میں تو چلی چین / تسنیم، سلک مارکیٹ اور سپر پاور چین(قسط20) -سلمیٰ اعوان

ریشم مارکیٹ بھی ابھی چلنا تھا۔شام ڈھلنے لگی تھی ۔اس وقت ہم سب ریتانRitan پارک میں سیر اور کافی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔تسنیم بھی ہمارے ساتھ تھی جو شاپنگ کی بڑی ماہر سمجھی جاتی ہے۔بلکہ اگر یہ کہوں کہ مارکیٹ جانے اور مجھے وہاں گھمانے کی ترغیب ساری کی ساری تسنیم کی تھی تو کچھ غلط نہ تھا۔
سعدیہ نے مجھے تنبیہ بھی کی تھی۔
‘‘ تسنیم کو شاپنگ کا کریز ہے۔اور اس کی چوائس بھی بہت اچھی ہے۔اب فقیر فقراء کی طرح اٹھ کر نہ چلی جائیے گا اس کے ساتھ۔ دل کسی چیز پر آجائے تو لے لینا۔چلو بہوؤں کو ہی دے دینا۔’’
ہنس پڑی تھی میں ۔ہاں بولی کچھ نہ تھی۔مگر دل میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکی تھی۔
‘‘لو بڑی ہیجلی بوبو بھاوجوں کی۔ ٹکے کی چیز نہ خریدوں۔یاد ہے مجھے سب ذرا ذرا ۔کِس چاؤ سے دلّی سے کتان سلک کی ساڑھی سستے زمانوں میں سو ڈالر کی خرید کر لائی تھی۔بڑی والی نے پھیکے منہ اور بیزار ہاتھوں سے لے کر ایک طرف رکھ دی ۔شکریہ ضرور
کہاپر یوں جیسے تحفے کو قبول کرکے میرے اوپر احسان عظیم کررہی ہو۔ اور رہی چھوٹی والی تو آنٹی شکریہ کہہ کر کِسی کونے کھدرے میں پھینک دینی ہے سوغات یا تحفہ ۔اور جو پھر کبھی اس کی صورت نظر آجائے ناممکن ۔بخشوبی میں تو لنڈوری ہی بھلی۔’’
اور رہی دل کی بات ۔بڑا رجّا پُجّاہے یہ میرا دل اللہ کے فضل و کرم سے ۔
تسنیم کو تو میں نے ساری کہانیاں سنا دینی ہیں۔سمجھ دار ہے جان جائے گی کہ بڈھی جان جائے پر دمڑی نہ جائے والی کلاس سے ہے۔
اُسے گھر سے لینے کے لیے بھی میں ہی اوپر گئی تھی۔بلکہ یہ کہنا کچھ مناسب نہیں کہ میں اُسے لینے گئی تھی۔حقیقتاً تو اس نے مجھے لے کر جانا تھا۔ میں تو یونہی ویلی رن پروہنیاں جوگی کے مصداق بس ادھر ادھر کی منہ ماری چاہتی تھی۔اُسے یاد دہانی کروانے کی تو کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔سعدیہ کو بھی نہیں بتایا تھا۔
یہ حکومتی لوگ بڑے تکلفّات اور رکھ رکھاؤ میں پڑنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اطلاع کرکے جانا تہذیب اور ایٹی کیٹس کے زمرے میں آتا ہے۔پسند ہے مجھے بھی یہ۔مگر اس سے آگے جانے میں بھئی ہماری تو جان جاتی ہے۔بڑے کھلے ڈلے لوگ ہیں ہم تو۔بندہ من کو بھا جائے تو پھر پوتڑوں تک کے راز کھول دیتے ہیں۔ویسے بھی وہ دوست کیسی جس کے بیڈروم میں آپ بے تکلفی سے گُھس نہ سکیں۔جس کے شکنوں سے بھرے پلنگ کی چادر پر ٹھسے سے بیٹھ کر کارڈز نہ کھیل سکیں۔
تاہم تسنیم بیبی بچی تھی۔اِس کے اسی بیبے پن نے مجھے بھی بے تکلف ہونے کا موقع دے دیا تھا۔اس کا میاں شنگھائی یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھا۔لائق فائق نوجوان۔
جب میں لفٹ سے نکل کر دروازے کے سامنے کھڑی ہوئی۔بند کواڑوں کے
اندر سے نکلتی اشتہا انگیز خوشبوؤں نے پوری رہداری کو معطرکررکھا تھا۔
‘‘تسنیم تم نے میاں کے دل میں اُترنے کا فن اس کے پیٹ کے راستے سے جان لیا ہے۔’’
دروازہ کھلنے اور اس کے ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھتے ہوئے میں کہے بغیر نہ رہ سکی تھی۔
کسی دقیق سی کتاب کے مطالعے میں گم ڈاکٹر ارشد نے مودبانہ سلام کیا۔کھڑا ہوا۔اپنے قریبی صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ دیا۔
‘‘میاں میں تو تمہاری بیگم کو جانے کی یاد دہانی کروانے کے لیے فون کی بجائے خود چلی آئی کہ اسی کے ایما پر آج ریشم مارکیٹ جانے کا پروگرام بنا ہے۔میں نے سوچا۔تسنیم جیسی سوچاری لڑکی کے ساتھ جانے کا تو مجھے بہت فائدہ ہوگا۔اس کی صحبت میں کچھ جاننے کا موقع بھی ملے گا کہ تم جیسے چین کی قدیم و جدید تاریخ سے شناسائی والے شوہر کے علم کی کچھ چھینٹوں نے اسے بھی ضرور بھگویا ہوگا۔
کھلکھلا کرہنسا۔‘‘ویسے مجھے امیدذرا کم کم ہے۔مگر آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔’’
نارنگیاں اس نے زبردستی کھلائیں۔چائے کے کپ کے لیے بے پناہ اصرار ہوا۔
‘‘ ریتان میں پئیں گے۔’’کہتے ہوئے میں نے اس کا اور ڈاکٹر ارشد کا شکریہ ادا کیا اور نیچے آگئی۔
وہ ریشم مارکیٹ مجھے دکھانے کے لیے کچھ زیادہ ہی پرجوش تھی۔چاہتی تھی کہ میں کپڑے کے اُن نادر نمونوں کو ایک نظر دیکھوں جن کے لیے چین زمانوں سے دُنیا بھر میں مشہور ہے ۔چینی برتنوں اور دیگر مصنوعات کی مارکیٹوں میں گھمانے پھرانے کی بھی شدید
متمنی تھی۔
اس کے اِس پیار بھرے جذبے کو میری ممتا نے سراہتے ہوئے سوچا۔
‘‘وقت بھی کیا ظالم شے ہے ۔جب شوق تھا تو پیسہ نہ تھا اور جب پیسہ آیا تو جوگی بن گئی۔’’
بس تو ایسی ہی سوچوں کی گھمن گھیریوں میں مارکیٹ پہنچ گئے۔ زیادہ دور نہ تھی۔چار منزلہ روشنیوں میں نہائی ہوئی عمارت۔ہر فلور شاپنگ کے لوازمات سے سجا ہوا۔شنگھائی کے دلفریب کڑھائی اور رنگوں کے تھانوں کی دید نے میرا جی شاد کردیا تھا۔جوانی اور ناآسودہ خواہشوں کی یلغار نے بھی بہت کچھ یاد دلایا۔ سلک کے ڈوپٹے نہیں تھے مگر اس کے علاوہ اتنی بے شمار چیزیں کہ بندہ پاگل ہوجائے۔کانوں، گلے، ہاتھوں کی انگوٹھیاں اتنے ڈیزائن، اللہ اتنی ورائٹی ۔بندے کی مت ماری جائے۔
میں نے انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی غرض سے 50یوآن کا ایک دیوار چین کا سونیئر خریداکہ جب یکایک تسنیم نے میرا ہاتھ پکڑا تھا۔وہ مجھے گھیسٹ کر اس فلور پر لے گئی تھی جو اس کے حسابوں کچھ بہت خا ص تھا۔دراصل تو وہ بیجنگ کی رگ رگ سے واقف تھی۔کہاں کون سی چیزیں بہترین اور نسبتاً سستی ملتی ہیں۔کہاں کہاں اور کب کب سیل لگتی ہے؟بھاؤ تاؤ والا معاملہ تو خیر ہمارے ہاں جیسا ہی تھا۔آسمان پر چڑھتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے زمین پر بھی آجاتے ہیں۔
تسنیم کچھ کہہ رہی تھی شاید۔کیا؟مجھے تو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ میں تو اپنے اردگرد دل کش رنگوں کا ایک جہان دیکھ رہی تھی۔اس نے چنبیلی رنگا تھان کھلوانے کی کوشش کی۔میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔تسنیم پہلے ذرا پورا چکر تو لگالیں۔
موتیوں کی دکانوں نے روکا۔دیکھا مگر ٹھہری نہیں آگے بڑھ گئی۔پورسلین کے
برتن تھے۔گنگ کھڑی انہیں دیکھتی تھی۔پھر اس کا ہاتھ پکڑ کرمیں نے ذرا مسکینی سے اُسے دیکھا اور کہا۔
‘‘چلو کہیں چل کر بیٹھتے ہیں۔باتیں کرتے اور کچھ کھاتے پیتے ہیں۔’’
‘‘کہاں چلیں گی۔ یہاں ویسٹرن ماہ خواMahuaہے۔بڑا زبردست قسم کا ریسٹورنٹ جس کی لامیان Lamianکھائیں گی تو یاد رکھیں گی۔’’
‘‘لامیاں ۔’’میری آنکھوں کی حیرت پر اس نے کہا تھا۔
‘‘اپنی زبان میں اسے ہاتھ سے بنی سویاں کہوں گی۔ ہاں اِس دیس والے اِسے نوڈلز کہتے ہیں۔مزے کی چیز ہے۔’’
‘‘ہاں’’
تسنیم نے پھر میری طرف دیکھا تھا۔ بولی تھی۔اِس کے ساتویں فلور پر مرچ مصالحے کا ایک ریسٹورنٹ بھی ہے جو ہندوستانی کھانوں کے لیے بہت شہرت رکھتا ہے۔ریسٹورنٹ ہے تو کِسی پاکستانی کا مگر چلاتے اِسے ہندوستانی لوگ ہیں۔ کھانے بھی مشرقی پنجاب اور ساؤتھ انڈیا کے ہیں۔
ایک لمحے کے لیے میرے اندر ڈوسا کھانے کی خواہش ابھری پر اگلے لمحے ہینڈ میڈ سویوں کی ہڑک غالب آگئی تھی۔
اوپن کچن میں سویاں بننے کا عمل عروج پر تھا۔بڑے بڑے میدے کے لچھوں کے ساتھ کھینچ تان کا سلسلہ کِس جان جوکھوں سے جاری تھا۔یادوں میں اماں ابھری تھیں ۔گھر کی چھت اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ سامنے تھی۔ اس چھت پر صبح کا منظر پوری دلفریبیوں سے جھلملایا تھا۔ ہاتھوں میں لہراتے لمبے لمبے میدے کے مشین سے نکلے لچھوں کے گچھے جنہیں چھت پر بندھی رسیوں پر لہرا لہرا کر ڈالا جاتا تھا۔
اس وقت میرے سامنے جدّت کے منظر تھے ۔مگر تھیں تو وہی لمبی لمبی موٹی سویاں جن سے ہماری پیاری یادوں کے سلسلے جڑے ہوئے تھے۔
اُس نے ڈمپلنگDumplingکا بھی آرڈر کردیا۔
میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
‘‘ضد نہیں کرنی تسنیم۔ اتنے مختصر سے وقت میں جان چکی ہوں کہ تم بہت دریا دل ہو۔مگر بل آج میں ادا کروں گی۔اور ہاں جان بحث نہیں۔’’
اور جب ہم انتظار کرتے تھے اور میرے دیدے گردوپیش کے جائزے میں بھی مصروف تھے۔میں نے سُنا تھا تسنیم کہتی تھی۔
‘‘آپ کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے شاید۔ ورائٹی بہت ہے نا۔ابھی تو دو تین جگہیں ایسی ہیں جہاں کپڑے کی وہ نادر اقسام ہیں کہ بندہ تو ٹک ٹک دیدم ودم نہ کشیدم کی مثال بن جاتا ہے۔’’
ڈمپلنگ واقعی بہت لذیذ تھی۔اُس کی بائٹ سے لطف اٹھاتے ہوئے میں نے کہا۔
تسنیم میرے بچپن اور جوانی نے چین اور جاپان کے بہترین کپڑے پہنے ہیں۔ابھی ابھی کپڑوں کا جو مینا بازار میں دیکھ کر آئی ہوں اس سے بھی خوبصورت سلک میں نے پہنی ہے۔سُناوں گی کہانی اس کی بھی۔ پر پہلے تو یہ جاننا چاہتی ہوں کہ چین کاروباری دنیا میں اتنا آگے کیسے بڑھ گیا؟
وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
‘‘آپ اِس کی حالیہ حیرت انگیز ترقی دیکھ کر اِسے آنے والے کل کی سپر پاور خیال کررہی ہیں۔آنٹی کل کی سپر پاور تو اب اس کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔مگر یہ بات بہت کم
لوگ جانتے ہیں کہ یہ ماضی کی بھی سپر پاور تھی۔1200سے 1700تک دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت رہی۔اس کے پروسلین کے برتن ،چائے،گن پاوڈر،ریشم اور دیگر بے شمار اشیاء دولت کی چاندی کی صورت اس پر ہُن کی طرح برستی تھی۔یہ وہ وقت تھا جب مسلم ہندوستان دوسری بڑی معاشی قوت بن کر ابھرا تھا۔
آنٹی بے شک میں ایم اے پاس ہوں۔مگر مجھے تاریخ سے لمبی چوڑی دلچسپی نہیں ہے نہ ہی سیاست سے۔ ہاں بس میں تو یہی کہہ سکتی ہوں کہ بہتر ہوگا اگر آپ ارشد کے ساتھ ایک نشست کرلیں۔وہ یقینا چین کی تاریخ زیادہ بہتر انداز میں آپ کو بتا سکیں گے۔
ہاں آپ کچھ سُنانے لگی تھیں۔وہ سُنائیں ۔یقینا بہت دلچسپ ہوگا۔’’
‘‘ارے کیا دلچسپ ہونا ہے۔اب دیکھو نا تم مارکیٹ میں لے لے کر پھری ہو اور میں نے دھیلے پولے کا کپڑا نہیں خریدا۔اپنی پیاری سی بیٹی نما دوست سعدیہ قریشی کے لیے بھی بس سوونئیر پر ہی اکتفا کرتے باہر آگئی ہوں۔
لو پہلی کہانی تو خالصتاً کچھ ذاتی کچھ کتابی ہے۔ہم جیسوں کی ماسیاں،مامیاں،پھوپھیاں مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر کی جم پل جو اپنے پڑھے لکھے شوہروں کے ساتھ کہیں کانپور ،کہیں جھانسی،کہیں لکھنو اور دلی جیسے شہروں کے طور طریقوں اور چلن سے بڑی جلدی مانوس ہوگئی تھیں۔ان جیسی عورتوں کے مردوں کو دو گھوڑا بوسکی کا جو کریز تھا اس کی تو کوئی مثال نہیں۔کن کن ذرائع سے یہ اُسے حاصل کرتے اور پھر شادی بیاہوں پر گاؤں آکر اس کا شو آف ہوتا۔یہی حال ان کی عورتوں کا تھا۔ شنگھائی کی مکھن جیسی ملائمت اس پر دیدہ زیب رنگوں کی کڑھائی اور اس کے زمینی رنگ اور چمک کا کوئی مول تھا کہ جس کا نام سُنتے ہی اُن کی آنکھوں میں ہیرے کی کنی جیسی چمک لہرانے لگتی تھی۔
تقسیم سے قبل کی یہ تصویریں مشرقی اور مغربی پنجاب کے عام گھروں کی عورتوں
اور مردوں کی ہی نہیں تھی۔ایلیٹ کلاس جسے پرانی ڈکشنری میں اشرافیہ کہا جاتا ہے بھی اسی مالیخولیا میں مبتلا تھی۔دہلی اور اترپردیش کی اشرافیہ کے لیے شادی بیاہوں میں اِن کپڑوں کا ہونا گویا ایک ناگریز امر تھا۔نازک اندام بیبیاں ایسے مواقع پر رشتہ دار خواتین سے کِس کِس انداز میں چینی سلک اور شنگھائی کا ذکر کرتی تھیں۔
‘‘اے ہے بٹیا کی شادی میں شنگھائی کی رضائیاں نہ ہوئیں تو سارے میں تھو تھو ہوجائے گی۔’’
سمدھیانے کو سلک کے سوٹ نہ گئے تو ناک کٹ جائے گی۔’’
اے آر خاتون کے ناول پڑھ لیں۔بیسویں صدی کے متحدہ ہندوستان کی دوسری اور تیسری دہائی کے مسلم گھرانوں کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کے عکاس ناول۔
‘‘دستک نہ دو’’الطاف فاطمہ کا مشہور ناول چینی تاجر نوعمر لڑکوں کی کہانی بھی سناتا ہے جو اُس وقت کی دہلی لکھنو کی گلیوں میں صدائیں لگانے والے بڑے تاریخی کردار تھے۔ جن کی آمد کا بیگمات بے چینی سے انتظار کرتی تھیں۔جن کے گٹھٹر کُھلتے تو پورا محلہ ڈیوڑھی میں اکٹھا ہوجاتا۔
لو اب اس کہانی کا اختتامی حصّہ بھی سن لو۔
میری پیاری تسنیم یہ بالکل نہیں جانتی ہے کہ جس بوڑھی عورت سے وہ بہت محبت کرنے لگی ہے اس نے اپنی جوانی میں لنڈے کی کیسی کیسی نایاب سلک اپنے تن پر سجائی تھی۔نولکھا بازار کے اندر اور دلی دروازے سے باہر کے لنڈے بازار کی بھلا کونسی بہترین دکانیں تھیں جن سے یہ لڑکی واقف نہ تھی۔
اس واقفیت کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔لو تم بھی سُن لو ذرا۔تقسیم کے بعد وہ جٹی مٹیاریں وہ میری ماسیاں،پھوپھیاں،مامیاں لاہور جیسے شہر میں آکر بسیں تو اِس شہر کا لنڈا
بازار کھوجنے میں انہوں نے بڑی پھرتی دکھائی۔ایک شام ہم بچے گھر کے سامنے واقع میدان سے کھیل کر واپس آئے تو محسوس ہوا کہ انگنائی میں تو قوس و قزح اتری ہوئی ہے۔فرش پر ریشمی کپڑوں کا بازار سا بکھرا ہوا ہے۔اُن پر ہاتھ پھیرے تو یوں لگا جیسے ہاتھ تو کہیں مکھن پر پڑے ہوں۔جیسے کچی ملائی ہو ان کے نیچے۔سر سر کرتے پھسلتے دور تک چلے گئے تھے۔تو بس شناسائی آنے والے دنوں میں گہری ہوتی چلی گئی۔
کالج اور یونیورسٹی میں میرے بہترین سویٹروں ،جرسیوں،شفون کے ڈوپٹوں اور بہترین قمیضوں کی کتنی دھوم تھی۔یاد ہے ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کے دوران میں چیف مارشل لا ایڈمنٹسریٹرر گورنر احسن کی بیگم کا انٹرویو کرنے ڈھاکہ کینٹ گئی۔میرے تن پر پہنی سلک کی قمیض کو مسز احسن نے گہری نظروں سے دیکھا۔اس کے رنگوں کا امتزاج اور کپڑے کی چمک اتنی خیرہ کن کہ مسز احسن کی نظریں بار بار اُس سے ٹکراتی تھیں پوچھنا چاہتی تھیں کہاں سے لی ہے؟مگر عہدہ اور مرتبہ درمیان میں حائل تھا۔ اور کچھ ایسا ہی حال ندیم فلمسٹار کی ساس اور فلم ساز و ہدایت کار احتشام الرحمن کی بیگم نجمہ احتشام کے ساتھ تھا۔اس نے تو بے اختیار پوچھ بھی لیا تھا۔یہ سلک کہاں سے خریدی ہے؟اور ہاتھوں سے بھی چھوا تھا اور بیٹی فرزانہ ندیم سے بھی کہا۔
‘‘ ارے دیکھو نا کِس غضب کا سلک ہے۔’’
مسکرائی تھی میں ۔بہتیرے چاچے مامے پردیسوں میں بس گئے تھے میرے۔تو میری جان نے ایسے جانے کتنے نایاب کپڑے سجائے تھے تن پر۔ چلو بے شک وہ اترن تھے۔خیر صلّا ۔بھکاری قوم کی فرد جو ہوئی۔
یوں ایک اور دلچسپ سا قصہ سن لو۔ 1986میں شمالی علاقہ جات پر لکھنے کے لیے ہنزہ کی ایک واقف فیملی کے گھر ٹھہری ہوئی تھی۔ صاحب خانہ کی پیاری سی بہو جو نیچے سے
بیاہ کر آئی تھی چاہتی تھی کہ میں کم از کم اس کے ساتھ جاکر اگر سلک نہیں تو چینی ٹی سیٹ تو خرید ہی لوں۔
بہت پیار آیا تھا مجھے اس پر جیسے تم پر آتا ہے۔میں نے کہا تھامیری سویٹ میرے پاس چھ کپ ہیں۔میری دونوں دیورانیوں کے پاس بھی چھ چھ ہیں۔اب بتاؤ جس گھر میں اٹھارہ کپ ہوں وہاں مزید کپوں کی کوئی ضرورت ہے؟
میری جان مجھے تو صرف ونڈو شاپنگ کرنی ہے۔کوئی سستی سی چیز مل گئی سوونئیر
کے طور پر تو کِسی پیاری سی دوست کے لیے خریدلوں گی۔باقی معلومات تو ضروری ہیں کہ جانوں کہ چین کی مصنوعات کی برصغیر میں جس درجہ دھوم تھی۔
واپسی سے پہلے تسنیم نے مجھے مارکیٹ کا ایک دفعہ پھر چکر لگوایا۔سمجھ دار لڑکی جو شاید جان چکی تھی کہ میرے لیے اِن مناظر کو دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا۔ مارکیٹ بند ہونے کا وقت قریب تھا۔شاپنگ بندہوچکی تھی۔ عورتوں کو دوکانوں کی صفائی ستھرائی اور جھاڑو پوچا لگاتے دیکھا۔ بھاؤ تھاؤ میں سو فی صد ہمارے جیسے ہی ہیں۔انیس بیس والی بات بھی نہیں۔آسمان پر چڑھ کر زمین پر آنے والے۔
راستے میں اندھے موڑسے ملاقات ہوئی۔پتہ چلا کہ یہاں سگنل نہیں ہیں اکثر حادثات ہوجاتے ہیں۔
‘‘ہیں۔’’میں نے حیرت سے سُنا۔
‘‘چین میں ایسا ممکن ہے۔’’
تسنیم کھلکھلا کر ہنسی۔
اور جب ہم لفٹ میں داخل ہوئیں۔میں نے اُس کے ماتھے کو چوما اور کہا۔
تسنیم میری آج کی شام بہت پر لطف گزری ہے۔عین میری خواہش کے
مطابق۔بہت شکریہ تمہارا میری بچی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply