متوسط طبقے کی قیادت، ایک خواب؟ ۔۔۔ کامران طفیل

پاکستان کی سیاسی صورتحال آج کل بالکل جاپان جیسی ہے یعنی ہر وقت چھوٹے موٹے زلزلے آتے رہتے ہیں۔ معدودی چند باتیں ہی ہیں جن پر اتفاق ہو جن میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال نہایت ابتر ہے۔ نوری، ناری اور خاکی سب اس معاملے میں ایک ہی راگ الاپتے نظر آتے ہیں۔

معاشی صورتحال کا ابتر ہونا دراصل سب سے زیادہ متوسط طبقے کو متاثر کرتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ متوسط طبقے کی کہیں پر بھی کوئی نمائندگی موجود نہیں ہے۔ نچلے طبقے کو اس صورتحال سے کوئی خاص فرق اس لئے نہیں پڑتا کہ اس بیچارے کو لذات دنیا سے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا۔ وہ پہلے بھی چٹنی، پیاز اور مرچ سے روٹی کھا لیتا تھا اور اسے یہ سب کچھ شاید اب بھی نصیب ہوتا رہے گا۔ بجلی چلی جائے تو وہ چھت پر چارپائی بچھا لے گا اور اپنے تہبند سے ہمہ قسم کے کام لیتا رہے گا لیکن کیا کیجئیے ان لوگوں کا جو ایک کمرے کا اے سی چلا کر گیارہ زمینی بستروں پر رات گذارا کرتے تھے، جو اپنے بچوں کو ہفتے میں ایک بار تفریح پر لے جایا کرتے تھے اور ان کی عیاشی دہی بڑے کی پلیٹوں اور گول گپوں کی پلیٹ پر گپیں لگانے تک کی عیاشی کی عادی ہوچُکی تھی۔ جنہوں نے اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں سے نکال کر پانچ ہزار روپے ماہوار والے سکولوں میں داخل کروا دیا تھا اور گاہے بگاہے ان کو اپنے گھر آنے والے مہمانوں کو ٹوئینکل ٹوئینکل لٹل سٹار سنوا کر فخر کیا کرتے ہیں۔ اپنے موٹر سائیکل کی ٹینکی پر کپڑا باندھ کر رکھتے ہیں کہ کہیں اُڑنے سے پہلے ہی رنگ زرد نہ ہوجائے۔ اس ٹینکی پر لگنے والی خراش ان کو اپنے چہرے پر لگی ہوئی لگتی ہے۔
کتنا مشکل ہے اس طبقے کے دُکھ کو سمجھنا جو اپنے ٹفن میں روٹی ڈال کر ساتھ لاتا ہے اور اس تُڑی مُڑی روٹی کو سیدھا کرنے میں پانچ منٹ صرف کرتا ہے۔ جو گھر جاتے ہی پتلون اس لئے تبدیل کرلیتا ہے کہ دو دن چل جائے۔ اس سوزوکی مہران کار والے کے دُکھ کو کون بیان کرے گا جس نے کار پر یہ سب میرے ماں باپ کی دعا ہے لکھوایا ہوا ہے اور احتیاطً ایک کالی ٹاکی بھی باندھی ہوئی ہے۔ بجلی کے بل، گیس کا بل، پیٹرول کی قیمت، آٹے دال کا بھاوُ سب گھاوُ بن گئے ہیں جن پر لمحہ لمحہ نمک چھڑکایا جاتا ہے۔

ان لوگوں کی نمائندگی کہاں ہے؟ دس لاکھ روپے ماہوار لینے والے اینکر، بُلیٹ پروف گاڑیوں میں پھرنے والے سیاستدان، ایکڑوں میں پھیلے ہوئے فارم ہاوُسز کے مالکان جن کے ڈاگ فوڈ کا ماہانہ خرچ ایک متوسط طبقے کے فرد کی ایک سال کی آمدنی سے زیادہ ہے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اس کی قسمت بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

عمران خان، زرداری اور نواز شریف کس طبقے کے لوگ ہیں؟ عوام کی قسمت کے فیصلے صادر کرنے والے تھری سٹار جرنیل کس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں؟ ان کی زندگیوں میں ایک بار بھی کسی چیز کو حسرت سے تکنے کا سانحہ گزرا ہوگا؟ کیا کبھی انہوں نے کسی بیکری میں مچلتی اور بلکتی ہوئی بچی کو دیکھا ہے جو ایک چاکلیٹ کا تقاضہ کررہی ہو اور اس کی ماں اسے یہ بتا رہی ہو کہ یہ دوائی ہے اور کڑوی ہوتی ہے؟

اپوزیشن ہو یا حکومتی ارکان یہ سب اس طبقے کی ایک فیصد مشکلات بھی محسوس نہیں کرسکتے۔ اس ملک میں ایک بہت بڑا سیاسی خلا ہے، اور اس خلا کو متوسط طبقے کی قیادت ہی پورا کرسکتی ہے۔

یہ وقت ہے کہ اس خلا کو پورا کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس ملک کو نئی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply