یہ کتاب ہرگز نہ پڑھیں /محمد شریف

کتاب پڑھنے کا نقصان یہ ہے کہ آپ کے نظریات پہ چوٹ لگاتی ہے۔ وہ نظریہ جسے آپ نے برسوں پوجا ہو، جس کی آپ نے ہوش سنبھالنے سے لے کر جوانی تک حفاظت کی ہو، جس عقیدے کی آپ نے آبیاری کی ہو، اس پہ چوٹ پڑے تو کیا ہوتا ہے؟ بہت تکلیف سہنا پڑتی ہے، اور یہی فلسفہ کرتا ہے، آپ کے عقیدے پہ چوٹ کرتا ہے۔ علی عباس جلالپوری کی کتاب “روایات تمدن قدیم” بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے جو آپ کے عقائد پہ وار کرتی ہے۔

یہ کتاب بتاتی ہے کہ زمانہ قدیم میں تہذیب و تمدن کس طرح رواج پایا۔ کتاب اس موضوع پر دنیا کی مستند کتابوں کا نچوڑ ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل از مسیح میں ہی بہت سی مذہبی رسومات نمو پا چکی تھیں۔ اس کے بعد زمانہ جدید میں جتنے بھی مذاہب آئے، چاہے وہ سکھ مذہب ہو یا کوئی اور، وہ سب انہی پرانے مذاہب کا چربہ ہیں۔

“روایات تمدن قدیم” آپ کے مذہبی عقائد کو اُڑا کر رکھ دے گی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ چند سو سال قبل ایک مذہب ایسا بھی آیا جس کے پیروکار یہ دعویٰ  کرتے ہیں کہ ان کا مذہب دنیا کا بہترین مذہب ہے، اس میں جو کچھ ہے، وہ کسی اور مذہب میں نہیں، مگر جب تاریخ اور فلسفے کا مطالعہ کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ تو دوسرے مذاہب کے چربہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور اس مذہب کے بارے ملحدین کے بہت سے اعتراضات درست معلوم ہوتے ہیں۔

میرا آپ کو مشورہ ہے کہ یہ کتاب مت پڑھیں، یہ ایک ایسے سچے ملحد کی لکھت ہے کہ جس کو پڑھنے سے آپ کو سوچنے کا اور سوال اٹھانے کا مرض لاحق ہوسکتا ہے، آپ خود بھی ملحد ہو سکتے ہیں۔ اور یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے ہاں “سوچی پیا ،تے بندہ گیا” والی بات کی جاتی ہے اور سوال اٹھانے والے کو تو ویسے ہی اٹھا لیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کو پڑھ کر آپ سوال اٹھائیں اور آپ کو اٹھائے جانے کی نوبت ہی نہ  آئے بلکہ آپ اس سے پہلے ہی کسی “مجاہد” کے ہاتھوں مارے جائیں۔ لہذا احتیاط بہتر ہے۔

ہاں کتاب پڑھنے کا آپ کو فائدہ یہ ہو گا کہ یہ آپ  کو روم، مصر، ہند، کنعان، بنی اسرائیل، چین، یونان اور ایران کی قدیم تہذیبوں اور اس دور کی اقوام کی عادات و خصائل کے بارے علم ہو گا اور آپ روایتی مسلمان نہیں رہیں گے۔ آپ کو معلوم پڑے گا کہ جس عقیدے کو آپ برسوں سے سینچ رہے ہیں، وہ جسے آپ ایک مکمل نیا نظام سمجھ رہے ہیں، وہ تو نئی ڈبی میں پرانی پیکنگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ذیل میں کتاب سے کچھ اقتباسات
“سنسکرت کا ایک مقولہ ہے: لڑکی ہونے والے شوہر کے حسن کی تمنائی ہوتی ہے اسکی ماں اپنے ہونے والے داماد کی دولت کو دیکھتی ہے، باپ علم کو دیکھتا ہے، رشتےدار حسب و نسب کو دیکھتے ہیں اور عوام یہ دیکھتے ہیں شادی پر کھانے پینے کو کیا ملے گا”

“چینی عورت اپنے پاؤں اپنے شوہر کے سوا کسی کو نہیں دکھاتی تھی، اور انہیں چھپائے رکھنے میں  صحیح  اہتمام کرتی جو دوسری اقوام کی عورتیں اپنی چھاتیاں چھپانے میں کرتی ہیں، بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ کسی نامحرم نے اتفاق سے کسی عورت کے پاؤں دیکھ لئے اور عورت نے مارے شرم کے خود کشی کر لی۔ عورتوں کے ننھے منّے پاؤں چینیوں کے لئے بے پناہ جنسی کشش کا سامان رکھتے تھے کیونکہ اس سے چلتے وقت بوجھل کولہوں میں نفس پرور تموج پیدا ہوتا تھا اور سرین کا ابھار نمایاں ہو جاتا تھا۔ ”

“دوسری معاصر اقوام کی طرح قدیم ہندوؤں میں بھی مذہبی عصمت فروشی کو فروغ حاصل ہوا، مندروں میں سینکڑوں نوجوان دیوداسیاں پروہتوں اور یاتریوں کی تسکین ہوس کیا کرتی تھیں، پروہتوں نے لوگوں کو اس بات کا یقین دلا رکھا تھا کہ جو شخص اپنی بیٹی دیوتا کی بھینٹ کرے گا، سؤرگ میں جائے گا، چنانچہ راجے اور امراء اپنی بیٹیاں مندروں میں  وقف کر دیتے تھے۔ ان لڑکیوں کو رقص و سرور کی تعلیم دلائی جاتی تھی۔ دیوداسیاں صبح شام دیوتاؤں کی آرتیاں اُتارتی تھیں اور گاتی بجاتی تھیں۔ یاتری معاوضہ دے کر ان سے مستفید ہوتے تھے۔ عصمت فروشی کی یہ کمائی پرہتوں کی جیب میں جاتی تھی۔”

“دیوتاؤں سے نہایت شرمناک قصے منسوب کئے گئے، مثلاً ایک رشی کی لڑکی نے سورج دیوتا کو بلانے کا منتر پڑھا۔ دیوتا نے کہا تم نے مجھے کیوں بلایا، لڑکی بولی میں نے آزمائش کے لئے یہ منتر پڑھاتھا۔ دیوتا بولا اب تو میں آ ہی گیا ہوں، اپنی یادگار چھوڑ جاؤں گا۔ لڑکی ججھجکی تو دیوتا نے کہا، اے نازنین! مت ڈر، تیری دوشیزگی کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔ اس اختلاط سے کرن پیدا ہوا، جو مہا بھارت کی جنگ میں پانڈوؤں کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا۔ یہ لڑکی پانڈو بھائیوں کی ماں کنتی تھی۔”

“کسی مذہب کے احیاء کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ مذہب، بحیثیت ایک فعال قوت کے ختم ہو چکا ہے۔”

“سولن کے ضابطہ قانون میں کاہلی اور بے کاری قانونا ً جرم تھی۔ اس نے ایک قانون یہ بنایا کہ جو شخص اپنے ملک کا دفاع کرتے ہوئے مارا جائے، اس کی بیوی بچوں کی کفالت ریاست کو کرنا ہو گی۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ ایک اچھی ریاست کی تعریف کیا ہو گی تو اس نے جواب دیا “جس میں عوام حکام کے تابع ہوں اور حکام قوانین کا احترام کریں۔” وہ جانتا تھا کہ صرف قوانین بنانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ان پر عمل کرانا بھی ضروری ہے۔ اس کا قول ہے کہ “قانون مکڑی کا جالا ہے جو ننھے منے پتنگوں کو پکڑ لیتا ہے لیکن بڑے بڑے کیڑے اور بھنورے اسے توڑ کر صاف نکل جاتے ہیں۔” جب اسے ڈکٹیٹر بننے کے لئے کہا گیا تو وہ بولا “ڈکٹیٹری بلاشبہ ایک بلند مقام ہے لیکن افسوس کہ اس سے نیچے اترنے کا کوئی راستہ نہیں ہے”

Advertisements
julia rana solicitors

“جب برہمن کہتے ہیں کہ دیوتا پر بھینٹ کیا ہوا جانور سیدھابہشت کو جاتاہےتو وہ اپنے والدین کی قربانی کیوں نہیں دیتے کہ وہ سیدھے بہشت کو چلے جائیں۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply