آپ کے اندر کا بچہ زندہ ہے؟-خطیب احمد

یہ چند سال پرانی بات ہے میں کسی وجہ سے شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا رمضان چل رہا تھا اور میں نوشہرہ ورکاں ہی اپنے فلیٹ پر مقیم تھا۔ میں نے اپنے اندر کے بچے سے کہا کہ میری مدد کرو ،اب میں بظاہر بڑا ہوگیا ہوں اپنے حالات کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے والی نفسیات میری بدل چکی ہے۔ کچھ کرو کہ سوچ بدلے۔ بچے نے جواب دیا اوکے باس ٹینشن نہ لو، کرتے ہیں کچھ۔

میں تراویح پڑھنے گیا تو دیکھا میرے سامنے والی صف میں کرسی پر بیٹھے بابا جی شربت کی ایک بوتل بنوا کر تراویح کے دوران پینے کے لیے لائے ہوئے ہیں۔ تب رمضان گرمی میں تھا۔ بچے نے مجھے کہا کہ اس میں سے شربت پی لو مگر پینا تب ہے جب بابا جی نماز میں ہوں۔ میں نے ایسے ہی کیا اور تین گلاس شربت پی گیا۔ بابا جی نے سلام پھیرتے ہی پیچھے دیکھا اور مجھے ایسے دیکھا جیسے بابا جی کا خون پی گیا ہوں۔ اور بولے اوئے کیہڑے کربلا وچوں آیا ایں توں؟ میں چپ رہا اور نماز دوبارہ شروع ہو گئی۔ جیسے ہی اللہ اکبر ہوئی میں نے ہاتھ لمبا کرکے آگے سے دوبارہ بوتل پکڑی اور ساری بوتل ہی خالی کر دی۔ بابا جی نے نجانے کس مشکل سے نماز ختم کی اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا باہر کولر لگا اے اوتھوں پی لے ہاں جا کے پانی۔ میں ہنسی کو دبائے پھر بھی چپ رہا۔

اگلے دن میں نے پہلے ہی دیکھ لیا،بوتل میں  ٹینگ تھا۔ میں صف کی دوسری نکڑ میں چلا گیا کہ بابا جی سمجھیں کوئی خطرہ نہیں آج۔ بابا جی نے بوتل کرسی کی ٹانگ کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ میں نے تکبیر کے ساتھ نماز تروایح شروع نہ کی اور پیچھے سے آکر بوتل نیچے سے پکڑی اور ایک ہی بار میں خالی کرکے ادھر ہی رکھ دی۔ اب جیسے ہی سلام پھیرا گیا بابا جی با آواز بلند کہتے قاری صاحب کھلو جو ذرا۔۔اوہ منڈا کتھے وے جہڑا کل وی میرا شربت پی گیا سی تے اج وی؟ میں نے دوسری نکڑ سے کہا بابا پیاس لگی سی تے پی لیا اے۔۔ تینوں نیکیاں ای ملیاں نیں ناں، مسلمان تے جنگاں وچ آپ پیاسے رہ کے دوجیاں نوں پانی دیندے سن۔ بابا بولا کسے کنجر واسطے دو گلاس رہن وی دئی دے نیں سارا ای ڈپھ گیا سیں کل وی تے اج وی، ایتھے کوئی نہیں جنگ لگی ہوئی۔ میں نے کہا بابا توں لے کے نہ آؤیا کر جے ایناں دل نئیں تے۔ اور قاری صاحب نے اللہ اکبر کہہ دیا۔

بابا جی نے مسجد کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مجھے منہ ہی منہ میں ضرور کوئی گالیاں دیں ہونگی پنڈاں دے باںے نئیں باز آوندے مسجد وچ وی۔ اب اگلے دن کا شدت سے انتظار تھا کہ آج کچھ کھڑاک ہوگا اگر آج بھی پانی پی لیا تو۔ آج شربت والی بوتل گود میں رکھ لی گئی اور فل ایکٹیو ہونے کی ایکٹنگ بھی نظر آئی۔ میں نے پلان بدلا کہ فوراً بوتل نہیں پکڑنی دو رکعت پڑھ لی جائے۔ دو رکعت پڑھ کر بابا جی کو لگا  آج کچھ نہیں ہوگا اور تیسری رکعت جیسے ہی شروع ہوئی میں نے اوپر سے آگے ہاتھ کرکے فوراً بوتل اٹھا لی۔ بابا جی نے میرا بازو پکڑنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ بابا جی آج سلام پھیر کر چپ رہے اور جب آٹھ تراویح ہوئی تو بابا جی بولے سارے میری گل سنو۔۔

تن دناں توں اوہ منڈا میرا شربت پی ریا اے یا کل تو اوہ ایتھے نماز پڑھے گا یا میں، اج فیصلہ کر لو سارے۔ جے تواڈے کولوں اوہ نئیں کھلوندا تے مینوں دسو میں آپ نبڑ لواں گا۔

میں اٹھا اور بولا بابا توں  سوا دو لیٹر آلی بوتل یا دو بوتلاں  نئیں لیا سکدا؟ بولا توں میرے نال پگ وٹائی اے یا ٹگا (بیل) وٹایا ای؟ میں نے کہا جو بھی ہے کل سے آدھی آدھی بوتل ہوگی یا میرے لیے بھی ایک بوتل لے آنا۔ میری ایتھے کیہڑی ماں بیٹھی اے جیہڑی شربت بنا کے دے پروہنے  دی کوئی عزت ای نئیں۔ بابا جی بولے تے توں جو کرنا ایں پیا اینج کردے نیں پروہنے؟ ساری مسجد ہس ہس کر دوہری ہو رہی تھی ہمارے مکالمے پر۔ کچھ لوگ بشمول قاری صاحب مجھے جانتے تھے اکثریت کو نہیں پتا تھا۔

خیر بابا جی بولے میں کل اک ای بوتل لے آونی ایں تے توں ہتھ لا کے وکھائیں۔ میں نے کہا ویکھاں گے توں لیا تے سہی کل پانی بابا۔ اگلے دن ہفتہ تھا اور میں شام کو گاؤں آگیا اگلی  دو راتیں میں نہیں گیا۔ سوموار کو قاری صاحب نے کال کی اور کہا کہ بابا جی آپکا پوچھ رہے تھے کہ دو دن سے کیوں نہیں آیا وہ لڑکا؟ قاری صاحب نے اپنی طرف سے بابا جی کو کہا کہ آپکی وجہ سے وہ لڑکا مسجد چھوڑ گیا ہے آپ آرام سے اب سارا پانی پئیں۔ بابا جی نے قاری صاحب سے کہا کہ اوہندا پتا کرو بلا لو میں نئیں کچھ کیہندا پی لوے پانی یار آکے۔

میں نے سوموار کو بابا جی سے معذرت کی تو کہنے لگے یار توں مسجد نہ چھڈ اور مجھے بوتل پکڑاتے ہوئے بولے اے لے توں پی لے سارا شربت میں سادہ پانی پی لواں گا۔ میں نے کہا نئیں بابا جی میں تو تنگ کر رہا تھا آپ ہی پئیں۔ اسکے بعد ہماری دوستی ہوگئی۔ سارا رمضان بابا جی مجھے کہہ کہہ کر شربت پلاتے رہے۔ جہاں میرا ڈپریشن ختم ہوا وہاں ایک اچھا دوست بھی میسر آیا۔

میں نے اپنی زندگی کے بتیس سالوں سے یہ سیکھا ہے کہ خوش رہنے کے لیے اپنے اندر کا بچہ کبھی بڑا نہ ہونے دیں۔ بڑے تو فکروں جوگے رہ جاتے ہیں بچے خوش رہتے ہیں ہر حال میں۔ اس دنیا کے کامیاب ترین لوگوں نے اپنے اندر کے بچے کو کبھی بڑا نہیں ہونے دیا۔ میری پسندیدہ مشہور گلوکارائیں ایڈلی، بلی ایلش، سیا، ریہانہ چاروں میں یہ بات مشترک ہے کہ انکے ووکل بچوں والے ہیں انکی گنگناہٹ بچوں والی ہے آج گلوکاری میں انکا کوئی ثانی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جتنے بڑے رائیٹر دیکھ لیں ایکٹر دیکھ لیں ٹرینر لائف کوچ اور اچھے لیڈر دیکھ لیں سب نے اپنے اندر کا شرارتی بچہ زندہ رکھا ہوا ہے۔ آپ نے اپنے اندر کا بچہ ابھی زندہ رکھا ہوا ہے یا اسے کھو دیا ہوا ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply