کامیابی ایک سراب؟ ۔۔۔ کامران طفیل

بھارتی اداکار سشانت کی موت پر کئی طرح کے ردعمل سامنے آئے،کسی نے اسے بزدل قرار دیا،کسی نے زیادہ حساس،اور کسی نےنفسیاتی مریض۔

کسی نے اس کی ذمہ داری فلم انڈسٹری کے بڑے بینرز پر ڈالی تو کسی نے اس کی گرل فرینڈ کو مورد الزام ٹھہرایا چونکہ اس نےسشانت کی نفسیاتی بیماری کو طشت از بام نہیں کیا اور نہ ہی اسے مجبور کیا کہ وہ ڈاکٹر کی مدد حاصل کرے۔

کسی نے اس کی موت کو حرام موت کہا اور اس کے مذہب کو بنیاد بنا کر مرنے کے بعد دعا دینے کو بھی برا سمجھا۔

سشانت کے زندگی ختم کرلینے کے عمل کو ایک معاشرتی المیہ بھی کہا گیا اور یہ رائے دی گئی کہ پرائیویسی کا سکہ رائج الوقت انسانکو تنہا کرتا جارہا ہے۔

ایک بات تو بہرحال طے ہے کہ ہماری زندگی بے شمار کمپلیکیشنز کا شکار ہے اور اس کی کوئی خاص افادیت بھی ثابت شدہ نہیںہے،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ لوگوں کی زندگی انسانیت کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی لیکن اگر ہم جیسے اٹھانوے فیصدلوگوں کی زندگی پر ایک بھرپور نظر ڈالی جائے تو اس کی کوئی افادیت سامنے نہیں آتی،یعنی پینسلین ایجاد کرنے والے کی زندگی توبامقصد رہی لیکن جن کو اس پینسلین کی ضرورت پڑی ان میں سے اکثر بس حیوانی سطح پر ہی زندہ رہے۔

ایک اور حقیقت جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ سشانت زندگی کی پیچیدگی کو حل کرنے میں ناکام رہا اور اس نے زندگی کےسب سے بڑے اصول یعنی زندہ رہنا ہے اور اس کے لئے تگ و دو کرنی ہے (سروائیول) کو بھی توڑ دیا۔

ایک بات جس پر سب کا اتفاق رہا وہ یہ تھی کہ  سشانت بہت ذہین تھا،لیکن یہ کیسی ذہانت تھی جو اسے زندگی کے عین وسط میںاس صورتحال سے نہیں نکال سکی جس سے بے شمار لوگ جو نسبتاً کم ذہین ہوتے ہیں نکل جاتے ہیں؟

جی ہاں ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ سشانت جس کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کی خواہش بھی آسان نہیں ضرور ذہین انسان ہوگا لیکن وہجذباتی طور پر ذہین انسان نہیں تھا۔

انیس سو پچانوے میں دو ماہرین نفسیات جوئیل رابرٹ اور مائیکل بیلڈاک نے امریکا میں اپنے ایک پیپر میں سب سے پہلے جذباتیذہانت یعنی ای کیو کا تذکرہ کیا جس پر ماہرین نے شدید تنقید کی لیکن بعد ازاں تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دوران تعلیم زیادہنمبر لے کر پاس ہونے والوں کی نسبت عملی زندگی میں کامیابی ان لوگوں کو نصیب ہوئی جنہیں دوران تعلیم بہت زیادہ ذہین نہیںسمجھا گیا تھا اور کامیابی کی سب سے بڑی وجہ جذباتی ذہانت کو قرار دیا گیا۔

سشانت ایک اچھا اداکار تھا اور اس کا کیرئیر دو ہزار آٹھ میں شروع ہوا لیکن ویسا ہی ایک اچھا اداکار رنویر سنگھ جس کا کیرئیر دوہزار دس میں شروع ہوا آج سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا اداکار بن گیا اور بھارتی فلم انڈسٹری کی سب سے خوبصورت اور سبسے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ کو بھی لے اُڑا۔

آپ رنویر سنگھ کا رویہ اپنے سینئیر اداکاروں اور بڑے بینرز کے ڈانز کے ساتھ دیکھیں گے تو جذباتی ذہانت کا تصور نکھر کر آپ کےسامنے آ سکے گا۔

ہوسکتا ہے کہ آپ اسے ایک چاپلوس انسان کے طور پر دیکھتے ہوں لیکن کامیابی فقط محنت یا صلاحیت کے مرہون منٹ نہیں ہوتیبلکہ اس میں بہت سے دیگر عوامل بھی شامل ہوتے ہیں۔

رہا سوال بھارتی فلم انڈسٹری میں اقربا پروری اور مختلف بینرز کا اپنی سیاسی برتری منوانے کے الزام کو تو شاید دنیا کی ایک بھیصنعت ایسی نہ ہوگی جس میں یہ سب کچھ نہ ہوتا ہو،اصل کھیل ہی تمام ناموافق عوامل کو موافق بنانے کا ہے۔

آخر میں اصغر ندیم سید کی ایک نظم ہے جو شاید مدعا مزید واضح کر سکتی ہے۔

جیسی زندگی ہم گزارتے ہیں ویسی موت ہمیں ملتی ہے

ہم بزدل آدمی کی زندگی گزارتے ہیں

تو ہمیں موت بھی ویسی ہی بزدل نصیب ہوتی ہے

ہم خوب صورت زندگی جیتے ہیں

تو موت بھی خوب صورت ملتی ہے

ہم محبت کی زندگی گزارتے ہیں

تو موت بھی محبوبہ کی طرح ہمیں ملتی ہے

انسان نے ہر شے کو گدلا کیا ہے

ہر قیمتی آدرش کو میلا کیا ہے

ہر لفظ کو بے معنی کیا ہے

اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے
لیکن انسان موت کو گدلا نہیں کر سکا

میلا نہیں کر سکا

بے معنی نہیں کر سکا

مسخ نہیں کر سکا

موت سے زیادہ خالص شے دنیا میں نہیں ہے

اس سے زیادہ با معنی شے موجود نہیں ہے

مگر میں کیوں ایسا کہہ رہا ہوں

مجھے تو ایک بہت ہی خوب صورت زندگی بسر کرنی ہے

محبت سے لبریز

رقص کرتی ہوئی زندگی

جس میں رقاص غائب ہو جاتا ہے

اور صرف رقص باقی رہتا ہے

مجھے ایک بے حد لذت بھری

رسیلی زندگی سے گلے ملنا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

تاکہ میری موت بھی خوب صورت ہو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply