باپ سراں دے تاج محمد/ڈاکٹر راحیل احمد

ابو جان کی وفات سے پہلے کی رات میں ان کے ساتھ تھا۔ جب سب لوگ مل کر چلے گۓ تو ہم دونوں کتنی ہی دیر باتیں کرتے رہے۔ میں اُن کے پاؤں دباتا رہا ،وہ باتیں کرتے کرتے خاموش ہو جاتے اور مجھے ایک ٹک دیکھنے لگتے۔ مجھے ان نگاہوں سے خوف آتا۔ جب سے ہم نے ابو کی کیموتھراپی کا فیصلہ کیا تھا ابو خاموش رہنے لگے تھے۔ وہ خالی خالی نظروں سے ہم سب کو دیکھتے رہتے۔ جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔ ایک دفعہ میں نے ہنس کر کہا ابو آپ بولتے کیوں نہیں۔ آپ تو اتنے خوش مزاج، اتنے زندہ دل اور ہنس مکھ تھے۔ پھر چپ کیوں ہو گۓ۔ وہ تب بھی خاموش تھے۔

ابو چپکے چپکے اپنی روانگی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ اپنی چیزیں بانٹ رہے تھے۔ نبیل بھائی کو گھر کے سارے مالی معاملات سمجھا دیے۔ مجھے اور سجیل کو بتا دیا کہ  ابو کے بعد گھر کا بڑا نبیل ہے۔ یہ بھی کہہ دیا کہ میرا جنازہ کہاں سے اٹھانا، بستر کون سا بچھانا۔ ہم ابو کی باتیں سن کر ہنس پڑتے۔ آپ ایسا کیوں کہتے ہیں آپ ٹھیک ہو جائیں گے،بھلے چنگے ہو جائیں گے، لیکن انہیں شاید اشارہ مل چکا تھا۔ وہ تین سال سے اپنی کیموتھراپی کے لۓ مان نہیں رہے تھے اور پھر چھ ماہ پہلے وہ تیار ہو گۓ۔ کئی دفعہ  نبیل ابو کی گود میں سر رکھ کر سو گیا۔ کئی دفعہ  میں اور سجیل ابو کے ہاتھ سے کھانا کھاتے۔ وہ ہنس کر کہتے تم تینوں اتنے بڑے ہو گۓ ہو اب بھی بچے بن جاتے ہو۔ ان سے آخری بار جب میں لپٹ گیا تو ابو جان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ابو آپ رو کیوں رہے ہیں،موت سے ڈرتے ہیں؟ مولا نے چاہا تو آپ کو کچھ نہ ہو گا۔ آپ کو مشکل میں دیکھ کر ہماری اپنی جان نکلنے لگتی ہے۔ ہمارے اپنے جسموں کے مسام کھل جاتے ہیں۔ ہم آپ کی خدمت سے نہیں گھبراتے۔ آپ کی خدمت کر کے تو ہمیں راحت ملتی ہے، سُکھ ملتا ہے۔ ابو کہنے لگے میرے لعل! میں موت سے نہیں ڈرتا سب نے مرنا ہے میرا دل اپنے بچوں کو چھوڑ کر جانے کو نہیں چاہتا۔ تم سب بہت پیارے لگتے ہو۔ میں ابو جان کو غلط یقین دہانی کراتا کہ ان کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ وہ ہمیشہ جانتے تھے کہ میں انہیں بہتر محسوس کروانے کے لئے جھوٹ بول رہا ہوں۔ لیکن وہ سر ہلا کر مسکراتے۔ مجھے یہ احساس دلاتے کہ وہ مجھ سے متفق ہیں۔

ابو آپ نے دعا مانگی تھی اپنے خدا سے کہا تھا کہ آپ کے بیٹے آپ کا علاج کروانے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں شرمندہ نہ ہونے دینا۔ یہ ہسپتال سے روتے ہوۓ نہ واپس آئیں لیکن ابو جان! ہم آپ کو کیا بتائیں ہم کس قدر روۓ۔ آج بھی ہماری آنکھوں کا پانی خشک ہونے کا نام نہیں لیتا۔ آپ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے برطانیہ آئے۔ آپ کو مستقل جسمانی ، جذباتی اور مالی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ نے ان مشکلات کو دانشمندی سے نمٹایا۔ ہم غلط راہ کی طرف جا سکتے تھے لیکن آپ نے ہمیں صحیح راستے پر رکھا۔ ہماری ہدایت اور رہنمائی کی۔

آج ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس کے لئے کوئی خواہش کرسکتا ہے۔ لیکن ابو جان میرے سر سے چھت ہٹ گئی ہے۔ میں تنہا بے یارومددگار رہ گیا ہوں، زندگی ایک دم بدل گئی ہے۔ گھر اور ذات میں اُداسی ہے جیسے ایک بہت بڑا خلا ہو اور میں اس میں بے سمت لڑھک رہا ہوں۔ آپ کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں گھومتا ہے۔ آپ کی آواز، آپ کی دعائیں کانوں میں گونجتی ہیں۔ اب ہماری خیر کی نصیحت کون دے گا۔ ابو جان! میں ٹھنڈی چھاؤں سے نکل کر تپتی دھوپ میں آ گیا ہوں، میں بکھر گیا ہوں۔ آپ ایک تناور درخت تھے اور ہم آپ کے پھول۔ ان پر خزاں چھا گئی ہے۔ ابو آپ کیوں چلے گئے؟

Advertisements
julia rana solicitors

یا خدا! باپ کیوں جاتے ہیں، یہی تو ایک سچا رشتہ ہے اس دنیا میں۔ تُو خدا ہے اور تیری رضا کے ہم سب غلام ہیں۔ ہمارے ابو جان کو جنت میں جگہ دینا، آمین۔ لیکن ابو جان آپ اب بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں میں دیر سے کیوں سوتا ہوں۔ روز فجر سے پہلے ہمارے گھر میں خوشبو پھیل جاتی ہے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ  آپ آئے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply