مولوی،مولوی کا دشمن/رشید یوسفزئی

نماز فجر کے بعد گھر میں گڑ کی چائے اور گزشتہ رات سے باقی ماندہ تندور کی سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا کھانے کے بعد دو چار کتابیں بغل میں لے کر مسجد  چلاجاتا۔ بڑے برآمدے کے آخری ستون کیساتھ ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ جاتا اور پڑھنے  بلکہ رٹا لگانے  لگتا۔ اشراق سے ظہر تک مسجد میں ایک مکمل خاموشی رہتی۔ الا یہ کہ ساتھ والے بازار سے تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک دو انتہائی منافق دوکاندار رزق و کاروبار میں برکت کیلئے بزرگوں کے مجرب نسخے نماز چاشت کیلئے مسجد آتے۔ یہی ایک دو نمازی مسجد کی سبیل سے وضو کرتے ۔ ان کے  وضو سے اٹھنے والے  شور، اِن چھ سات گھنٹے کی مسحور کن خاموشی و تنہائی میں مخل واحد عمل ہوتی۔ ظہر کی  اذان کیلئے ایک بجے ظہر سے دس پندرہ منٹ قبل مسجد کے مؤذن شیر کریم تشریف لاتے تو میں کتابیں بند کرکے اٹھتا ۔ گھر جا کر کھانا کھاتا۔ نماز ظہر کیلئے واپس مسجد آتا،واپس گھر جاتا، اگر اژدہا صفت ماں سے ایک کپ چائے ملتی ، پی لیتا  تھا ورنہ بیس منٹ آدھ گھنٹے کیلئے چارپائی پر دراز ہوجاتا۔ یہ محض آنکھیں بند کرکے brown study کی کیفیت ہوتی ۔ پھر اُٹھ کر کتابیں لے کر واپس مسجد جاتا اور تا اذن عصر یہی پڑھنے رٹنے کا  دستور جاری رہتا ۔ ساری چھٹیوں میں یہی معمول رہتا۔

اس دن “کافیہ ابن حاجب “ کے ایک دو اقتباسات رٹنے کی ٹھان لی تھی۔ ساتھ کچھ رینڈم کتابیں ، ایک دوست سے مستعار لی گئی “ تائیہ ء ابن الفارض بمعہ تائیہ ء عبدالرحمان جامی”، “ مقالات شیخ الاسلام زاہد کوثری” ، تھرڈ ائیر انگلش لٹریچر کورس میں شامل ولیم گولڈنگ کی Lord of the Flies ناول گہرے مطالعے کیلئے لئے تھے۔ میری زندگی میں کوئی اور تفریح تھی ہی نہیں ، کوئی کھیل سمجھتا ہی نہیں، ڈرامہ و فلم کا تب ایک مفلس مُلازادہ تصور ہی نہیں کرسکتا تھا۔ سو ذہن و خیال چینج کرنے کیلئے ایک مشکل و مغلوق کتاب رکھ کر کوئی آسان فکاہیہ یا عام شعری کتاب اٹھا لیتے۔ آج کی تفریح دیوان سنگھ مفتون کی “ جذبات مشرق” تھی۔

تقریباً گیارہ بجے کے قریب میں “ مقالات زاہد کوثری” میں ایک جگہ ضمنا ً “کتاب الاغانی”  میں خالد ابن ولید رض بارے ابوالفرج الاصبھانی کے نقل کردہ رویات پر امام کوثری کی  تنقید والی  سطور پر تھا جہاں امام کوثری نے اصبھانی کو “وضاع” لکھا تھا کہ زور سے ا یک دوسرےکیساتھ گفتگو میں مشغول دو صاحبان ریش و دستار مسجد میں داخل ہوئے۔ دونوں والد کے دوست تھے ۔ ایک کوٹ منزرے بابا ملاکنڈ کے مضافاتی گاؤں “ مینہ” کی  بڑی  مسجد میں امام تھے ۔ امامت کے ساتھ درگئی میں ایک بریلوی دارالعلوم سبحانیہ رضویہ میں منطق کی  کتب پڑھاتے تھے۔ اصل میں اس وقت کی  باجوڑ ایجنسی سے تعلق تھا۔ دوم ایک نسبتا ًکم عمر   ،کم تجربہ کار مولوی اسی درگئی شہر سے ان کے دوست تھے۔ کبھی کسی اور جگہ دونوں نزدیکی جماعت میں امامت کرچکے تھے۔ آج دونوں والد سے ملنے آئے تھے۔

ان بزرگان دین اور عالمان شرع متین اور والد کے مہمانانِ  گرامی کو مسجد داخل ہوتے دیکھ کر احتراما ً کھڑا ہوا۔ انہوں  نے جوتے اُتارے۔ بزرگ مولوی ، مولانا عبد الطیف نے دور ہی سے آواز دی “ صاحب حق ، کیسے ہو؟” نزدیک آکر علیک سلیک کیساتھ میں نے ایک ہاتھ ملایا تو درس دینے لگے کہ بڑوں کیساتھ ہمیشہ دونوں ہاتھ ملایا کرو ۔ ۔۔یہ مولوی انتہائی متکبر و مکار شخص تھا۔ ملا زادوں  کے ساتھ اسکا انداز ہمیشہ حقارت آمیز ہوتا۔ مگر شب و روز ہماری تذلیل و تحقیر کی ڈوز میں اپنے والد کبھی کسر نہ چھوڑتے ۔ سو دیگر لوگوں کی تحقیر و تذلیل معمولی رسمی چیز ہوتی جس کا ہمیں بمشکل احساس تک ہوتا۔ اس مولوی کے حقارت آمیز tone and intonation خاطر میں لائے بغیر ان کی صحت و مزاج پرسی کی۔

دونوں ساتھ بیٹھ گئے۔ بڑھے مولوی نے کہا جا کر والد کو خبر کرو کہ ہم آئے ہیں۔ عرض کیا، جی آج صبح بتا رہے تھے کہ وہ سامنے پہاڑ “جئے” پر واقع ایک گھر میں ساڑھے گیارہ بجے ختم شریف ہے۔ ابھی وہاں ہوں گے۔ ظہر کے ساتھ واپس ہوں گے۔ اتنا وقت نہیں ۔ آپ کیلئے چائے لاتا ہوں، گھر جاکر چائے بنانے کا بولا  اور واپس آیا۔

مولانا عبدالطیف میرے چھوڑے ہوئے “ مقالات کوثری” کے اوراق الٹتے رہے اور اپنے ساتھی کے ساتھ علم الکلام کے کسی سطحی موضوع پر نیم ملتفت بولتے رہے۔
کچھ دیر سننے کے بعد جب ان کے سلسلہء گفتگو میں قدرے توقف آیا تو ہم نے بھی اپنی موجودگی کا  احساس دلانے کی خاطر دخل در معقولات کا سوچا۔

عرض کیا حضرت ، منطق و کلام میں آپ کی مہارت کی ایک دنیا معترف ہے۔ اس کے ساتھ آپ کی علمیت اور فقاہت بھی بڑے بڑے علماء بطور مثال بیان کرتے ہیں۔ ۔ تعریف ذہنی رشوت ہے۔ اس کے جاود سے کوئی انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بشرطیکہ وہ انسان ہو۔ مولوی صاحب نے اپنی تعریف سن کر بے ساختہ  ڈاڑھی  پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا۔ ۔ سو میں  سوال کرنے کے  درست موڑ  تک پہنچ گیا تھا۔ ۔ کہا میرے ذہن  میں کل سے ایک قرآنی آیت بارے کافی اشکال ہے۔
مولوی صاحب نے پوری  نخوت کیساتھ گلہ تازہ کرکے کہا: بولو صاحب حق۔ ہم فورا ًوہ اشکال رفع کریں گے۔

کہا حضرت، قرآنی آیت ہے “ الذین یحملون العرش” وہ فرشتے جنہوں نے عرش اٹھا  رکھا ہے۔ کتب حدیث میں ان فرشتوں کی تعداد انیس تک بتائی گئی ہے۔ جابجا ان کے عجیب و غریب عبرانی نام بھی منقول ہیں۔ کئی کتب میں ہر فرشتے کا ورد بھی آیا ہے کہ وہ ازل سے یہی ایک تسبیح پڑھتا  آ رہا  ہے۔ میرا اشکال یہ ہے کہ جب ان فرشتوں نے عرش اٹھایا ہے تو کیا وہ جو عرش کے اوپر بیٹھا ہے اسے بھی اٹھایا ہے؟ جیسے لوگ بیمار و ضعیف کو چارپائی پر لے جاتے ہیں۔ یا جس طرح بارات میں پشتون دلہے کو سسرال کے گھر پلنگ پر اٹھاتے ہیں؟ یا ان ملائک نے خالی عرش ہی اٹھا رکھا ہے؟
مولانا صاحب نے گلہ تازہ کیا۔ کہنے لگے صاحب حق یہ عام اور لغو سوال ہے۔ علمائے اسلام چودہ سو سال سے اسکے کافی و شافی جوابات دے چکے ہیں۔ فلاں کتاب میں بھی مدلل جواب ہے ، فلاں رسالے میں بھی معقول وضاحت ہے ۔  یہ تمام مذہبی لوگوں کی سٹنڈنگ رپلائی ہے کہ اسلام بارے سارے سوالات وہی ہیں جو چودہ سو سال قبل تھے اور علما ان کے جواب دے چکے ہیں ۔ درحالیکہ ، جیسا کہ “ المعتزلہ” کے مصنف دکتر زہدی حسن جار اللہ نے لکھا ہے سوال وہیں  کے وہیں  پڑے ہیں۔ روزانہ مزید نئے نئے سوال ابھرتے ہیں ۔ سب کے جواب ممکن ہی نہیں ۔ صرف علما  کا جواب وہی ہے کہ “علما ان کا جواب دے چکے ہیں” ۔

مولوی صاحب نے ازبر کتابوں کے ناموں سے مرعوب کرنے کی کوشش کی اور بات اس پر ختم کی کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے ، بات ختم۔

کتابوں کے ناموں کی دھاک بٹھاتے ہوئے مولوی صاحب خود سے کافی متاثر نظر آئے۔ ان کو ذہنی نشے کے عروج پر پاکر چائے لانا بھول گیا اور پھر عرض کیا۔ حضرت ذات باری تعالی بارے ایک اور سوال ہے۔
کہنے لگے جی صاحب حق بولو بولو۔
عرض کیا :” حضرت خداوند تعالیٰ  کا علم محدود ہے کہ لا محدود؟” جواب ملا : “ صاحب حق ، اس میں بھی کوئی شک ہوسکتا  ہے۔ اللہ جل شانہ کا  علم تو لا محدود ہے۔ رب العزت کی علم کی کوئی انتہا نہیں۔”
یہاں میں نے سوال کا دوسرا نکتہ داغا۔ حضرت ، کیا اللہ جل شانہ کو اپنے علم  کی  حد معلوم ہے یا نہیں ؟
فرمانے لگے” کیوں نہیں، کیا اللہ سبحانہ و تعالی کو بھی اپنے علم کی  حدود کا پتہ نہیں ہوگا ”؟

یہ ایک دوہری مشکل dilemma یا رسل پیراڈوکس Russell Paradox کی ایک شکل تھی۔ ایک جواب سے مولوی دوسری مشکل میں پھنس جاتا۔ ایک Catch 22. اگر خدا کو اپنے علم کی  حدود کا پتہ نہیں تو وہ خدا کیسے ہوا۔ اگر خدا کو اپنے علم کی  حدود کا پتہ ہے تو اسکا علم محدو د ہے وہ پھر خدا کیسے ہوا۔؟

عرض کیا حضرت پھر تو خدا کا علم محدود ہوا کیونکہ وہ اس کی  حدود جانتا ہے۔ جس چیز کی حد معلوم ہو وہ محدود ہے۔
بے ساختہ ان کے منہ سے نکل گیا” ہاں پھر محدود ہی ہوگا”!

اتنے میں دوسرے جونیئر مولوی نے کہا “ مولوی صاحب یہ تم کیا کفر بکنے لگے۔ اللہ رب العزت کے علم کو تم نے محدود کرکے نعوذ باللہ اللہ کو جاہل کہا! یہ کیا بکواس کی!”

بڑے مولوی کا  خون فوراً نکتہ کھولاؤ کراس کر گیا۔ منطق ، علم الکلام و علم اسلام سب وڑ  گئے۔ میری اور اپنی بات چھوڑ کر جونئیر مولوی سے مخاطب ہوئے: “ ارے حرامی ، خبیث، جاہل مطلق، لوطی ۔ یہ تم نے کس کو بکواسی کہنے کی جرات کی؟”

جونیئر مولوی in the same coin جواب دینے لگا: “خبیث لوطی تم یا میں ؟ فلاں حاجی صاحب کے بارہ سالہ بیٹے کیساتھ پرسوں رات تم نے کیا کیا؟ فلاں جگہ سکول ماسٹر کی منجھلی بیٹی رات کو مسجد کے چھوٹے کمرے میں  کس کے پاس آتی تھی ؟ نجس ، لوطی، مرتد۔ “

اس کے سنتے ہی بزرگ مولوی اٹھے اور جونیئر مولوی پر لاتوں گھونسوں کی بارش شروع کی ۔ جونیئر مولوی سنبھل گیا تو اُٹھ کے ویسے ہی  ہاتھوں لاتوں سے جواب دینے لگا۔ پگڑیاں گر گئیں ۔  دونوں ایک دوسری کی   داڑھیاں پکڑ کر کھینچنے لگے۔ ایک دوسرے کے سروں پر تڑاخ تڑاخ تھپڑ برسانے لگے۔۔۔۔۔ گلی میں جیسے دو مرغ لڑنے لگے ہو ں،اور بچ بچاؤ کا  کوئی طریقہ  نہ ہو۔ ریش و سر کے بال اس طرح ہوا میں اڑنے لگے جیسے The fur was flying محاورہ ان کے بارے میں ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

عادت ہے جب بھی دو مولوی، دو لبرل ، دو مارکسسٹ کبھی دیکھتا ہوں ان کو لڑانے کی رگ شرارت پھڑک اٹھتی ہے۔ یہ شاید میری تنہا عملی تفریح ہے۔ اور ایسا مزہ کسی دوسرے کھیل میں نہیں۔ آپ بھی آزما کر  دیکھ لیں۔
و باللہ التوفیق و علیہ التکلان۔

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply