اندھیرے میں عِلم کا دِیا جلانے والے حسن ایلیا/گوہر تاج

فیس بک ایپ آج جانے کتنے ہی لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑ چکی ہے۔ جہاں دوستوں کی لکھی پوسٹیں انسان کی سوچ کا عکس ہوتی ہیں۔ اگر نظریات مشترک ہوں تو دوستی کی سطح کچھ مختلف ہوتی ہے۔

حسن ایلیا کا تعلق پاکستان سے ہے جنہیں میں نے فیس بک کے توسط سے جانا۔وہ ایک روشن خیال محنتی اور درد مند انسان ہیں۔ جو اپنے محدود وسائل کے باوجود سماج کی بہتری کے لیے بہت سے اہم کام کر رہے ہیں۔ مثلاً ایک نرسری سے میڑک تک کا اسکول ، فیض احمد فیض محلہ لائبریری، ایک علمی ویب سائیڈ چلانے کے بعد بھی ان کی آنکھوں میں خواب سجے ہیں مثلاً بہت چھوٹے بچوں کے لیے کتابوں کے ساتھ کھلونے کی لائبریری کہ جو مغربی دنیا میں عام ہے۔

اس دفعہ جب پاکستان جانا ہوا تو ان سے باقاعدہ ملاقات ہوئی جو ایک انٹرویو کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
سوال ۱- آپکے اسکول کا کیا نام ہے۔اور یہ کہاں واقع ہے؟

جواب۔ اسکول کا نام میری ماں کے نام پہ نشاط کڈز اکیڈمی (نرسری تا میڑک) ہے۔ جو ولایت آباد پاک کالونی میں واقع ہے محنت کشوں کی اس آبادی کو مِنی پاکستان کہا جاسکتاہے کیونکہ یہاں اردو بولنے والوں کی ا کثریت کے ساتھ ساتھ دیگر قومیتوں کے افراد بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔

سوال ۲- اسکول بنانے کا  خیال  کیوں آیا؟
جواب: ایم۔اے (صحافت) کرنے کے بعد میں نے ریسرچ ورک اور ڈاکیومنٹری بنائیں -پھر او پی پی اور بعد ازاں URC جیسے اداروں  میں نوکریاں کیں۔ مگر میرا ہمیشہ سے شوق پڑھانا تھا ۔ والد صاحب سے اپنے شوق کا اظہار کیا تو انہوں نے اسکول کے لیے ایک جگہ دی اور کہا کہ کچھ فیس ضرور لینا ۔ اس طرح میں نے ۲۰۰۵ میں پچاس روپے فیس سے اسکول شروع کردیا۔ میرا بنیادی مقصد تعلیم کو ان لوگوں تک پہنچانا ہے، جو فیس نہ ہونے کے باعث زیورتعلیم سے محروم تھے ۔شروع میں ہم خود ہی پڑھاتے تھے صرف بجلی اور اسٹیشنری کے اخراجات تھے جیسے جیسے اسکول میں طلبا کی تعداد بڑھتی گئی گئ تو ٹیچرز بھی رکھ لیے اور بچت بھی ہونے لگی کیونکہ ہمیں بلڈنگ کا کرایہ نہیں دینا  پڑتا، اگر اس کو لگائیں تو آج بھی بچت نہیں ہوتی بس گزارا ہورہا ہے۔

سوال ۳۔ وہ اسکول جو ماہانہ ۲۵ ہزار فیس لیتے ہیں ان کے مقابلے میں اسکول کیسا ہے۔؟
جواب : وہ اسکول جو پچیس ہزار فیس لیتے ہیں وہ مراعات یافتہ طبقہ کے تعلیمی ادارے ہیں جوشوشا بہت کرتے ہیں جبکہ ہمارے پاس شوشا کرنے کے لیے پیسہ نہیں ہوتا وہ ایک ماہ کی فیس پچیس ہزار وصول کرتے ہیں جبکہ ہمارے بہت سے والدین 25ہزار میں پوری فیملی پالتے ہیں ۔ان کے ٹیچرز بھی تربیت یافتہ ہوتے ہیں ہمیں ٹیچر ز کو خود تربیت دینی ہوتی ہے ہمارے اسکول میں اکثریت ایسی ہے جو ٹیوشن فیس ادا نہیں کر سکتی اور والدین کم پڑھے لکھے ہونے کے باعث بچے کو گائیڈ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ہمیں اس طرح پڑھانا پڑتا ہے کہ بچے کو ٹیوشن کی بہت زیادہ ضرورت نہ ہو ۔حسن ایلیا

مہنگے تعلیمی اداروں کی انگلش بولنے پر زیادہ توجہ ہوتی ہے ۔ ہم سوالات اٹھانے ،ادب ،کتاب کلچر اور سائنس کے فروغ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود ہمارے طلبا آج ڈاؤ یونی ورسٹی ،داؤد کالج ،این ای ڈی اور کراچی یونی ورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ہم انتہائی کم وسائل کے باوجود طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف سرگرمیاں کرتے ہیں ۔

سوال ۴۔ کچھ تفصیلات بتائیں گے؟
جواب ۔ بالکل مثلاً اسپورٹس ۔
ہفتہ وار اسپورٹس کے علاوہ سالانہ اسپورٹس ٹورنامنٹ منعقد کیے جاتے ہیں۔
طلبا میں کتاب پڑھنے کے شوق کو بیدار کرنے لئے لائبریری چلاتے ہیں اور ہفتہ وار پریڈ ہوتا ہے ۔ پڑھو اور آگے بڑھو جیسے مہمات کے ذریعے کتاب کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اسکے علاوہ سالانہ اوپن ڈے بھی منعقد کیا جاتا ہے جس میں طلبا کلاس میں دیے گئے سائنسی پروجیکٹ  پیش کرتے ہیں۔ اس دن کے اختتام پر طلبا نظمیں ،ملی نغمے اور تھیڑ وغیرہ پیش کرتے ہیں اور طلبا میں سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کیے جاتے ہیں ۔اس کے تمام اخراجات طلبا اور انتظامیہ مل کر پورے کرتے ہیں۔
سالانہ رزلٹ کے موقع پر رنگا رنگ پروگرام منعقد کیا جاتا ہے ۔جس میں تقریب تقسیم انعامات ہوتی ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ طلبا کے ساتھ ساتھ والدین بھی مختلف  سرگرمیوں  میں حصّہ لیتے ہیں۔
پکنک بھی ہوتی ہے ہر سال پرائمری کے بچوں کو چڑیا گھر ،مزار قائد ،عجائب گھر کی سیر کروائی جاتی ہے۔جبکہ سیکنڈری کے طلبا عجائب گھر واٹر پارک یا سمندر پر پکنک مناتے ہیں اس کے اخراجات بھی طلبا اور انتظامیہ مل کر پورے کرتے ہیں طلبا اور اساتذہ کھانا گھر سے بناکے لاتے ہیں جبکہ کراۓ کے پیسے سب لوگ مل کر ادا کر دیتے ہیں کچھ طلبا یہ رقم بھی دینے سے قاصر ہوتے ہیں تو انتظامیہ ان کی مدد کرتی ہے ۔اس کے علاوہ ارتھ ڈے، ماؤں کا دن اور عید مِلن پارٹی وغیرہ بھی منعقد کرتے ہیں ۔

سوال۵۔درپیش  چیلنجز کیا ہیں؟

جواب۔ چیلنجز تو بہت ہیں لوگ ہماری فیس جو بارہ سو ہے جبکہ ایڈمیشن فیس تین ہزار ہے ادا کرنے سے بھی قاصر ہوتے ہیں ۔2017 میں ہم نے اس کا یہ حل نکالا کہ ہماری صبح کے اسکول کی آمدنی کا 25فیصد سے دوپہر کا اسکول شروع کیا اس میں کوئی بھی آتا اور جتنے پیسے دینا چاہتا ہم داخلہ دے دیتے ،مثلا ًہم انھیں 500فیس بتاتے مگر وہ 100روپے ماہانہ دیتے تو بھی ہم پڑھاتے، یونی فارم اور کورس بھی آدھی قیمت پر دیتے، بہت سے طلبا فری بھی پڑھتے خصوصاً لڑکیوں کو فری پڑھاتے ،میں اور میری شریک حیات (جہنوں نے شادی سے قبل دس سال اسکول میں تدریسی فرائض انجام دیے )مل کر پڑھاتے، بعدازاں ٹیچر بھی رکھ لیے تھے ۔ایسے بچے بھی تھے جو کام کرتے اور پڑھتے بھی تھے۔ اس اسکول میں ہم نے ایک کورس ڈیزائن کیا جس میں نرسری تا کے جی ٹو کو ملا کر کورس بنایا اور ایک سال میں ان کے تین سال بچا لیتے ، اس طرح یہ اسکول کلاس اوّل سے آٹھویں تک ہوگیا۔ جس میں اکثریت لڑکیوں کی پڑھتی ہے۔مگر کرونا میں جب اسکولوں کی بندش ہوئی تو وہ اسکول تین سال چلنے کے بعد ختم ہوگیا ۔صبح کے اسکول پر بھی اثر پڑا اور ہم اس کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے ۔ آج بھی لوگ اس دوپہر کے اسکول کو شروع کرنے کا کہتے ہیں کیونکہ سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا پست ہے کہ اکثریت اس میں جانا پسند نہیں کرتی۔

سوال۷۔ آپ کے نزدیک مسائل کا حل کیا ہے؟

جواب۔ہم نےدوسال سے یہ مہم شروع کی ہوئی ہے کہ تعلیم ہرشخص کا حق ہے اس میں ہم نےمخیر حضرات سے اپیل کی کہ وہ ایک بچے کے سالانہ پچاس فی صد اخراجات برداشت کر لیں اور پچاس فی صد اسکول دے ۔ اسی طرح کتابوں اور یونیفارم وغیرہ کا بھی پوری یا آدھی ہی سہی پر داشت کرلیں تو زیادہ بچوں کو تعلیم دی جا سکے گی۔اپنے بچوں کو ہم تعلیم سے بڑھ کر کیا تحفہ دے سکتے ہیں؟

سوال ۸۔آپکے مستقبل کے کیا گول ہیں ؟
ہمارا گول ہے کہ وہ بچے جو فیس ادا نہیں کر سکتے ان کے لیے وظیفہ دے سکیں۔
ٹیچر کو ٹرینگ دی جاۓ اور ساتھ میں ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کا قیام،
بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے مستقل سرگرمیاں، مثلاً  آرٹ ورک شاپ ،تھیٹر گروپ کا قیام ، جس کی تربیت میں نے ناپا کے خالد احمد سے حاصل کی ۔
کتاب کلچر کا فروغ،لائبریری میں مختلف سرگرمیوں کے ذریعے کتاب کلچر کو فروغ دینا، ڈیجیٹل لائبریری کا قیام،اسپورٹس ٹیچر کی مستقل آسامی،طلبا کو تعلیم دینے کے ساتھ ہنر مند بھی بنایا جاۓ،جو معاشی طور پہ معاونت کرسکیں۔

سوال ۹۔آپ نے کافی ناگفتہ بے حالات میں بھی فیض احمد فیض لائبریری محلہ کھول لی ہے۔ اسکا محرک کیا تھا؟
جواب ۔ یہ لائبریری ۲۰۰۳ء میں قائم کی گئی  تھی،اس کا مقصد اسکول کے طلبا کے ساتھ ساتھ علاقے کے نوجوانوں کو کتاب پڑھنے کی طرف راغب کرنا  تھا،شروع میں ہم نےاپنے گھر کی کتابیں لائبریری میں رکھ دیں بعد ازاں کچھ دوست بھی دقتاً فوقتاً کتابیں دیتے رہے ،اس طرح تقریباً 3سے4 ہزار کتب اس وقت ہیں ،نونہال اور جنگ اخبار مستقل آتا ہے ۔ یہاں کتاب کلچر کے فروغ کے لیے مختلف سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں مثلاً  اساتذہ اور طلبا پر مشتمل ایک گروپ علاقے کے اسکولوں اور کوچنگ سینٹر جا کے انھیں لائبریری میں( ٹی پارٹی) آنے کی دعوت دیتا ہے ہمارا ماننا ہے کہ دراصل کتاب پڑھنے کا رجحان اس لیے ختم ہوتا جارہا ہے کہ اسکولوں میں لائبریریاں نہیں ہیں اور بچوں کو کتاب سے روشناس نہیں کرایا جاتا ۔ فنڈ کی کمی کے باعث ہم بہت سارے کام کرنےسےقاصر ہیں،جیسے کہ  ڈیجیٹل لائبریری کا قیام وغیرہ۔

سوال ۱۰۔ کیا اپنے کام سے مطمئن ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

انسان اگر مطمئن ہو جاۓ تو سب کچھ ختم ہوجاتاہے۔لیکن پھر بھی آج میں خوش ہوں کہ اس اندھیر نگری میں اپنے حصّے کی شمع جلائی ہے۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے ہمارے کام میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply