ارطغرل اور ہماری جمالیاتی و فکری پسماندگی۔۔گوتم حیات

عثمان اوّل کے والد ارطغرل کی زندگی پر بنایا گیا ڈرامہ “ارطغرل” دنیا بھر کے ساٹھ ممالک میں نشر ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کر چکا ہے۔
ان دنوں یہ پاکستان میں پی ٹی وی پر اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ سرکاری سطح پر کسی بیرونی ڈرامہ کو دکھایا جا رہا ہے۔
ارطغرل کو دیکھ کر مجھے وہ پرانے رسالے یاد آتے ہیں جن پر میں نے پڑھا تھا کہ 1980 اور نوّے کی دہائی کے پاکستانی سیریلز بھی بیرونِ ممالک میں ذوق و شوق سے دیکھے جاتے تھے، مگر پھر رفتہ رفتہ ڈرامہ انڈسٹری پر ایسا زوال آیا کہ فارمولہ سیریلز بننے لگے۔ اس وقت بھی کچھ پاکستانی ڈرامے اچھوتے موضوعات پر بن رہے ہیں جن کو شائقین کی طرف سے پذیرائی بھی مل رہی ہے۔

جانے کیوں یہ لوگ عثمانیہ خلافت پر بنائے گئے اس ڈرامے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ تاریخ کو تاریخ کے طور پر ہی لینا چاہیے۔۔۔ ایک اہم بات یہ کہ ترکی کے ڈراموں میں بہت اہم چیزوں کو عکس بند کیا گیا ہے۔
تاریخ، رومانس، سماجی و سیاسی مسائل بہت ہی اہم سیریز بنائی گئی ہیں۔
سب کی سب اتنی اعلیٰ پروڈکشنز ہیں۔۔۔۔ اس بات کی تحسین تو آرٹ کے قدردانوں کو کرنی چاہیے۔خوبصورتی میں تو ترکش فنکاروں نے ہالی ووڈ کے ستاروں کو بھی مات دے دی ہے۔۔۔ اور کمال کی ایکٹنگ  ہے۔۔

میرا مشورہ ہے کہ ہمارے لوگ اپنی جمالیاتی حسوں کو بیدار کریں۔ لگتا ہے نفرت و تعصب کی آگ میں ان لوگوں کی جمالیات بھی مردہ ہو چکی ہیں۔
کچھ سال پہلے جب ترکی کے رومانوی ڈرامے پاکستان کے نجی چینلز پر دکھانے کا آغاز ہوا تو یہاں مذہبی حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ان ڈراموں پر فوراً پابندی لگائی جائے، یہ کسی بھی طریقے سے پاکستانی سماج کی نمائندگی نہیں کرتے، ان سے ہمارے معاشرے میں بے راہ روی اور فحاشی پھیل رہی ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ہمارے کچھ فنکاروں نے بھی مذہبی حلقوں کی ہاں میں ہاں ملا کر اس کارِخیر میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ کیونکہ یہ سب لوگ ان ڈراموں میں دکھائے جانے والے منفرد موضوعات، اعلیٰ پروڈکشنز، فنکاروں کی حقیقت سے بھرپور اداکاری، نت نئی لوکیشن، میوزک اور خوبصورت چہروں سے خوفزدہ ہو گئے تھے۔ پاکستانی شائقین دیکھتے ہی دیکھتے ان ڈراموں کے دیوانے ہو گئے۔ اس دوران ترکی کے کچھ تاریخی ڈراموں کو نشر کرنے کی بھی ابتدا ہوئی۔
ترکی کی ڈرامہ انڈسٹری کا شاہکار سیریل “میرا سلطان” پاکستان کے نجی چینل سے نشر ہونے لگا۔ ہر لحاظ سے یہ ایک کامیاب سیریل تھا جس نے شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ یوں تو یہ بنیادی طور پر سلطنتِ عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی تھا لیکن اس سیریل میں ہم اپنے برصغیر کی مغلیہ شان و شوکت کے زوال کی جھلکیوں کو بھی باآسانی ملاحظہ کر سکتے تھے۔ پاکستان کے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے اس سیریل کو کافی پذیرائی ملی تھی۔

ان دنوں ترکی کا  ہی ایک اور تاریخی سیریل “ارطغرل” پاکستان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے ۔
“ارطغرل” کو کامیاب تو ہونا ہی تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ ترکی کی پروڈکشنز اعلیٰ پیمانے کی ہیں۔ کثیر سرمائے سے بنائی جانے والی ان سیریلیز میں حقیقت کا رنگ بھرنے  کے لیے ہر شعبے میں زور دیا جاتا ہے۔ سکرپٹ سے لے کر فنکاروں کے لباس، ان کی اداکاری، ڈائریکشن، لوکیشنز، کیمرہ ورک، میوزک، غرض کسی بھی چیز کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ اسی لیے دیکھنے والے بھی ذوق و شوق سے انہیں دیکھتے ہیں۔ لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے سماج کے ایک مخصوص طبقے کو یہ ڈرامہ بھی کھٹک رہا ہے۔ اس سے پہلے ان ڈراموں کی مخالفت کرنے والوں میں مذہبی حلقے اور رجعت پرست طبقہ پیش پیش تھا، لیکن اس بار روشن خیالی و ترقی پسندی کی مالا جپنے والوں کو اس ڈرامے پر اعتراضات ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ عوام کو جنگوں کا فلسفہ سمجھایا جا رہا ہے، کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ تو ہماری تہذیب اور تاریخ سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتا، کسی کا کہنا ہے کہ اس کا اسکرپٹ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، اور وہ شائقین جو پابندی سے یہ ڈرامہ دیکھ رہے ہیں وہ اس ڈرامے کے فنکاروں کی نجی زندگی کو ڈرامے سے ملانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ غرض کوئی بھی یہ بات سمجھنے کے لیے تیار  نہیں  کہ یہ ایک ڈرامہ ہے، اس میں تاریخ کو من و وعن طریقے سے نہیں دکھایا جائے گا، ڈرامے کے اپنے لوازمات ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے کی بھاری ذمہ داری ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور مصنف پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ہماری، آپ کی مرضی کے محتاج نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم اپنی مرضی ان تخلیق کاروں پر مسلط کر سکتے ہیں۔

ایک طرف یہ لوگ آزادی اظہارِ رائے کا تقاضا  کرتے ہیں اور پھر دوسری طرف جو چیز ان کی مرضی و منشا کے خلاف جائے تو اس پر فوراً پابندی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں اس طرح کے دوہرے معیارات کو خیرباد کہنا ہو گا، یہ رویے کسی بھی صورت ایک جمہوری معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے،ان ہی رویوں کی وجہ سے لوگ مختلف طبقوں میں بٹ کر ایک دوسرے کو اپنا مخالف بنا رہے ہیں۔
روشن خیال اور ترقی پسند حلقوں سے امید تو یہی کی جانی چاہیے کہ وہ کسی بھی ڈرامے کو دیکھے بغیر ریجیکٹ کر کے لعن طعن کرنے سے گریز کریں۔ ڈرامے کے لوازمات کو سمجھیں۔ اگر کوئی ڈرامہ تاریخ پر بنایا گیا ہے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمارے خیالات کی ترجمانی کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج انٹرنیٹ کا دور ہے، ہر چیز ہماری دسترس میں ہے، ہم مختلف ممالک کے فنکاروں کے کام سے مستفید ہو سکتے ہیں، ان کو دیکھ کر اپنے خیالات کو وسیع کر سکتے ہیں، اس دور میں تو پاکستان جیسے پس ماندہ ملک میں بھی ہم اپنی آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی بھی ملک کی فلم، ڈرامہ، میوزک سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، کسی بھی چیز کو رد کر سکتے ہیں، اگر کوئی ڈرامہ یا فلم آپ کو نہیں پسند تو  کوئی بھی زبردستی آپ کو وہ ڈرامہ یا فلم دیکھنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ لیکن کسی بھی ناپسندیدہ فلم یا ڈرامہ پر پابندی لگانے والے مطالبے سے آپ خود بھی گریز کریں اور دوسروں کو بھی یہ بات سمجھائیں کہ پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں ہے، تخلیق کا جواب تخلیق کر کے ہی دیجیے، مذاق اُڑا کر، تخریب کر کے یا پابندیوں کا مطالبہ کر کے کوئی بھی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply