حسیات کی واپسی(8)۔۔وہاراامباکر

دنیا کی پانچ فیصد آبادی سماعت کے مسائل کا شکار ہے۔ بدقسمتی سے 220 جین ایسے ہیں جن کا تعلق بہرے پن سے ہے۔ یہ اس مسئلے کے کسی آسان حل کے لئے اچھی خبر نہیں۔ سماعت کا نظام بہت ہی باریک اور نازک ٹکڑوں کے بہت ہی نفیس تال میل کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اور کسی بھی پیچیدہ سسٹم کی طرح سینکڑوں ایسی وجوہات ہیں جس کے باعث اس کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ اور اگر اس کا کوئی حصہ بھی خراب ہو جائے تو پورے سسٹم پر اثر پڑتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ سننے میں دشواری کے طور پر نکلتا ہے۔
اس پر بہت سا کام ہو رہا ہے کہ ان ٹکڑوں کو ٹھیک کیسے کیا جائے لیکن کیا اس کا ایک اور حل ہے؟ کیا سماعت کے پورے نظام کو بائی پاس کر کے سماعت واپس لائی جا سکتی ہے؟
سکاٹ نووچ اور ڈیوڈ ایگلمین نے بہرے پن کے لئے حسیاتی متبادل بنانے پر کام کیا۔ اور اس کے لئے نیوسینسری بنیان ایجاد کی۔ یہ آس پاس کی آواز کی لہروں کو حرکت کرنے والی موٹر میں تبدیل کرتی ہے جو جلد میں ارتعاش کی صورت میں محسوس ہوتا ہے۔ اس کو پہننے والے صوتی لہروں کو جلد پر محسوس کر سکتے ہیں۔
بھلا، یہ کیسے کام کر سکتا ہے؟ لیکن اگر اندرونی کان کو دیکھیں تو وہ کیا کرتا ہے؟ یہ آواز کو مختلف فریکونسی میں توڑتا ہے اور یہ ڈیٹا دماغ تک تعبیر کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ بنیان اسی اندرونی کان کو جلد کے ذریعے کرنے کا طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلد ذہن کو چکرا دینے کی حد تک زبردست کمپیوٹیشنل میٹیریل ہے۔ لیکن جدید دنیا میں بنیان کے نیچے جلد بڑی حد تک بے روزگار ہی رہتی ہے۔ اگلا سوال یہ کہ کیا جلد میں اتنی بینڈوتھ ہے کہ آواز کی تمام انفارمیشن منتقل کر سکے؟ کان کے اندر کوکلیا بہت ہی زیادہ سپیشلائزڈ سٹرکچر ہے جو آواز پکڑنے اور اس کو کوڈ کرنے کا ایک ماسٹرپیس ہے۔ جلد کی سپیشلائزیشن کچھ اور ہے۔ اندرونی کان جیسا کام کرنے کے لئے سینکڑوں موٹرز درکار ہوتیں۔ لیکن آواز کو کمپریس کر کے اسے تیس موٹرز تک لے آیا گیا۔ کیسے؟ کمپریشن میں اہم انفارمیشن کو چھوٹی ڈسکرپشن کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ موبائل فون میں کمپریشن والا یہ کام ہوتا ہے اور ہمیں اس آواز کو سننے میں مسئلہ نہیں۔ یہ بنیان بھی اسی طرز کی کمپریشن کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا سب سے پہلا تجربہ سینتیس سالہ جوناتھن پر کیا گیا جو پیدائشی طور پر سماعت کے مسائل کا شکار رہے تھے۔ چار روز کی تربیت ہوئی جس میں الفاظ ادا کر کے جوناتھن اور سکاٹ بورڈ پر لکھتے تھے۔ اس کے بعد جوناتھن اس بنیان کی مدد سے آواز پہچاننے لگے۔
اس بنیان کو بچوں کے لئے بنایا گیا اور پھر کلائی پر باندھنے والی گھڑی کے طور پر۔ اس شکل میں موٹریں کم ہیں لیکن یہ زیادہ عملی ہے۔ اس کو استعمال کرنے والے فلپ اپنا اندرونی تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ “جب سڑک پر سائرن بجاتی گاڑی گزر رہی ہوتی ہے تو ایسا نہیں کہ مجھے کلائی پر حرکت محسوس ہوتی ہے۔ یہ تجربہ وہی ہے جیسے سر میں آواز آ رہی ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ سماعت کیسے ہوا کرتی تھی۔ میں اب دنیا کو سن سکتا ہوں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ آلہ اپنی طرز کا واحد آلہ ہے؟ بالکل نہیں۔ زبان پر برقی سگنل دے کر بصارت، ماتھے پر یا کمر پر کیمرے سے سگنل کی مدد سے ٹچ کر کے بصارت کے آلات بنائے جا چکے ہیں۔ اور بنائے جا رہے ہیں۔
ایسا کیونکر ممکن ہے؟ آنکھ کے لئے فوٹون تو وہ ہیں جو اس سے ٹکراتے ہیں، ان سے پیچھے ترجمہ کر کے الیکٹروکیمیکل سگنل ہی جاتا ہے۔ اور یہ سگنل دماغ میں آنے والی حسیات کی مشترک کرنسی ہے۔ دماغ اس کی مدد سے تربیت حاصل کر لینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے نابینا شخص بریل پڑھ کر الفاظ اور پھر معنی اخذ کر سکتا ہے۔ غیرتربیت یافتہ کے لئے بریل صرف اتار چڑھاوٗ ہی ہے۔
زبان کا گرڈ، سونک ہیڈفون، یا کسی بھی اور آلے پر کی جانے والی پریکٹس کے بعد دماغ اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس سے اندرونی تجربہ تخلیق کر سکے۔ اس کو دیکھنے کے لئے آنکھ کی یا سننے کے لئے کان کی ضرورت نہیں رہتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا دماغ کی کمپیوٹیشنل لچک سے متبادل حسیات کی طاقت صرف یہاں تک محدود ہے؟ یعنی کسی خرابی کو دور کر لینے تک؟ کیا اس سے اگلا کام نہیں لیا جا سکتا جو حسیات کو بڑھانے کا ہو۔ موجودہ حسیات کو بہتر، تیز یا وسیع کرنے کا؟
جی ہاں، ایسا کام کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ صرف تھیورٹیکل نکتہ وری نہیں۔ ایسی سپرپاورز حاصل کرنے کی کئی مثالیں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply