kamrantufail کی تحاریر

جذباتی ذہانت ۔۔۔ کامران طفیل

جذباتی ذہانت سے متعلق مضمون کی اشاعت پر جو ردعمل آیا وہ دلچسپ تھا،ایک دوست نے لکھا کہ وہ جذباتی ذہانت کی تعریف سے اپنے آپ کو متفق نہیں کر پاتیں، انہوں نے لکھا کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ ثروت حسین، مصطفیٰ زیدی، سارہ شگفتہ، شکیب جلالی سب کند ذہن تھے ۔←  مزید پڑھیے

کامیابی ایک سراب؟ ۔۔۔ کامران طفیل

بھارتی اداکار سشانت کی موت پر کئی طرح کے ردعمل سامنے آئے،کسی نے اسے بزدل قرار دیا،کسی نے زیادہ حساس،اور کسی نےنفسیاتی مریض۔ کسی نے اس کی ذمہ داری فلم انڈسٹری کے بڑے بینرز پر ڈالی تو کسی نے اس←  مزید پڑھیے

امیر العساکر، ناہنجار تاجر اور مجبور عوام ۔۔۔ کامران طفیل

ہر آنے والے دن کے ساتھ متوسط طبقے کی قوت خرید اور کم ہونے والی ہے۔ ابھی کل ہی سرکار نے اسی ارب روپے بجلی کے بلوں کی مد میں عوام کی جیبوں سے نکلوانے کا فیصلہ صادر کیا ہے۔ یقینی طور پر اپنے اہداف سے کوسوں دور ہونے والی ٹیکس وصولی کا غصہ بھی کسی پر تو نکلے گا۔ آئی ایم ایف یہ تو پوچھے گی کہ یہ کمی کہاں سے پوری کرنی ہے؟←  مزید پڑھیے

ریاستی درآمدات اور حکومتی دعوے ۔۔۔ کامران طفیل

آج کل یہ دعویٰ گردش کررہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے امپورٹ کم کرلی،ایکسپورٹ بڑھا لی اور بیرون ملک سے رقم کہ ترسیل بڑھ گئی ہے۔معیشت ایک گنجلک موضوع ہے،لیکن اگر کسی←  مزید پڑھیے

ڈئیر مایا ۔۔۔ کامران طفیل

ڈئیر مایا! تمہارا خط ملا،جواب دینے میں تاخیر ہوئی۔ دراصل خط کو ایک نشست میں پڑھنا دشوار لگ رہا تھا،پڑھائی والی عینک بھیگ جاتی تھی،لرزتے ہاتھوں سے شیشہ ٹوٹنے کے ڈر سے عینک سوکھنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ سامان←  مزید پڑھیے

وزیراعظم کا دورۂ امریکہ، ایک اور زاویہ ۔۔۔ کامران طفیل

لوگ ہر زاوئیے سے پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سیاست کو دیکھتے ہیں،اسی طرح عمران خان کے دورہ امریکا کو بھی دیکھا گیا۔ محبوب کی کجی بھی حسن نظر آتی ہے لہذا کچھ عاشق جہاں موسیقی نہ بھی ہو ٹھمکا←  مزید پڑھیے

متوسط طبقے کی قیادت، ایک خواب؟ ۔۔۔ کامران طفیل

ان لوگوں کی نمائندگی کہاں ہے؟ دس لاکھ روپے ماہوار لینے والے اینکر، بُلیٹ پروف گاڑیوں میں پھرنے والے سیاستدان، ایکڑوں میں پھیلے ہوئے فارم ہاوُسز کے مالکان جن کے ڈاگ فوڈ کا ماہانہ خرچ ایک متوسط طبقے کے فرد کی ایک سال کی آمدنی سے زیادہ ہے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اس کی قسمت بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ←  مزید پڑھیے

کیا تاجر ٹیکس چور ہیں؟ (حصہ دوم) ۔۔۔ کامران طفیل

اسی طرح معیشت کو حسابی کتابی کرنے کی کوشش کرنا بھی دنیا کی تاریخ میں کوئی نئی یا نرالی بات نہیں ہے۔ ہم سے پہلے بہت سی ریاستیں اسی مشکل سے گزر چُکی ہیں لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے ترغیب و تشویق کا راستہ اختیار کیا۔ لوگوں کو راغب کرنے کے لئے اس میں کچھ معاشی مفادات بھی رکھے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ لوگ حساب کتاب لے عادی ہوتے گئے۔←  مزید پڑھیے

کیا تاجر ٹیکس چور ہیں؟ ۔۔۔ کامران طفیل

جب تک ریاست کوئی پوچھ گچھ نہیں کرتی تاجر کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ وہ اتنا منافع تو ضرور لے جس میں سے ٹیکس بھی ادا کیا جاسکے۔ ریاست اگر اسے مجبور کرے گی کہ وہ پورا ٹیکس ادا کرے تو وہ اپنے اس ٹیکس کو صارف کی طرف منتقل کردے گا حتیٰ کہ وہ براہ راست ٹیکس جو کہ اس کی ذاتی آمدنی پر ہونا تھا وہ بھی صارف کی طرف منتقل کرنے سے باز نہیں آئے گا، اور ہر ٹیکس کو اپنی لاگت میں شامل کر کے صارف سے وصول کرلے گا۔←  مزید پڑھیے

سیاسی استحکام: ماضی، حال اور مستقبل کا خواب ۔۔۔ کامران طفیل

اسی دوران پاکستان کے طاقتور ریاستی اداروں کو یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ پہلے سے موجود عوامی حمایت کی حامل تمام سیاسی جماعتیں اپنی عوامی حمایت کی وجہ سے ایک خاص ڈومین میں رہنے کی بجائے ان کی بنائی ہوئی خارجی پالیسی کو چیلنج کرنا شروع ہوگئی ہیں۔ چونکہ یہ ایک ناقابل برداشت عمل تھا، لہذا انہوں نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ اس چنگاری کو آگ بنا ڈالیں تاکہ عوامی حمایت تقسیم ہوجائے اور طاقت کا ارتکاز کہیں پر بھی نہ ہونے پائے۔←  مزید پڑھیے

عمران خان اور میدان عمل۔۔۔کامران طفیل

تیسری دنیا کا ایک سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں افراد کے افکار پر تنقید کرنے کو ان کی ذات پر  تنقید سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی سیاستدان پر تنقید کی جائے تو تنقید کو اس←  مزید پڑھیے