وزیراعظم کا دورۂ امریکہ، ایک اور زاویہ ۔۔۔ کامران طفیل

لوگ ہر زاوئیے سے پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سیاست کو دیکھتے ہیں،اسی طرح عمران خان کے دورہ امریکا کو بھی دیکھا گیا۔ محبوب کی کجی بھی حسن نظر آتی ہے لہذا کچھ عاشق جہاں موسیقی نہ بھی ہو ٹھمکا لگا جاتے ہیں۔ کچھ لوگ سابقہ عاشق کی نفرت میں لت پت ہونے کی وجہ سے تقابل کر کر کے ہانپ رہے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنی سابقہ محبوبہ کو رقیب کی آنکھ سے کچرہ نکالتے ہوئے دیکھ کر بھی زور زور سے یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ استغفراللہ سرعام بوسے۔

ہماری روایت ہے کہ مظہر شاہ انتہائی ولن اور سلطان راہی انتہائی ہیرو جبکہ درمیان والا صرف رنگیلا یا منور ظریف ہوتا ہے جسے مسخرہ کہا جاتا ہے۔

اس سارے منظر نامے میں بہرحال ایک مثبت بات موجود ہے اور وہ ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو کچھ ادراک ہوا ہے (اگر یہ سموک سکرین نہیں ہے)۔۔

١۔ کہ بیرونی دنیا خصوصی طور پر ترقی یافتہ ممالک کو مزید بےوقوف بنانا ممکن نہیں۔

٢۔ چائنا ابھرتی ہوئی طاقت ضرور ہے لیکن ابھی اس کی تجارت اور معیشت کا دارومدار امریکا پر ہی ہے کیونکہ دنیا میں ابھی بھی سب سے زیادہ کنزمپشن امریکا ہی کرتا ہے۔

٣۔ہمارے جو جھوٹ دنیا پر کھل چکے ہیں انہیں کھل کر تسلیم کرلیا جائے تاکہ ایک مستقل سبکی کا عمل ختم ہو۔

۴۔ یہ تاثر ختم کیا جائے کہ ہمارے کچھ توسیع پسندانہ مقاصد ہیں اور یہ بات ثابت کی جائے کہ ایٹمی طاقت بننا یا رکھنا صرف اور صرف بھارتی جارحیت کو لگام دینا ہے۔

٦۔ دنیا ابھی بھی ایک یونی پولر ورلڈ ہے۔

چونکہ دھرنوں کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کلی طور پر سیاستدانوں کے لئے ایک ممنوعہ شجر ہے اس لئے اس کا سارا کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ کو ہی جاتا ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا ادراک کیا جانا ابھی بھی بہت ضروری ہے۔ جیسے۔۔

١۔ دنیا میں ہماری کریڈیبلیٹی کارگل،اسامہ کی میزبانی،کچھ اہم معاملات میں معلومات کا افشا، افغان جنگ میں اسلحے کی خردبرد، ڈاکٹر قدیر کے نام سے کی جانے والی ایٹمی بے احتیاطی کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہے اور اسے بحال کرنے کے لئے ہمیں کچھ زیادہ محنت کرنی ہوگی۔

٢۔پاکستان کی داخلی سیاست میں ان کا رول ضرورت سے بہت زیادہ ہے اور اسے بتدریج کم کیا جانا ہوگا ورنہ پاکستان کی سیاسی قوتیں انہیں بار بار متنازع حدود میں گھسیٹتی رہیں گے۔

٣۔ عمران خان صاحب کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات کو ایک نارمل کورس اور نارمل رفتار سے چلنے دیں اور اس میں میڈیا کو بہت زیادہ استعمال نہ کریں کیونکہ جواب در جواب کے اس سلسلے سے جان چھوٹنے اور تلخی کم ہونے سے استحکام کا تاثر ابھرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

۴۔صحافیوں کو اپنا کام کرنے دیں،اس سے لوگوں کا کتھارسس ہوتا رہے گا اور ان کا غصہ کہیں پر مجتمع نہ ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply