری مارچ 2020میں ہوئی، اُس وقت تک ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے لئے اعداد و شمار اکٹھے ہو چکے تھے لیکن کورونا وائرس پھیلنے کے باعث اس کے اعلان میں کچھ تاخیر ہو گئی۔ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے اثرات آپ کو سال 2021کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں نظر آئیں گے۔
سفارتکار نے مجھ سے پوچھا کہ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف مقدمے کی نوعیت کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ قومی احتساب بیورو نے اُنہیں دو ماہ قبل گرفتار تو کر لیا تھا لیکن ابھی تک اُن پر کوئی مقدمہ، کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا۔ سفارتکار نے پوچھا تو پھر اُنہیں گرفتار کیسے کر لیا گیا؟ میں نے بتایا کہ اُنہیں ایک شکایت کی تصدیق کے لئے بلایا گیا تھا، وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے قیدی ہیں جنہیں نیب نے شکایت کی تصدیق کے مرحلے میں گرفتار کر لیا.
کسی عدالت نے اُن کی ضمانت بھی نہیں لی اور طویل جسمانی ریمانڈ کے بعد اب وہ جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ ریمانڈ کے دوران اُن کے بڑے بھائی میر جاوید رحمٰن کا انتقال ہو گیا جس کے بعد سے اُن کی طبیعت سخت خراب ہے لیکن وہ ابھی تک پولیس کی حراست میں ہیں۔ یہ سُن کر سفارتکار نے حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا قیدی ہے جو مقدمے کے بغیر ریاستی تحویل میں ہے اور پھر اُس نے میر شکیل الرحمٰن کو قیدی نمبر ون کا خطاب دے دیا۔
میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری سے قبل اُستادِ محترم ڈاکٹر مجاہد منصوری روزنامہ جنگ میں عمران خان کی حکومت کے کئی اقدامات کا دفاع کر رہے تھے۔ تحریک انصاف کے اکثر حامی اخبار وغیرہ نہیں پڑھتے لیکن جو پڑھتے ہیں وہ اُستادِ محترم کے پرستار بن چکے تھے کیونکہ وہ ایک ایسے اخبار میں عمران خان کا دفاع کر رہے تھے جس کا ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن تھا لیکن مارچ 2020میں بغیر کسی مقدمے کے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری نے ڈاکٹر مجاہد منصوری کو بھی حیران و پریشان کر دیا۔ پھر اُستادِ محترم نے کالموں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور میر شکیل الرحمٰن کے جرائم کی گواہی دینی شروع کی اور اس میں سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اُنہوں نے ہر دور میں مشکلات اور پابندیوں کے باوجود سچ شائع کرنے کی کوشش کی۔
ناانصافی کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو اپنا پلیٹ فارم دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے قومی مفادات کا ہمیشہ تحفظ کیا۔ ڈاکٹر صاحب 32سال تک صحافت کے اُستاد رہے اور پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد سے میڈیا کے رجحانات کا تجزیہ کرنے کے علاوہ مستقل کالم نویسی کر رہے ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ اُنہوں نے 2009میں میر شکیل الرحمٰن کو یہ مشورہ دیا کہ پاکستان کے قومی میڈیا میں بلوچستان پر توجہ کم ہو گئی ہے۔
بلوچستان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور شکیل صاحب نے ڈاکٹر مجاہد منصوری کی رائے سے اتفاق کر لیا۔ وہ لوگ جو میر شکیل الرحمٰن پر ملک دشمن طاقتوں سے گٹھ جوڑ کا الزام لگاتے ہیں اُنہیں معلوم ہو جانا چاہئے کہ شکیل صاحب کو بلوچستان پر توجہ دینے کا مشورہ کسی بھارتی خفیہ ادارے نے نہیں بلکہ ڈاکٹر مجاہد منصوری نے دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ مشورہ پاکستان کی محبت میں دیا تھا۔
بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ قیدی نمبر ون سے موجودہ حکومت اتنی ناراض کیوں ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ قیدی نمبر ون سے ہر حکومت ناراض ہو جاتی ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اُن کا اخبار اور ٹی وی چینل پاکستان میں نمبر ون ہے۔
پاکستانی معاشرے میں جو بھی نمبر ون ہوتا ہے اُس کے سب سے زیادہ دشمن ہوتے ہیں اور اکثر دشمنوں کے پاس نمبر ون سے دشمنی کی واحد وجہ صرف حسد ہوتا ہے۔ آپ میر شکیل الرحمٰن سے ہزار اختلاف کریں لیکن یہ مانیں کہ اُنہوں نے اپنے اخبار کو بھی نمبر ون بنایا اور ٹی وی چینل کو بھی نمبر ون بنایا۔ پاکستان میں بڑے بڑے امیر لوگوں نے اخبار اور ٹی وی چینل شروع کیے لیکن وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر نمبر ون نہیں بن سکے، جب وہ نمبر ون نہ بن سکے تو اُنہوں نے جنگ اور جیو پر غداری اور کفر کے الزامات لگائے۔
میر شکیل الرحمٰن نے اُن الزامات کے خلاف برطانیہ کی ایک عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ عدالت نے اے آر وائی والوں سے کہا کہ اپنے الزامات ثابت کرو۔ وہ ثابت نہ کر سکے تو انہیں بھاری جرمانہ عائد کیا گیا اور انہوں نے اپنے چینل پر میر شکیل الرحمٰن سے معافی مانگی۔
میر شکیل الرحمٰن کو برطانیہ میں انصاف مل گیا تو اُن کے حاسد ین اور دشمنوں نے اُن سے پاکستان میں بدلہ لینے کا فیصلہ کیا اور بغیر کسی مقدمے کے اُنہیں قیدی نمبر ون بنا دیا۔ جب اُنہیں نیب کی حوالات میں بند کیا گیا تو خاص طور پر اُن کی سلاخوں کے پیچھے تصویر بنوا کر میڈیا کو جاری کی گئی۔
حاسدین اس عید پر بہت بڑا جشن منائیں گے کیونکہ میر شکیل الرحمٰن کی یہ عید ریاستی تحویل میں گزرے گی لیکن یہ حاسدین یاد رکھیں کہ سازش اور نا انصافی سے میر شکیل الرحمٰن کو قیدی نمبر ون بنانے کے باوجود یہ حاسدین کبھی نمبر ون نہیں بن سکیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں