ریاستی درآمدات اور حکومتی دعوے ۔۔۔ کامران طفیل

آج کل یہ دعویٰ گردش کررہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے امپورٹ کم کرلی،ایکسپورٹ بڑھا لی اور بیرون ملک سے رقم کہ ترسیل بڑھ گئی ہے۔معیشت ایک گنجلک موضوع ہے،لیکن اگر کسی نے او لیول کی کتاب میں ہی اکنامکس پڑھی ہو تو اس کے کم از کم بنیادی تصورات درست ہوجاتے ہیں،مثلاً جو معیشتیں خود کچھ پیداوار نہ کررہی ہوں اور ان کا انحصار بیرونی ممالک سے آنے والی اشیاء پر ہی ہوتا ہے،جن حالات میں پی ٹی آئی نے اقتدار سنبھالا اگر ان حالات میں اسحاق ڈار معیشت چلا رہا ہوتا تو اسے بھی امپورٹ کم اور ایکسپورٹ کو بڑھانے کی تگ و دو کرنی پڑتی جیسا کہ آخری سال میں ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کی بھی،کرنسی کی قدر کو بھی گھٹانا پڑتا لیکن کتنا اور کس طریقے سے یہ بہرحال ایک مختلف بات ہے۔
تو کیا واقعی امپورٹ کم ہونے کا مطلب کُلی بہتری کی نشانی ہے؟جی نہیں کیونکہ کچھ امپورٹس لازمی ہیں جنہیں روکا نہیں جاسکتا جیسے تیل،پام آئل،چائے،صنعتی خام مال یا اسلحہ۔
اسی طرح کچھ امپورٹس ایسی ہیں جن کو روکنا خطرناک ہوتا ہے جیسے مشینری وغیرہ۔ کچھ امپورٹس کو روکنا حکومتی ذمہ داری ہوتی ہے جیسے سامان تعیش،مثال کے طور پر ہم ہالینڈ سے آلو کے چپس اور نیوزی لینڈ سے سیب منگوا رہے ہوں۔
موجودہ دور میں امپورٹ کم ہوئی ہے یہ سچ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ملکی انڈسٹری معیشت سکڑاوُ اور صارفیت کم ہونے کی وجہ شدید دباوُ کا شکار ہے اور نہ صرف اس وجہ سے خام مال کی طلب کم ہوئی ہے بلکہ چھوٹی صنعت جو کہ اپنا خام مال خود نہیں منگوا سکتی بھی بند ہورہی ہے کیونکہ انہیں یہ خام مال کمرشل امپورٹر فراہم کرتا تھا جو کرنسی اتار چڑھاوُ،پورٹس پر رشوت کے ریٹ بڑھنے،بے جا سختی اور ایف بی آر کی مستقبل میں سختی کے امکانات کی وجہ سے مال نہیں منگوا رہا،موجودہ حکومت سے پہلے یہ کمرشل امپورٹر ایف ٹی آر یعنی فائنل ٹیکس ریجیم میں تھا جو کہ اب ایم ٹی آر یعنی منی مم ٹیکس ریجیم میں ڈال دیا گیا ہے،اور اس امپورٹ کا کم ہونا کوئی صحت مند علامت نہیں ہوتی۔
اب اگر ہم ایکسپورٹس کے اعداد و شمار دیکھیں تو یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے کہ جب کسی ملک کی کرنسی کم وقعت کی حامل ہو تو اس کی اشیاء دوسرے ممالک کو سستی پڑتی ہیں مثال کے طور پر ایک پولو شرٹ جو تقریباً ایک سو پچھتر پاکستانی روپے کی ایکسپورٹ ہوتی تھی وہ پہلے ایک اعشاریہ پینتالیس ڈالر کی پڑتی تھی لیکن اب ایک اعشاریہ صفر نو ڈالر کی پڑ رہی ہے۔لہذا اس کا لازمی اثر ایکسپورٹس پر پڑتا ہے۔
تو کیا یہ حقیقت ہوسکتی ہے کہ مشرف اور عمران تو ایکسپورٹس بڑھانا چاہتے تھے جبکہ نواز اور زرداری کم کرنا چاہتے تھے؟یا ایسی کوئی حکومت ہو بھی سکتی ہے جو ایکسپورٹس بڑھانے میں دلچسپی نہ رکھتی ہو؟اور اگر یہ مفروضہ درست نظر نہ آتا ہو تو ان عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہوگا کہ وہ ناکام کیوں ہوئے؟
ایکسپورٹ بڑھانے میں کسی بھی ملک کی کرنسی کا کم وقعت کا حامل ہونا ایک اہم عامل ہے لیکن کیا یہ واحد عامل ہے؟جی نہیں کیونکہ ایکسپورٹ میں لیبر کا سستا ہونا،خام مال کا اس ملک میں موجود اور سستا ہونا،اچھی مشینری،اچھا کوالٹی کنٹرول،مزدور کی زیادہ پیداواری صلاحیت کا ہونا،گیس بجلی کی بلاتعطل اور متوازن نرخوں پر فراہمی، انفراسٹرکچر کا اچھا ہونا اور سیاسی طور پر مستحکم حکومتوں کا ہونا کے عوامل بھی شامل ہیں،تو کیا زرداری اور نواز دور میں گیس اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی اور مستحکم سیاسی حالات موجود تھے؟کیا زرداری دور میں عدلیہ اور مقتدر ادارے حکومت کی مدد کررہے تھے یا ان کے ہر فیصلے کو ناکام بنانی کی کوشش؟کیا نواز دور میں بجلی گیس موجود تھی؟ادارے اپنی پراکسیوں کے ذریعے انہیں سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنے میں مشغول تھے یا ان کے پیچھے کھڑے رہ کر سیاسی استحکام کا تاثر پھیلا رہے تھے؟کیا یہ بات عدل کے تقاضوں پر پوری اترتی ہے کہ ان کا موازنہ پی ٹی آئی کے ساتھ کیا جائے جہاں سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک میں چھتیس لوگ چونسٹھ لوگوں پر حاوی ہوگئے؟
اگر ہم سادہ سے الفاظ میں آنے والے وقت کا تجزیہ کرنا چاہیں تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایکسپورٹس تو بڑھ جائیں گی اور امپورٹس بھی کم ہوجائیں گی یعنی تجارتی خسارہ کم ہوجائے گا لیکن جیسے کھیتوں میں اندھا دھند سپرے کرنے سے دشمن کیڑوں کے ساتھ ساتھ دوست کیڑے بھی مرجاتے ہیں ویسے ہی اس تجارت مار مہم میں بہت کچھ مارا جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply