موٹیویشنل اسپیکرز۔۔سعید چیمہ

ہمارا بھی عجب قصہ ہے،پیاس کے مارے ہلکان ہو رہے ہیں،ہونٹوں پہ پپڑیاں جم چکی ہیں،پانی کی طلب میں مگر ہم نے کنویں کو چھوڑ کر دشت کی طرف رختِ سفر باندھا ہوا ہے اور پھر دشت میں پانی کہاں ملتا ہے،دور سے نظر آنے والا پانی کا تالاب سراب ہوتا ہے،ہر گزرتے دن کیساتھ پیاس کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔رجوع کرنا ہو گا،ہمیں آخری کتاب کی طرف  رجوع کرنا ہو گا۔

سوال یہ ہے کہ ایک مومن مایوس کیسے ہو سکتا ہے؟چلیں مان لیتے ہیں کہ ہم ایمان کے اعلی مراتب پر ابھی فائز نہیں ہوئے لیکن پھر بھی کلمہ گو تو ہیں،مایوس تو پھر بھی نہیں ہونا چاہیے۔لیکن پھر بھی اگر کوئی مایوسی کی پیاس کی شدت میں مبتلا ہے تو اُسے اس پیاس کو ختم کرنے کے لیے آخری کتاب کی طر ف آنا ہو گا نہ کہ موٹیویشنل اسپیکرز کی طرف جن کی مثال دشت کی سی ہے جس میں دور سے نظر آنے والی ہر چیز دھوکہ ہوتی ہے۔ساون کے مہینے میں بارشیں ہونے کے بعد اتنے تو مینڈک نہیں ہوتے جتنے ہمارے ہاں موٹیویشنل اسپیکرز ہیں اور کمال بات یہ ہے کہ بھیڑ کی اون کی طرح ان خود ساختہ اسپیکرز کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔چند ایک معقول قسم کے موٹیویشنل اسپیکرز کو چھوڑ کر باقی سب کو سن لیجیے،سبھی ایک قسم کی رٹی رٹائی باتیں کرینگے کہ فلاں دمے کا مریض تھا لیکن پھر بھی اس نے باتھ روم کے ٹب میں سب سے لمبی ڈبکی لگائی اور فلاں کے بازو بھی نہیں تھے لیکن اپنی ہمت و حوصلے کی بدولت اس نے ایسی اڑان بھری کہ فلک کے پار چلا گیا۔

کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک خود ساختہ قسم کے اسپیکر کی ایک ویڈیو یوٹیوب پر نظروں سے گزری جس میں اپنی کُل عقل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسپیکر صاحب بتا رہے تھے کہ کامیابی کے لیے ٹائم مینجمنٹ بنیادی شرط ہے،بات سن کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا،فوراً خود کو کوسنا شروع کیا کہ ایسے اقوالِ زریں سے پہلے کیوں نہ روشناس ہوئے،کیا عجب کہ ہم بھی کامیاب ٹھہرتے،خیر ویڈیو آگے بڑھتی گئی،وہ صاحب بتاتے رہے کہ صبح اٹھ کے آپ نے یہ کرنا ہے،دوپہر کو وہ کرنا ہے،سہ پہر کو سر پکڑنا ہے ہے اور شام کو سوچ بچار کرنی ہے گویا کہ ایک مکمل پیکج تھا جو اِن صاحب نے بتایا کامیاب ہونے کے لیے،مکمل ویڈیو دیکھنے کے بعد منہ حیرت سے کھلا رہ گیا،رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہو گئے کہ خدایا یہ مخلوق کس سیارے سے آئی ہے۔اب اِن صاحب نے اپنی ویڈیو میں ہر چیز بیان کر دی مگر یہ بتانا بھول گئے کہ میاں آپ نے نماز کے لیے بھی وقت مختص کرنا ہے،آخری کتاب پر تدبروتفکر بھی کرنا ہے کیونکہ بحیثیت مسلمان آپ پر کچھ فرائض بھی لاگو ہیں جن سے چاہ کر بھی آپ منہ نہیں موڑ سکتے۔

انسان مایوس تبھی ہوتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ سبھی دروازے اس پر بند ہو رہے ہیں جن سے اس نے ذرا سی توقع بھی وابستہ کی ہوتی ہے،سب دروازے اگر بند بھی ہو جائیں تو پھر بھی ایک دروازہ کھلا رہے گا ،اس دروازے کے کھلا ہونے کے باوجود بھی انسان اگر مایوس ہو ،حیرت ہے۔”ہر انسان کے لیے وہی ہے جس کے لیے اس نے سعی کی” اگر اس ایک آیت پر بھی اگر کامل یقین ہو تو انسان کبھی بھی مایوسی کی دلدل میں نہیں پھنسے گا،ایک انسان جو محنت کرتا ہے وہ مایوس کیوں ہوگا،تجربہ کر لیجیے مایوس ہمیشہ نکھٹو قسم کے لوگ ہونگے جن کو محنت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہو گا۔زخم کی نوعیت ایسی ہے کہ آپریشن کرنا ہو گا مگر طبیب اس قدر عقل سے پیدل ہے کہ دیسی جڑی بوٹیوں سے علاج کیے جا رہا ہے،نتیجہ کیا نکلے گا آپ خود اندازہ کر لیجیے۔

یہ موٹیویشنل اسپیکرز بھی روایتی قسم کے دیسی حکیموں کی طرح ہیں جن کو مرض کی سمجھ تو آتی نہیں لیکن پھر بھی کمال مہارت سے مریض کا علاج کیے جاتے ہیں۔ابھی ابھی سوچوں کی پگڈندی پر چلتے ہوئے یہ خیال وارد ہوا ہے کہ اپنے وزیراعظم بھی تو موٹیویشنل اسپیکر ہیں جو کم و بیش ہر تقریر میں اپنی زندگی کے چھ سات واقعات دہراتے رہتے ہیں اور مایوس نہ ہونے کا درس دیتے ہیں مگر ان کم بختوں کو کون سمجھائے کہ تقریر سے کب دل بہلتے ہیں،اعمال کرنے پڑتے ہیں اس دنیا کے میدانِ کارزار میں اعمال کرنے پڑتے ہیں تب انسان کامیابی کے زینے پر چڑھنا شروع کرتا ہے،ویسے بھی کام کم اور باتیں زیادہ کرنا تو ہمارا محبوب مشغلہ ہے معلوم نہیں ہر زوال شدہ قوم کا یہی حال ہوتا ہے یا ہم پاکستانیوں کو اس میں مہارت ہے۔”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے” ۔آخری نبی کا ایک معجزہ جامع کلمات بھی تھے۔ایک بندہ جو اچھی نیت کیساتھ دینی و دنیاوی اعمال کیے جا رہا ہے،دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا وہ ناکام ٹھہر سکتا ہے،پھر کیوں ہم نے ایک دوسری ڈگر پر بگٹٹ دوڑنا شروع کر دیا ہے،منزل کے قریب جانے کی بجائے کوسوں دور جا رہے ہیں،اپنی قسمت پر گریہ زاری کو جی چاہتا ہے۔کون کم بخت ہو گا جو الرحیق المختوم کو چھوڑ کر گدلے پانیوں کا رخ کرے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یقین کریں کہ ہم ہی وہ بد بخت ہیں جو الرحیق المختوم کو چھوڑ کر گدلے پانیوں کی طرف رختِ سفر باندھ رہے ہیں۔جلد یا بدیر سبھی مانیں گے کہ یہ موٹیویشنل اسپیکرز الرحیق المختوم نہیں ہیں مگر قاسم علی شاہ ایسے چند لوگوں کو استثنا بھی ہے،شاہ صاحب ایک معقول قسم کے سلجھے ہوئے بندے ہیں جن کی باتوں میں واصف علی واصف اور اشفاق احمد کی تحریروں کا رنگ جھلکتا ہے،ایسے بندوں کو اگر سن لیا جائے تو وقت کا ضیا نہیں ہو گا۔”محنت شروع کیجیے موٹیویشن خود آ جائے گی”اِس اقوالِ زریں کے بعد ہمیں موٹیویشنل اسپیکر نہ سمجھ لیا جائے۔

Facebook Comments