زمین کا ٹکڑا

تم ریاست کے متعلق کچھ نہ بھی سوچو لیکن ریاست تمہارے لئے بہت کچھ سوچتی ہے ۔۔
۔
ریاست کہتی ہے !!
۔
اے بھوک کے تھپیڑوں میں گرتے پڑتے لوگو۔۔۔
اے مفلس ضعیف آنکھوں تلے اندھیرے پالتے نابینو ۔۔۔۔۔
اے حسرتوں کے سائبانوں میں خوشیاں لُٹاتے جانثارو ۔۔۔۔
اے بے ثمر مسافتوں میں خاک اُڑاتے راہگزارو۔۔
اے عزت نفس کی چادروں میں تارتار مظلومو۔۔۔۔
اے استحصالی نظام تلے روندے گئے فقیرو ۔۔۔
میں ابھی باقی ہوں ۔۔۔ یقین رکھو ۔۔۔۔۔
میں اپنے گرد کھنچی ہوئی لکیروں کی دھول میں سانس کی آہٹوں تلے پنپ رہی ہوں ۔۔ میرا تشخص ابھی اپنی بازیابی کی دہلیز پر سرنگوں ہی سہی لیکن قائم ہے دائم ہے ۔۔
۔
میری مثل ۔۔۔ مثل ممتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
جہاں بھوک کی کھائیاں جتنی مرضی گہری ہوں اُسے پار کرنے کا جذبہ مٹتا نہیں ۔۔۔
جہاں دھوپ کی شدت آگ بھی اُگلے لیکن سائبان کی ٹھنڈک ختم نہیں ہوتی ۔۔۔
جہاں عزت نفس کے جنازوں کوبے گوروکفن دفنایا نہیں جاتا ۔۔۔۔
جہاں دھرتی کا رشتہ ماں کی پاکیزہ ردا کے مترادف ہوتا ہے ۔۔۔
۔۔
۔
۔
دیکھو مایوس نہ ہو ۔۔۔ ثابت قدم رہو ۔۔۔۔ ۔۔ کیا ہوا جو ۔۔ !!!
میرے آشیاں کو چند مفاد پرستوں کی حوس نے چاروں اطراف سے آ گھیرا تو ۔۔۔
میرے وجود کو شوقِ سقوط کی بھٹی میں جھونک کر طفل تماشہ آباد کیا تو ۔۔۔
میں موجود رہوں گی ۔۔۔ ابد تک ۔۔۔ اور انتظار کروں گی ۔۔۔۔۔
۔
۔
جب تم میں اہل جگر و سوز نظر آگے بڑھیں گے ۔۔
جب تم میں معتبر اندھیروں کو مٹانے والے قدم اُٹھیں گے
جب تم میں بلند افکار و نگاہ یک قلب و زباں کے نعرے سجیں گے
جب تم میں بھوک اور خوف کے سائے فلاح کی روشنی تلے نیست و نابود مٹیں گے ۔
جب تم میں آکائی کے دانوں کی ایک ہی تسبیع صبح شام ورد کرنے والے وحدت کے رنگ کھلیں گے ۔۔۔۔۔۔
جب تم میں حرص و لالچ و تعصب کینہ بغض استحصال کی ساری رسیوں کو کاٹ ڈالنے والے سنگ سنگ چلیں گے ۔۔
۔
۔
میں اُس ابد تک انتظار کروں گی ۔۔۔۔ لازم ہے کہ میں انتظار کروں گی
۔
۔
از قلم : شاکر جی

Facebook Comments

شاکرجی
میری سوچ مختلف ہو سکتی ہے ۔۔ میری کاوش غیر سنجیدہ نہیں ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply