کیا بِٹ کوائن حرام ہے؟۔۔محمد فاتح ملک

کیا ہر چیز کو حرام قرار دینا ہی اسلام ہے؟
اسلام ایک آسان مذہب ہے۔ اور یہ صرف مذہب ہی نہیں۔ بلکہ زندگی گزارنے کا لائحہ عمل بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلاَّ غَلَبَهُ ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا
دین تو آسان ہے اور جو کوئی بھی دین میں حدسے بڑھے گا تو دین اس کو مغلوب کردے گا۔ اس لئے ٹھیک راہ چلو اور حدود کے قریب قریب رہو اور خوش رہو ۔
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو آپس میں اچھی خبریں پھیلانے کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا
ایک دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرو اور تنگیاں پیدا نہ کرو۔ اور ایک دوسر ے کو خوشخبریاں دیا کرو اور نفرتیں نہ پھیلایاکرو۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کو مشکل سے مشکل کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ مذہب میں جب بگاڑ آنا شروع ہوتا ہے تو اس کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کو مشکل بنایا جانے لگتا ہے۔ مذہب کے ٹھیکے دار اس کو اپنی جاگیر سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ پھر ان پر منحصر ہے کہ وہ کس کو حلال قرار دیں اور کس کو حرام۔

کچھ دن پہلے ایک عرب مفتی کا فتویٰ نظروں سے گزرا کہ ’’بٹ کوئن‘‘ نامی کرنسی کا استعمال حرام ہے۔ اور اس کو حرام قرار دینے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ ڈیجیٹل کرنسی ہے۔ حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ اس وجہ سے اس کرنسی کا استعمال حرام ہے۔
بٹ کوئن کوئی پہلی کرنسی نہیں جس کو ’’عالم اسلام کے جید علماء‘‘ نے حرام قرار دیا ہو۔ اس سے پہلے سب لوگ جانتے ہیں کہ جب نوٹوں کا رواج شروع ہوا تو اس وجہ سے ان کے حرام ہونے پر بھی فتوے عائد کئے گئے کیونکہ ان پر کسی ملکہ یا بادشاہ یا انسان کی تصویر ہوتی تھی۔ لیکن آج جب ساری دنیا میں نوٹوں کا استعمال ہوتا ہے تو وہی علماء نہ صرف اس کا استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے مریدوں سے انہی  نوٹوں میں نذرانے بھی لیتے ہیں اور انہی  کے انبار اپنے بنکوں میں بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ کل کلاں جب بٹ کوائن  انٹرنیٹ پر کامیاب کرنسی کے طور پر ابھر آئی تو شاید اس کے حلال ہونے کا فتویٰ بھی سامنے آ جائے۔

اگر اسلام کی گزشتہ 1400  سالہ  تاریخ پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ایسے سینکڑوں نہیں ہزاروں فتاویٰ مل سکتے ہیں۔ کبھی پریس کو نا جائز قرار دیا جائے گا۔ کبھی ریل کو حرام گردانا جائے گا۔ کبھی انٹرنیٹ اور موبائل کو شیطانی آلہ گردانتے ہوئے حرام کا لیبل لگایا جائے گا۔کبھی آپریشن اور دوائیں ان فتووں کی  زد میں آجائیں گی تو کبھی علمی میدان اور خلائی سفر ’’اسلامی تعلیم کے منافی‘‘ قرار پائیں گے۔ لیکن جب یہی چیزیں وقت کی ضرورت اور جزو لا ینفک کی شکل اختیار کرلیں تو کوئی ان علماء سے نہیں پوچھے گا کہ مولانا صاحب آپ نے اور آپ کے ہم شرب علماء نے اس کے استعمال کو حرام قرار دیا تھا۔ بلکہ جا بجا ان کے فوائد بتائے جانے لگ جائیں گے۔ پرانے فتووں کے خلاف ’’حلال‘‘ کے فتوے سامنے آنے لگ جائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسے فتوے دے کر اسلام کو بدنام نہیں کر رہے؟ اسلام جو آسانی کی تعلیم دیتا ہے اس کو کیوں ہم ایسے فتووں سے مشتبہ بناتے ہیں؟ کون سا ایسا قاعدہ ہے جس کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دیا جائے؟ ظاہر ہے وہ قاعدہ قرآن و سنت ہی ہے۔ اسی تعلیم سے ہم یہ فتوی لگا سکتے ہیں کہ کونسی چیز حرام اور کس کا استعمال جائز ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اسلام کسی چیز کو حرام قرار دیتا ہے تو اس کے نقصانات بھی بتاتا ہے۔ مثلاً سود کو حرام قرار دیا تو اس کے نقصانات واضح بتائے۔ سود کے لین دین کا نقصان کسی ایک فرد کو نہیں ہوتا۔ بلکہ معاشرے پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ۔ اس لئے اس کا استعمال حرام قرار دیا۔ سور، خون اور مردہ کو حرام قرار دیا تو اس کی وجہ انسانی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات بتائے۔ جس کی قائل ساری میڈیکل سائنس ہے۔ قرآن کریم حلت و حرمت کے بارے میں ایک بنیادی اصول بیان کرتا ہے۔ فرماتا ہے:
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا} (البقرة 220)
وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہىں تُو کہہ دے کہ ان دونوں مىں بڑا گناہ (بھى) ہے اور لوگوں کے لئے فوائد بھى اور دونوں کا گناہ (کا پہلو) ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے ۔

اس قرآنی حکم میں بنیادی تعلیم موجود ہے کہ کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا پتہ لگانا ہو تو  یہ ہو گا کہ اس کے فوائد زیادہ ہیں یا نقصانات۔ اگر اس کے نقصانات زیادہ ہیں تو وہ حرام ہے۔ اگر اسی اصول کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ پریس، انٹرنیٹ، تعلیم وغیرہ جیسی جتنی بھی چیزیں ہیں جن کے حرام ہونے کا فتویٰ کسی زمانے میں دیا گیا وہ اس زمرے میں آتی ہی نہ تھیں۔ ان کے روز بروز بڑھتے ہوئے استعمال نے ثابت کر دیا کہ ان کا فائدہ تھا ہے اور رہے گا۔دراصل ایسی چیزیں اپنی ذا ت میں بری نہیں ہوتیں بلکہ ان کا استعمال ان کو اچھا یا برا بناتا ہے۔

قرآن دکھاوے کی نماز پڑھنے والوں پر بھی لعنت بھیجتا ہے۔ تو نعوذ باللہ یہ چیزیں بری ہیں؟ نہیں ہر گز نہیں۔ انسان کس طرح ان کو استعمال کر رہا ہے اس کا معاشرے پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کیا برا ہے کیا نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حرمت کے فتوے لگائے ہی کیوں جاتے ہیں؟ اس کا جواب میرے نزدیک درج ذیل وجوہات ہیں:
جس چیز کے بارے میں فتویٰ لگایا جاتا ہے اس کے بارے میں یا تو زیاوہ علم نہیں ہوتا۔ یا پھر اس کے سطحی علم کو دیکھ کر، عام لوگوں کے پیچھے لگ کر اس کا فتویٰ دیا جاتاہے۔

کچھ فتووں کا مقصد اپنی اجارہ داری قائم کرنا ہی ہوتا ہے۔

ایسے فتاویٰ عموماً اس وقت بھی سامنے آتے ہیں۔ جب علماء مذہب کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو ہی مذہب کا مختار کل سمجھنے لگتے ہیں۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے فتاویٰ اس وقت بھی سامنے آتے ہیں جب کسی کو نقصان یا فائدہ پہنچانا مقصد ہو۔ تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
آج ساری دنیا میں اسلام ہماری اپنے ہی کرتوتو ں کی وجہ سے بدنام ہے۔ پھر  میں ایسے فتاویٰ اسلام کو مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔ لوگ ایسے فتووں کو دیکھ کر اسلام پر ہنستے ہیں۔ بے شک ان چیزوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن پھر بھی اسلام کو بدنام کرنے میں یہ فتاویٰ جلتی پر تیل کا کام دیتے ہیں۔

ایک بات اور بھی سمجھنے والی ہے کہ ان دنیاوی چیزوں کا مذہب اسلام سے تعلق نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ دینی و روحانی زندگی میں کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ڈالتے۔ دوسرے ان چیزوں کا تعلق معاشرتی زندگی اور اخلاقیات سے مانا جائے تو بھی تب تک ایسی چیزیں حرام کے زمرے میں نہیں آتیں جب تک یہ معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرنا نہ شروع کر دیں۔ غیر ضروری فتوے دے دے کر ہم نے اسلام کو ہنسی کا نشانہ بنا دیا ہے۔ جب دنیا میں کوئی نئی ایجاد ہوتی ہے سب سے پہلی چیز جو سامنے آتی ہے وہ اس کے حرام ہونے کا فتویٰ ہے۔ گویا یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اسلام میں جدت پسندی ہے ہی نہیں۔ یہ سراسر ایک غلط تأثر ہےجو ساری دنیا میں قائم ہو چکا ہے۔ اسللامی شریعت کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ تا قیامت رہنے والی ہے۔ اور اس میں ایسی لچک موجود ہے کہ یہ ہر زمانے میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بنیادی اصول رکھتی ہے۔ جس پر ان کو پرکھا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسلام کی بنیاد در اصل حلت پر ہے نہ حرمت پر۔میری ساری امت مسلمہ اور عالمان دین سے درخواست ہے خدارا اسلام کو ایسے فتوے دے کر تمسخر کا نشانہ نہ بنائیں۔ ایسے خلاف عقل اور خلاف تعلیم اسلام فتووں سے ہم کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے۔ ہاں اسلام کا نام ضرور بدنام کرتے ہیں۔ کاش امت مسلمہ کو سمجھ آجائے اور وہ تھوڑی سی عقل کر لیں اور اسلام کو بدنام کرنے والے اس فعل کو بند کر دیں۔ کاش!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply