اوورسیز پاکستانیوں پر رحم کریں۔۔قیصر اقبال

ایک جمہوری لیڈر آیا اور تبدیلی کے نعرے کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترا، عوام کو بہت سارے سبز باغ دکھائے ،عوام بھی عشروں سے حکمرانوں کے ہاتھوں پس چکی تھی، لہذا سحر میں جکڑ ے گئے۔ الیکشن میں   ووٹوں سے کامیاب کروا کر وزیراعظم ہاؤس تک پہنچایا۔
صرف یہی نہیں بلکہ الیکشن کے بعد بھر بھر کر بیرون ملک سے پیسہ بھیجا کہ خزانہ خالی ہے لہذا وزیراعظم کی ہر ممکن مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ زیادہ جذباتی حب الوطن پروفیشنلز نے بیرون ملک ملازمتیں چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیا کہ یہی وقت ہے کہ اس سرزمین کو کچھ واپس دیکر اسکے حقوق و فرائض کا ازالہ کیا جا سکے۔(اکثریت، تبدیلی کا مزہ لیکر بیرون ممالک واپس جا چکی ہے)

یہاں بھی نہیں رُکے، پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے ڈیم بنوانے کے لیے بھی جمع پونجی پاکستان بھیجی، خود بھی بھیجی دوستوں اور رشتےداروں کو بھی راضی کرنے کی حتی الوسع کوشش کی۔

ابھی حکومت انتخابات میں کیے گئے وعدوں اور منصوبوں پر عمل درآمد کرنے والی تھی کہ کرونا وائرس پینڈیمک نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ،بیچارہ وزیراعظم کہاں جاتا ،بیرونی قرضوں کی معافی کے لیے پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس سے فارغ ہوتے ہی اپنے عظیم سرمائے اوورسیز پاکستانیوں سے دل کھول کر زیادہ سے زیادہ پیسہ فی  الفور بھیجنے کی پھر سے  اپیل کی۔

کرونا وائرس پینڈیمک کی وجہ سے لاکھوں اوورسیز پاکستانی بیروزگار ہوئے، کچھ فاقے کرنے پر مجبور ہیں، کسی کے پاس گھر کے کرایوں اور بجلی، گیس کے بل بھرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
حکومت نے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کے لیے کچھ فلائٹس کا بندوست کیا مگر مشرق وسطی میں پاکستانی قونصلیٹس میں بیٹھے عہدیداروں نے ان مجبور لوگوں کو رگڑا لگانے کا پلان بنایا۔ ٹکٹیں  دلوانے کے لیے فراڈ ڈیزائن کیا کہ پاکستان واپس جانے کے لیے پہلے قونصلیٹ میں رجسٹر ہونا ہے پھر قونصلیٹ کی طرف سے کال موصول ہونے پر ٹکٹوں کی تقسیم ہوگی۔ مشرق وسطی میں پھنسے ہوئے تمام پاکستانیوں نے وطن واپس لوٹنے کے لیے رجسٹریشن کروائی ہے مگر دو ماہ ہوئے کسی کو کال موصول نہیں ہوئی۔ ٹکٹیں بلیک میں فروخت کیے جا رہے ہیں ،ہزار درہم کی جگہ پچیس سو درہم چارج کیے جا رہے ہیں ،وہ بھی تگڑی سفارش سے، نہیں تو آپکی عید الاضحیٰ  تک ضرورت نہیں ہے کہہ کر کال ڈس کنیکٹ کر دیتے ہیں۔

صرف یہاں کہانی حتم نہیں ہو رہی۔ پاکستان میں لینڈ کرنے کے بعد ایک الگ مافیا ان بیروزگاروں کو لوٹنے کے لیے منہ کھولے رال ٹپکا رہا  ہے۔ قرنطینہ کے نام پر ان کو ایسے ہوٹلوں میں بھیجا جا رہا ہے جن کا عام حالات میں فی دن کرایہ ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتا اور اب فی دن پانچ ہزار روپے چارج کیا جا رہے ہیں۔ صرف روٹی، دال اور پانی کے الگ ہزاروں بل تھمائے جاتے ہیں۔ مسافروں کا قیام لمبا کرنے کے لیے دو، دو تین دن بعد کرونا وائرس ٹسٹ کیا جا رہا ہے کہ جتنا لمبا قیام اتنی زیادہ جیبیں گرم ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیبیں گرم کرتے رہیں اور اس جنونی و جذباتی ہجوم کو اچھے تجربات سے گزاریں شاید انہیں کچھ عقل آ جائے۔

Facebook Comments

قیصر اقبال
ضلع کرک، خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتے ہیں پیشے کے لحاظ سے مکینیکل انجینئر ہیں اور سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply