• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہر بارہ ہزار عربوں کے لیے صرف ایک کتاب۔۔سبحان اللہ/اسد مفتی

ہر بارہ ہزار عربوں کے لیے صرف ایک کتاب۔۔سبحان اللہ/اسد مفتی

القائدہ کے سعودی رکن ابراہیم الربائش نے انٹر نیٹ پر پیش ایک آڈیو پیغام میں سعودی حکمران شاہ سلمان پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب میں مخلوط تعلیم کی پہلی یونیورسٹی قائم کرکے اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ نئی کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ،قانون شریعت کے مغائر ہے۔الربائش نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر کوئی خاتون (مسلم)عیسائی یا یہودی مرد کے ساتھ پڑھتی ہے تو دوسرے لوگ  کیا خیال کریں گے ؟اگر کوئی “کافر” اس تعلیمی کورس کی نگرانی کرتا ہے تو لوگ کیا سمجھیں گے؟

الربائش ماضی میں گوانتا ناموبے میں قید رہا ہے۔ سعودی عرب واپس بھیجے جانے کے بعد وہ یمن فرار ہوگیا وہاں سے سعودی عرب کے شاہی خاندان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الربائش کا کہنا ہے کہ شاہ عبداللہ ملک کو سیکولر ازم کی طرف لے جا رہے ہیں۔

سعودی عرب نے جدہ کے شمال میں بحیرہ احمر کے ساحل پر شاہ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی قائم کی ہے۔یہ یونیورسٹی ملک کی پہلی درس گاہ ہوگی جس میں منفرد نوعیت کے تعلیمی نصاب کے ساتھ ساتھ مخلوط نظام ِ تعلیم کی نہ صرف اجازت ہوگی بلکہ اس کے نتیجے میں خواتین کو بھی ڈرائیونگ کی اجازت ہوگی ۔ا س یونیورسٹی کی تعمیر پر دس ارب ریال لاگت آئی ہے۔ اور تین کروڑ ساٹھ لاکھ میٹر کے رقبے پر محیط ہے۔

حال ہی میں ثقافتی ترقی سے متعلق عرب دنیا کی پہلی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عرب دنیا میں 12 ہزار شہریوں کے لیے صرف ایک کتاب ہے۔مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے جاری ہونے والی اس رپورٹ کی تیاری میں 40 سے زائد محققین نے حصہ لیا ،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جہا  ں عرب دنیا میں فی باشندہ کتاب کا تناسب 12 ہزار افراد کے لیے ایک کتاب ہے وہاں سعودی شہری ہر سال پانچ ارب کا 40 ہزار ٹن تمباکو پی جاتے ہیں جبکہ یہ رقم سعودی عرب کی طرف سے چاول درآمد کرنے کی رقم کے برابر ہے۔

دوسری طرف عرب ممالک میں اعلی تعلیم یافتہ افراد میں کمی واقع ہورہی ہے۔ عرب یونیورسٹی کے لگ بھگ 70 ہزار گریجویٹ سالانہ روزگار کے لیے بیرون  ممالک منتقل ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے 45 فیصد طلبا تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بھی وطن واپس نہیں آتے۔ جس سے عرب ممالک کو بھاری نقصان ہوتا ہے۔ عرب ممالک تعلیم و تربیت کے لیے بھاری سرمایہ کاری کرتے ہیں۔انہیں بیرون ملک چلے جانے والے گریجویٹس سے 2 ملین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی بیرونی ممالک کو چلے جانے کے نتیجے میں عرب ممالک تعلیم یافتہ افراد سے محروم ہوجاتے ہیں  اور  یہ تعلیم یافتہ گریجویٹس میزبان ممالک کے کام آتے ہیں ۔میزبان ممالک تعلیم پر کوئی رقم خرچ کیے بغیر ہی ان تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد سے فیض یاب ہوتے ہیں ۔

22 رکنی عرب لیگ نے اس سلسلہ میں ایک سروے کرایا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ شام ،عراق، اردن،مصر،تیونس،اور الجیریا کے دس لاکھ ڈاکٹر ،انجینئرزاور سائنسدان سالانہ دوسرے ممالک میں نقل مکانی کرجاتے ہیں ۔

سائنسی امور کی تعلیم حاصل کرنے والے 70 فیصد ماہرین واپس وطن نہیں  آتے ،اس طرح 50 فیصد ڈاکٹرز، 15 فیصد انجینئرز،اپنے اپنے گھروں کو نہیں  لوٹتے۔ ان میں سے زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک امریکہ ‘ کینیڈا اور یورپ میں رہائش اختیار کرتے ہیں ۔

سعودی عرب جہاں اب مخلوط تعلیم کا آغاز کردیا گیا ہے وہاں ایک خبر کے مطابق سعودی عرب میں واقع خواتین کے واحد  جم کو بھی بند کردیا ہے  گیا ہے۔سعودی حکومت نے صرف مردوں کو جم جانے کی اجازت دی تھی ،سعودی عرب میں مذہبی علما نے خواتین کے سپورٹس میں حصہ لینے کو “شرمناک” قرار دیا تھا۔سعودی عرب کے اخبار “ عرب نیوز” نے بتایا ہے کہ صرف مردوں کے لیے جم اور سپورٹس کلب قائم کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ جبکہ خواتین کو کہا گیا ہے کہ انہیں اپنے گھروں سے باہر جاکر جم کی  ضرورت نہیں۔جدہ اور دمام میں خواتین کے دو جم تھے جو خواتین میں کافی مقبول تھے ۔تنقید و تبصرہ اور قانون سے بچنے کے لیے ان کا نام “بیوٹی سیلون” رکھا گیا۔جس پر مفتی اعظم عبدالعزیز شیخ نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں کہا تھا کہ خواتین کو صرف گھریلو کام کاج میں مصروف رہنا چاہیے ۔انہیں کھیل کود میں حصہ لینے کی ضررت نہیں ۔انہوں نے کہا کہ سپورٹس  میں حصہ لینے سے خواتین سماج میں کوئی خدمات انجام نہیں دے سکتیں ۔

مخلوط یونیورسٹی کے قیام سے سعودی حکومت کو مخالفت اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔چند روز قبل سعودی عالم دین شیخ سعد بن ناصر بن عبدالعزیز الشتری جو کونسل آف سینٹر  اسلامک اسکالرز اور مستقل کمیٹی برائے اسلامی ریسرچ کے رکن بھی ہیں کو ا ن کے فرائض منصبی سے سبکدوش کرایا گیا ہے۔ وجہ یہ بتائی جاتی  ہے کہ شیخ سعد نے کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی  میں مخلوط تعلیم پر اعتراض کرتے ہوئے ایک متنازعہ بیان دیا تھا ۔گزشتہ دنوں اسلامی ٹی وی چینل پر ایک مذاکرے کے  دوران شیخ سعد الشتری نے کہا تھا کہ حرمین شریفین کی اس سرزین پر جنسی اختلاط (مردو زن کی مخلوط تعلیم) ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے سعودیہ عرب کی شرعی کمیٹی سے خواہش کی تھی کہ وہ بین الاقوامی یونیورسٹی میں دی جانے والی تعلیم کا جائزہ لے اور یہ دیکھے کہ یہ تعلیمات قانونی شرعی سے ہم آہنگ ہیں ؟شیخ سعد کے اس تبصرہ پر مختلف گوشوں سے تنقید کی گئی۔

سعودی عرب کے کئی صاحبان قلم،دانشوروں اور علمانے شیخ سعد کے نقطہ نظر کو غلطی سے تعبیر کیا ہے اور ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مخلوط تعلیم کو غیر اخلاقی نہیں سمجھا جانا چاہیے ۔ایک کالم نگار نے کہا ہے کہ اگر شیخ سعد کا یہ خیال ہے کہ مخلوط تعلیم غیر اخلاقی ہے تو ہمیں تمام ہسپتالوں ،شاپنگ پلازوں اور حتی کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کو بھی تالے لگانے پڑیں گے۔

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ بجائے مذہب کو عالمگیر بنانے کے عقل و خرد اور تعلیم کو عالم گیر بنانا چاہیے۔

در کا رخ بدلہ گیا دیوار سرکائی گئی

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ضرورت تھی کہ تبدیلی کسی ڈر سے ہوئی!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply