جانا ہمارا فاتحہ خوانی پر/احمد رضوان

مرزا فرحت اللہ بیگ نے “مردہ بدست زندہ” کے عنوان سے ایک انشائیہ لکھا تھا جو میٹرک کے کورس میں شامل تھا ،اس میں انہوں نے ہمارے معاشرے میں پھیلتی ہوئی اس برائی کی نشان دہی کی تھی کہ جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو اس کے جنازے میں شرکت کرنے والے اور قبرستان جانے والے کس طرح دنیا داری میں مشغول ہوتے ہیں اور اپنے تعلقات نبھانے کے لیے شرما حضوری پہنچ تو جاتے ہیں مگر ان کے دل پر رنج و غم کی کوئی پرچھائی تک نہیں ہوتی۔ کم و بیش اسی قسم کا مضمون یہ بھی ہے مگر یہ احوال قبرستان مردے کو دفنائے جانےکے بعد جب سب رسم قل یا قرآن خوانی کے لئےلوگ اکٹھے ہوتے ہیں اس کے حوالے سے ہے۔

جانا ہمارا  فاتحہ خوانی پر

محلے میں سرفراز صاحب کے والد کے فوت ہونے پر قرآن خوانی کے لئے بلایا گیا تھا ۔سرفراز صاحب کینیڈا آمد سے قبل دِلی کی گلیوں کے روڑے تھے اوریہاں کینیڈا میں آئی ٹی  کی جاب کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ ملائشیا میں پیدا ہندوستانی خاتون تھیں۔ان کے دونوں بیٹے بالترتیب میرے دونوں بیٹوں کے ہم جماعت تھے ۔ رمضان کا مہینہ ابھی شروع ہی ہوا تھا ۔پانچواں روزہ تھا۔پوری فیملی کو مدعو کیا گیا تھا ۔اس لئے سب چھ بجے وہاں جا پہنچے۔چونکہ وقت 6بجے کا  دیا گیا تھا مگر اندازہ ہوا کہ کبھی کبھار وقت کی پابندی  کی عادت ثانیہ  آپ کو لمبا انتظار کرواتی ہے۔  سب سے پہلے آنے والا میں ہی تھا ۔مردوں کو سیدھا بیسمنٹ میں لینڈ کروایا گیا اور خواتین کے نصیب میں مین فلور آیا ۔خیر علیک سلیک کے بعد ایک کونے میں بیٹھ کر قرآن خوانی شروع کر دی۔ گرمیوں کے دن تھے اور روزہ کوئی ساڑھے آٹھ کے بعد کھلنا تھا ۔ رفتہ رفتہ لوگ آنا شروع ہوئے۔ مصافحے ہوئے،زیادہ قریبی گلے ملنا شروع ہوئے۔ شرما حضوری میں چند نے میز پر پڑی ہوئی سورہ یاسین اٹھا کر پڑھنا شروع کر دیں۔ کچھ ایسے ہی بیٹھ گئے ۔ نئے آنے والوں کا صاحبِ  خانہ بھی استقبال اُٹھ کر،ہاتھ ملا کر کرتے اور ہر آنے والے مہمان کو اس کے رتبہ اور عہدہ کے حساب سے  پروٹوکول دیا جاتا ۔

اس نئےایریا میں سب ہی   کچھ عرصہ قبل منتقل ہوئے تھے اور ابھی تمام پڑوسیوں سے پوری طرح تعارف نہیں ہوا تھا۔ مسلم گھرانوں سے ہماری بھی ہلکی پھلکی  سلام دعا  ہوئی تھی کہ انکل کے انتقال کا پتہ چلا کہ وہ  اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے ہیں ۔جو لوگ آئے تھے وہ اپنی اپنی واقفیت کے حساب سے گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔ایک گروپ  جو مرحوم کے خاندان کو اچھی طرح جانتا تھا اس نے مرحوم کے محاسن اور اوصاف حمیدہ گنوانے سے ابتدا کی ۔ اللہ بخشے مرحوم بہت گنی آدمی تھے۔ ان کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا۔ کیا عمدہ گلاوٹ والے بہاری کباب بناتے تھے، اور اس کے ساتھ ہری چٹنی ان کی خاندانی ترکیب تھی جو پشت ہا پشت سے چلی آرہی تھی ۔زردے کو ڈھیوڑا بنانا کوئی ان سے سیکھے کہ کیسے چاولوں  سے ڈیڑھ گنا چینی اور میوہ جات اس میں ڈالتے تھے۔۔ وہ تو ہم پر بہت بعد میں کُھلا کہ مرحوم نے اپنی ابتدائی زندگی دِلی میں بیرا گیری سے شروع کی تھی اور ترقی کرتے کرتے کسی اچھے ریستوران کے شیف کے عہدہ جلیلہ تک جا پہنچے تھے۔   چائے اور سگریٹ کے دھتیا تھے۔ مرحوم سگریٹ سے سگریٹ جلا کر پینے کے عادی  تھے اور اپنی اسی عادت کے ہاتھوں ہی راہیءِ عدم ہوئے۔ لوگ پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے ہیں قبلہ ہر قدم  پرسگریٹ کا دھواں پھونک کر چلنے کے عادی تھے۔

ایک اور کونے میں بیٹھے ہوئے چند روزہ خور روزہ کھلنے کے انتظار میں دنیا جہاں کے ہر موضوع پر اپنی رائے کو حتمی مان کر علم کے موتی  مفت بانٹ رہے تھے۔ بات گرمیوں میں روزہ کی طوالت سے  مختلف ممالک  کے اوقاتِ سحرو افطار سے ہوتی ہوئی رویتِ ہلال کے حلال و حرام فیصلوں تک پہنچی۔  اس کے بعد ہوتے ہوتے باتیں کرکٹ کے میدانوں سے جوئے اور شیئر بازارکے اتار چڑھاؤ اور گجو بھائی لوگوں کی تجارتی سوجھ بوجھ تک چلتی چلی گئی۔ بیسمنٹ کی  پچھلی طرف بچے شور اور اودھم یوں مچا رہے  تھے جیسے  فوتگی والے گھر کی جگہ کسی پارٹی میں آئے ہوئے ہوں۔ خیر سر نیہوڑائے  کچھ دیر قرآن پڑھا، سورہ یاسین پڑھی،  روزہ کھلنے میں ابھی تیس منٹ باقی تھے کہ صاحب خانہ نےتمام حاضرین کو ایک جگہ جمع کرلیا  اور اندر سے  فوٹواسٹیٹ شدہ پلندہ اٹھا لائے اور ہر ایک کو ایک ایک  کاپی تھما دی۔نگاہ دوڑائی تو اندازہ ہوا کہ  اس پر  دعائیں لکھی ہوئی تھیں۔ اس کے بعد صاحب خانہ نے  جو دعا مانگنا شروع کی ہے تو کوئی ایسی دعا نہ ہوگی جو انہوں نے نہ مانگی ہو۔ پہلےچند کندہ ناتراشوں نے لذیذ کھانوں کا ذکر کرکے اشتہا کو تیز کردیا تھا اور منہ میں پانی بھر آیا تھا۔ شاید یہ بھی ان کا کوئی مجرب نسخہ تھا   منہ میں پانی بھر آنے سے پیاس نہ لگتی ہو  اب رہی سہی کسر لمبی لمبی دعاؤں نے پوری کردی ۔

خیر روزہ  کھجور اور دودھ سوڈا  سے کھولا۔جسم میں کچھ جان آئی تو نماز کے لیے صف بندی شروع ہوگئی۔ بچوں کو سب سے آخری صف میں جگہ دی گئی ۔ دورانِ نماز  چھوٹےبچے اپنی   خوکے مطابق  کسی بات پر شرارتی انداز میں کھلکھلارہے تھے ۔ نماز ختم ہوتے ہی نسبتاََ بڑے بچوں نے ان بچوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تم لوگ کیوں ہنس رہے تھے؟ایک بچہ بولا مجھے ایسے ہی ہنسی آ رہی تھی تو دوسرا بچہ بولا کہ تم اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا کر اسے کاٹ لیتے تو تمہاری ہنسی رک جاتی ۔اب دیکھنا اللہ میاں تم کودوزخ کی آگ میں پھینکیں گے۔یا میرے مالک! یہ آٹھ نو سال کے بچے جن کی معصوم مسکانیں اور کھلکھلاہٹ دلوں کو خوش کرتی ہیں ان کے وجدان اور آگہی میں  اتنا علم کس نےانڈیل دیا کہ انہیں جنت اور دوزخ  ،جزا اور سزا کی باتیں ابھی سے سکھا دی گئی ہیں ۔ اور ان سے ان کی معصومیت بھی چھین لی گئی ہے ۔کھانے کا اہتمام مرحوم کی روح کو خوش کرنے کے لئے ان کے پسندیدہ کھانوں کی صورت میں تھا جس سے اندازہ ہوا کہ مرحوم اگر سگریٹ نوشی سے نہ چل بستے تو   خوش خوراکی اور اپنی قبر دانتوں سے کھودتے کھودتے  اس جہانِ  فانی سے کوچ کرتے۔  کھانا کھا کر کر صاحب خانہ سے ایک بار پھر تعزیت کر کے رخصت لی  تو بیرونی دروازے کے پاس چند افراد کھانا ہضم کرنے کے لئے سگریٹ نوشی سے محظوظ ہو رہے تھے ۔کیونکہ کچھ لوگوں کے لئے روزہ کھانے پینے سے زیادہ سگریٹ کا ہوتا ہے ۔ گھر پہنچے تو میرا  چھوٹا بیٹا عمر  جس کی آبزرویشن بہت تیز ہے  ، بولا !

بابا جو انکل فوت ہوئے تھے وہ پچاسی سال کے تھے اور ان کو لنگ کینسر تھااور سنا ہے وہ بہت سگریٹ پیتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں بیٹے  ایسا ہی تھا۔  تو بابا  پھر وہ  لوگ دروازے کے پاس کھڑے سگریٹ  کیوں پی رہے تھے جو تعزیت کے لیے آئے تھے ؟اب میں بیٹے کو کیا بتاتا کہ انسان کی فطرت اور عادات اس کی قبر تک ساتھ ساتھ ہی جاتی ہیں اور کسی کے مرنے سے انسان کوئی سبق نہیں سیکھتا جب تک اس کا اپنا آخری وقت نہ آجائے۔ بس رہے نام اللہ کا۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply