سیاسی استحکام: ماضی، حال اور مستقبل کا خواب ۔۔۔ کامران طفیل

ایک ہوتا ہے ہدف اور ایک اس کو حاصل کرنے کا طریقہ۔ ہدف تو پچھلی تمام حکومتوں کا بھی یہی رہا ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس کی بنیاد وسیع ہوجائے۔ اس کے لئے ایک لمبا اور تھکا دینے والا عمل شروع کردیا گیا یعنی نادرا، آن لائین بینکنگ، ڈیٹا کلیکشن، دوسرے ملکوں سے معاہدے جس سے وہاں موجود پاکستانیوں کے اثاثہ جات کا ریکارڈ وغیرہ، تمام بڑے سکولوں کالجوں کی فیس پر ایڈوانس انکم ٹیکس کا اطلاق اور اس ٹیکس کو شناختی کارڈ نمبر پر جمع کروانا، موبائل فون پر بائیو میٹرک کا اطلاق وغیرہ۔ دراصل یہ سب چیزیں تدریج کے عمل پر چل رہی تھیں اور توقع کی جارہی تھی کہ عنقریب ڈیٹا کی بنیاد پر بڑی مچھلیاں آہستہ آہستہ شکنجے میں آجائیں گی، ٹیکس کی آمدنی میں ڈائریکٹ ٹیکس بڑھتا رہے گا اور ان ڈائریکٹ تدریجاً کم ہوگا۔

عمران خان نے اس سارے عمل کو وقت کا ضیاع قرار دیا اور کھلم کھلا چیلینج کیا کہ یہ عمل جان بوجھ کر آہستہ رکھا گیا ہے اور یہ کہ یہ معاملات چند دن میں حل ہوسکتے پیں۔ عملی زندگی کا تجربہ رکھنے والے اکثر لوگ ان سے اختلاف کرتے رہے جس پر انہیں پٹواری اور بریانی پر ووٹ دینے والے قرار دیا جاتا رہا لیکن اس عمل میں ایک ایسی نسل جس نے عملی زندگی شروع ہی نہ کی تھی یا جن کا عملی زندگی کا تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا ذہنی طور پر ان سے متاثر ہونا شروع ہوگئی۔

اسی دوران پاکستان کے طاقتور ریاستی اداروں کو یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ پہلے سے موجود عوامی حمایت کی حامل تمام سیاسی جماعتیں اپنی عوامی حمایت کی وجہ سے ایک خاص ڈومین میں رہنے کی بجائے ان کی بنائی ہوئی خارجی پالیسی کو چیلنج کرنا شروع ہوگئی ہیں۔ چونکہ یہ ایک ناقابل برداشت عمل تھا، لہذا انہوں نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ اس چنگاری کو آگ بنا ڈالیں تاکہ عوامی حمایت تقسیم ہوجائے اور طاقت کا ارتکاز کہیں پر بھی نہ ہونے پائے۔

نتیجتاً ایک عدم استحکام وجود میں آیا۔ یہ عدم استحکام آپ مشرف کے آخری دور سے شروع ہوتا دیکھ سکتے ہیں، زرداری دور میں بھی ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ وزرائے اعظم عدالت کی گھاٹ اترتے گئے۔ اس عدم استحکام کو جاری رکھنے میں اداروں کو سیاسی فائدہ تو ہوتا رہا لیکن معیشت ڈانواں ڈول رہی۔

اسی دوران میڈیا ایک سیلاب کی طرح اُمڈ کر سامنے آیا اور اداروں نے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ جان بوجھ کر نفرت ابھاری گئی اور میڈیا پر جھوٹی کہانیاں بیچی گئیں۔ یہ دور کسی نہ کسی طور پر گزر گیا لیکن معشت لڑکھڑاتی رہی۔ اگلے الیکشن میں نواز شریف کچھ ووٹوں اور کچھ اداروں کی حمایت سے اقتدار میں آگئے لیکن ہنی مون پیریڈ میں ہی وہ احسان مندی کا بدلہ دینے کی بجائے اس کھیت میں گھسنے لگے جہاں گھسنے کی ممانعت تھی۔ فیصلہ کرلیا گیا کہ اس حکومت کو بھی سیاسی طور پر کمزور کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ معاشی عدم استحکام میں ہی نکلنا تھا کیونکہ معاشی استحکام کے لئے سب سے ضروری امر سیاسی استحکام ہوا کرتا ہے۔ متواتر پانچ سال ایک عجیب طرح کے عدم استحکام کو فروغ دیا گیا اور بالاخر ایک اور وزیراعظم عدالت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

تمام تر کوششوں کے بعد بھی یہ بات اداروں کے علم میں تھی کہ ان کا گھوڑا بہت کمزور ہے اور شاخ نازک پر بننے والا ہر آشیانہ ناپائیدار ہوگا لیکن اسے ریس جتوانے کے لئے ہر ممکن انتظام کیا گیا۔ اس سب کا لازمی نتیجہ وہی نکلنا تھا جو پہلے نکلتا رہا۔ حکومت اب گری کہ تب گری والی کیفیت آج بھی موجود ہے۔ اس دوران کسی قسم کے سیاسی استحکام کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آگے کیا ہوگا اس کے لئے آپ خود ہی اپنے ذہن پر کچھ زور دیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply