کیا تاجر ٹیکس چور ہیں؟ ۔۔۔ کامران طفیل

فدوی جب پہلی بار دورہ چین پر گیا تو گوانگزو ائیرپورٹ اترا۔ وہاں ایک چینی نے مجھے بتایا کہ تمہارے پاکستان میں بہت حُسن ہے۔ اس کا اشارہ نسوانی حسن کی طرف تھا۔ میں نے پوچھا چین میں حسن کہاں ہے تو بولا شنگھائی۔ اتفاق سے شنگھائی پہنچا تو چنداں فرق نہ پایا۔ شنگھائی کے باسی سے پوچھا کہ زیادہ حسن کہاں ہے تو بولا بیجنگ۔ بیجنگ والوں نے مجھے آگاہ کیا کہ زیادہ حسن گوانگزو میں پایا جاتا ہے۔ گویا انسانی نفسیات یہ ہے کہ ہم کچھ نظریات گھڑ لیا کرتے ہیں اور پھر انہیں بیان کرتے رہتے پیں۔

تاجر ٹیکس چور ہیں، ڈاکٹرز دوائی کی کمپنیوں سے رشوت لیتے ہیں، ریسٹورینٹس میں گدھے کا گوشت کھلایا جاتا ہے، وکیل اپنے موکل کو گمراہ کرتے ہیں اور جج پیسے لے کر فیصلے دیتے ہیں۔ یہ سب باتیں سچ تو ہوسکتی ہیں لیکن جزوی سچ۔ یہ تمام باتیں دراصل معاشرے کا رواج (نارم) ہیں۔ ریاست جب تک چاہتی ہے یہ رواج پنپتا رہے گا اور جب وہ اسے روکنا چاہے گی تو اسے آگاہی کی ایک مہم چلا کر روک لے گی لیکن کیا ریاست کسی بھی رواج پر گزشتہ تاریخ سے مواخذہ کرسکتی ہے؟ میری رائے میں ریاست ایسا نہیں کرسکتی۔ اگر ریاست اپنے باسیوں کو ان کے گذشتہ اعمال پر جو کہ رواج کے عین مطابق تھے، پر پکڑنے کی کوشش کرے گی تو وہ ایسا کر ہی نہیں پائے گی کیونکہ اس کے پاس اتنی مشینری ہی نہیں ہوگی جس سے وہ معاشرے کی کثیر تعداد کا مواخذہ کرسکے۔

اب تاجرانہ ذہنیت اور کاروباری رواج پر بات کچھ کرلیتے ہیں۔ ایک تاجر کا ذہن اس طرح سے سوچتا ہے کہ اگر اس نے دو روپے کی چیز خریدی ہے تو وہ اسے دس روپے کی بیچنے کی کوشش کرے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ تاجر اپنی اشیاء کو مارکیٹ کی قیمت سے موازنہ کرکے بیچتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اگر وہ زیادہ دام وصول کرنے کی کوشش کرے گا تو لوگ شاید ایک آدھ بار اس سے خرید لیں مگر آہستہ آہستہ وہ بدنام ہوجائے گا۔

ایک سمجھدار تاجر وہ ہوتا ہے جو ہر اس شے کی قیمت کم رکھتا ہے جو بازار میں سب کے پاس موجود ہو اور زائد منافع فقط اسی چیز میں لیتا ہے جو بازار میں آسانی سے دستیاب نہ ہو۔ زیادہ سمجھدار تاجر وہ ہوتا ہے جو قلیل اشیاء میں بھی ایک مخصوص حد سے زیادہ منافع نہیں لیتا بلکہ اسے مقابلے کی فضا میں اپنے تعلق کو بہتر بنانے کے ایک اوزار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

جب تک ریاست کوئی پوچھ گچھ نہیں کرتی تاجر کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ وہ اتنا منافع تو ضرور لے جس میں سے ٹیکس بھی ادا کیا جاسکے۔ ریاست اگر اسے مجبور کرے گی کہ وہ پورا ٹیکس ادا کرے تو وہ اپنے اس ٹیکس کو صارف کی طرف منتقل کردے گا حتیٰ کہ وہ براہ راست ٹیکس جو کہ اس کی ذاتی آمدنی پر ہونا تھا وہ بھی صارف کی طرف منتقل کرنے سے باز نہیں آئے گا، اور ہر ٹیکس کو اپنی لاگت میں شامل کر کے صارف سے وصول کرلے گا۔

تو کیا واقعی تاجر ٹیکس نہیں دینا چاہتا؟ یعنی وہ ٹیکس بھی جو اس نے اپنے پاس سے دینا ہی نہیں ہے؟

اس بات کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا ضروری ہوگا کہ حکومت کا تاجروں سے مطالبہ ہے کیا اور اس پر تاجروں موقف کیا ہے۔ کسی سیانے نے خوب کہا ہے کہ قطعی اور مکمل سچ کوئی چیز نہیں ہوتا بلکہ ہر سچ جزوی اور ادھورا ہوتا ہے۔

حکومت کے تاجروں سے مطالبات درجِ ذیل ہیں۔

۱۔ سیلز ٹیکس میں رجسٹر ہوں۔ اس میں تین معیار بنائے گئے ہیں۔ اڑھائی سو مربع فٹ کی دکان کے حامل افراد، ایک ہزار مربع فٹ سے کم اور اڑھائی سو فٹ سے زیادہ دکان کے حامل افراد اور ایک ہزار مربع فٹ سے زائد کی دکان کے حامل افراد۔ ہر تین معیارات کو تین مختلف طرح سے رجسٹر ہونا ہے اور تینوں کا ٹیکس ریٹ علیحدہ علیحدہ ہے۔

۲۔ تاجر براہ راست ٹیکس یعنی انکم ٹیکس دیں۔

۳۔ تاجر کاروبار کا پورا حساب کتاب رکھیں اور بوقت ضرورت ایف بی آر کو مہیا کریں۔

بظاہر یہ مطالبات قانونی اور اخلاقی اعتبار سے درست اور دنیا بھر کا چلن ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ حساب کتاب نہ رکھنے کا چلن بھی ہماری حکومتوں نے ہی رائج کیا تھا اور ایسا مسلسل بیس سال کیا گیا کہ دس، پندرہ اور بیس فیصد اضافی انکم ٹیکس دے کر آپ حساب کتاب دینے کی پابندی سے ماورا ہوجائیں۔

تاجروں کا نقطہ نظر ہر تین مطالبات پر کیا ہے۔

۱۔ سیلز ٹیکس کی بجائے فکس ٹیکس لیں کیونکہ حساب کتاب رکھنا مہنگا اور دقیق کام ہے۔ اگر ایف بی آر ان کا آڈٹ کرے گی تو ایف بی آر کے افسران ان کے ساتھ وہی کریں گے جو فریقین نے جج ارشد ملک کے ساتھ کیا ہے۔

۲۔ حساب کتاب کچھ بھی دیں ایف بی آر کی روایت ہے کہ وہ کسی صورت بھی ٹیکس گذار کے موقف کو درست قرار نہیں دیتا اور ٹیکس گزار کے رکھے ہوئے ہر حساب کو خود ساختہ سمجھتے ہوئے پانامہ سے کوئی نہ کوئی اقامہ ضرور نکال لیتا ہے۔

۳۔ ڈائریکٹ ٹیکس کو بھی فکسڈ رکھیں اور اس میں بھلا جتنا چاہیں اضافہ کرلیں لیکن ہم سے حساب نہ لیں۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹیکس گزار اور ٹیکس اکٹھا کرنے والوں کے درمیان اعتماد کا اتنا ہی فقدان ہے جتنا پاکستان کے چاروں صوبوں میں ہے۔

ایک چیپ بورڈ بیچنے والے تاجر سے جب میں نے یہ سوال کیا کہ آپ اگر حساب کتاب دیں تو کیا ہوگا؟ اس نے جواب دیا کیا حکومت مانے گی کہ میں سولہ سو کی شیٹ خرید کر سولہ سو پچاس کی فروخت کرتا ہوں؟ ایف بی آر ہم سے کم از کم پچیس فیصد منافع لینے کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر ہم پچیس فیصد منافع لیں گے تو کھپت کم ہوجائے گی اور ہمارے کاروباری اخراجات پورے نہیں ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply