سید علی عباس جلال پوری کی 22ویں برسی۔۔اسلم ملک

محقق، مورخ، نقاد اور فلسفے کے استاد سید علی عباس جلال پوری کی آج 22 ویں برسی ہے۔
وہ 19اکتوبر1914 کو جلال پور شریف ضلع جہلم میں پیدا ہوئے اور 7 دسمبر 1998 کوجلال پور شریف میں ہی وفات پائی۔
ان کی کتابوں روحِ عصر، روایات فلسفہ، اقبال کا علمِ کلام، عام فکری مغالطے، مقامات وارث شاہ، مقالاتِ جلالپوری، روایاتِ تمدنِ قدیم، تاریخ کا نیا موڑ اورخرد نامہ جلالپوری نے خرد افروزی میں اہم کردار ادا کیا ۔
سید علی عباس جلال پوری کے والد کا نام سید سیدن شاہ تھا جو ڈنگہ کی عدالت میں منصف تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ تھا، عربی و فارسی میں مہارت رکھتے تھے۔

سید علی عباس جلال پوری کہتے تھے میں ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں علم و حکمت کا چرچا تھا۔ ہمارے ہاں کم وبیش تمام ادبی رسائل آتے تھے۔ میں ساتویں جماعت میں تھا کہ بچوں کے رسالے ” پھول“ کے ساتھ ساتھ“ ہمایوں” ،“زمانہ” وغیرہ میں چھپے ہوئے افسانے بھی پڑھنے لگا تھا۔ ان کے علاوہ خواجہ حسن نظامی، راشد الخیری اور نذیر احمد دہلوی کی کتابیں بھی نظر سے گزرنے لگی تھیں۔
1931ء میں سندر داس ہائی اسکول ڈنگہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ انٹر کالج گجرات میں پڑھنے لگے۔ ان کے مضامین میں فلسفہ، انگریزی، تاریخ اور فارسی شامل تھے۔ 1934ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا۔ ان کے اساتذہ میں مسٹر گیرٹ، مسٹر کھنہ، مسٹر ڈکنسن، مسٹر ھیچ اور پطرس بخاری شامل تھے ۔

ابھی بی اے میں زیر تعلیم تھے کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔بی اے کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور آبائی وطن جلالپور شریف سدھار گئے۔ان کے بچپن کے استاد خدا بخش کشمیری نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ بی ٹی کا کورس کرکے مدرس ہو جائیں اور سلسلہ حصول علم بھی جاری رکھیں۔ اس پر جلالپوری نے45-1944ء میں گورنمنٹ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا کورس کیا۔ دوران تعلیم اپنے مہربان بزرگ سید کرم شاہ کے ہاں مقیم رہے۔ یہاں موسیقی کی محافل بپا رہتی تھیں۔ ایک پنڈت جی سے وائلن بجانا بھی سیکھا ۔ راگ ایمن، بھیرویں اور درباری خاص طور پر پسند کرتے تھے۔ ملکہ ترنم نور جہاں اگرچہ اس وقت کم سن تھیں مگر گائیکی میں توجہ جذب کرتی تھیں ۔ ان کا ذکر انہوں نے اپنے مضمون ” یادوں کے چراغ“ میں کیا ہے جو ” فنون“ میں شائع ہوا۔ خواجہ خورشید انور ان کے ہم جماعت تھے۔ جلالپوری کہا کرتے تھے’’ اگر میں فلسفی نہ ہوتا تو موسیقار ہوتا‘‘۔

بی ٹی کرکے بطور مدرس ملازمت کا آغاز کیا۔ پنڈ دادن خان، چکوال، بوچھال کلاں اور پنڈی گھیب میں خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ انسپکٹر اسکولز بھی رہے. 1945ء میں شہزادی بیگم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ جلالپوری نے دوران ملازمت 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا اور بطور لیکچرار ایمرسن کالج ملتان میں تعینات ہوئے۔ 1954ء میں ایم اے (فارسی) میں کامیابی حاصل کی ، گولڈ میڈل کے حقدار ٹھہرائے گئے لیکن ان کا اصل موضوع فلسفہ تھا، مشہور زمانہ فلسفی ول ڈیوراں کے ساتھ ان کی خط کتابت بھی رہی۔ اس کی تاریخ کی کتاب شائع ہوئی تو جلالپوری نے اس میں اغلاط کی نشان دہی کی، ول ڈیوراں نے ان اغلاط کا جائزہ لیا اور اقرار کیا کہ وہ اگلے ایڈیشن میں ان اغلاط کو درست کردیں گے۔ اس خط کا عکس ” مکاتب علی عباس جلالپوری“ میں دیا گیا ہے۔ 1958ء میں جلالپوری ایم اے فلسفے کے امتحان میں بھی اول آئے۔ میونخ یونیورسٹی جرمنی سے انہیں پی ایچ ڈی کے وظیفے کی دعوت آئی۔ مگر بیوہ ماں اور بیوہ بہن کے چار بچوں کی کفالت ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ تھی۔ 1956ء میں ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج فار بوائز سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں ہوگیا۔ اس ادارے میں انہوں نے اپنے تصنیف کردہ ڈرامے سٹیج کروائے۔ “یادوں کے سائے” نامی ڈراما محفوظ رہ گیا ہے۔ منور سعید اور دلدار پرویز بھٹی ان کے طلبہ میں سے تھے۔

سید علی عباس جلال پوری کا پہلا افسانہ دسویں جماعت میں”ہمایوں“ میں چھپا تھا۔ بی اے کرچکے تو ان کے افسانے اور مضامین ” ہمایوں“ میں باقاعدہ چھپنے لگے، کچھ عرصہ شعر و شاعری کا شوق بھی چرایا لیکن ان کے استاد پطرس بخاری نے انہیں علمی کام کرنے کی تلقین کی غالباً اسی لئے ان کے افسانے اور شاعری محفوظ نہیں۔ ادبی دنیا کے مدیر مولانا صلاح الدین نے بھی انہیں علمی کام کرنے کا مشورہ دیا۔ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر، رشید جہاں، ڈاکٹر تاثیر، فیض احمد فیض جیسی شخصیات میاں افتخار الدین کے گھر اکٹھی ہوتیں تو جلالپوری بھی ان کی محفلوں میں شرکت کرتے۔ سب کی فرمائش پر انہوں نے مارکسزم پر اپنا مقالہ پڑھا۔ لیکن تحقیق ، مسلسل اقتباسات نوٹ کرنے اور تصنیف و تالیف سے ان کی سماجی زندگی محدود ہوتی چلی گئی۔ ان کے اقتباسات پر مبنی 15000 صفحات کی نوٹ بکس موجود ہیں جو سیکڑوں کتابوں کا نچوڑ ہیں۔

گوجرانوالہ میں رہائش کے دوران انہوں نے اقبال کو فلسفی کی بجائے متکلم ثابت کیا۔ یہ مضمون ” ادبی دنیا“ اور ” فنون“میں شائع ہوئے تو اہل قبہ و جبہ کی مخالفت کا طوفان اٹھہ کھڑا ہوا۔ کفر و زندقہ کے فتوے لگے مگر صاحبزادہ فیض الحسن شاہ نے یہ فتوے واپس کرائے اور جلالپوری کے ایک کزن ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سید حسنات احمد نے ان کا تبادلہ24 اگست 1967ء کو سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور کروادیا ۔ 1972ء میں وہ ریٹائرڈ ہوگئے۔
1973ء میں نجم حسین سید، آصف خان، راجہ رسالو، سید سبط الحسن ضیغم اورسید علی عباس جلال پوری نے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پنجابی شعبے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔
79-۔1978ء میں وہ جلالپور واپس تشریف لے گئے۔ 1984ء تک کائنات اور انسان، خرد نامہ جلالپوری، رسوم اقوام، میرا بچپن اور لڑکپن، پریم کا پنچھی پنکھ پسارے(ناولٹ)، پنجابی محاورے اور سبد گل چیں مکمل کیں۔

14 جون 1984ء کو ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ داہنے ہاتھ میں رعشہ ہوگیا تو تصنیف و تالیف سے ناتا ٹوٹ گیا۔زندگی کے آخری چودہ سال اس بیماری میں گزارے.
1986ء میں پاکستان پنجابی ادبی بورڈ نے انہیں ایوارڈ سے نوازا۔ ان کی دو کتابیں “وحدت الوجود تے پنجابی شاعری” اور ” وڈکیاں دی سوجھہ”پنجابی ادبی بورڈ نے شائع کی تھیں۔ 1989ء میں انہیں تحریک خرد افروزی کے لئے اعلیٰ پائے کی تصانیف تحریر کرنے پر ایوارڈ سے نوازا کیا۔ یہ ایوارڈ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے دیا تھا۔ دونوں ایوارڈ وصول کرنے کے لئے ان کے بڑے صاحبزادے پرنسپل ( ر) سید حامد رضا تشریف لے گئے۔ اس سے قبل ” مقامات وارث شاہ“ انہیں آدم جی پرائز کے لئے نامزدکیا گیا تھا۔ کئی ادبی شخصیات نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کے باوجود جلالپوری صاحب نے سرمایہ دار نمائندہ سےانعام وصول کرنے سے انکار کر دیا۔
وہ کہتے تھے ’’دنیا میں ایک چیز ایسی ہےجس کیلئے میں جان بھی دے سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے کوئی دبا نہیں سکتا، نہ نظرئیے سے، نہ باتوں سے،نہ کسی قسم کے رعب سے، جب سے ہوش سنبھالا ہے باغی ہوں ‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ملاحظہ فرمائیں سید علی عباس جلال پوری کی کتابوں کا مختصر تعارف
روح عصر( 1969ء)
اس میں انسانی ذہن کے ارتقاء، سائنسی طریقہ تحقیق، اوہام اور اساطیری قصوں کے پس منظر کے تاریخی حالات کا جائزہ، مسلسل بدلتی کائنات اور شعور کی ترقی کے ساتھہ عصر حاضر میں انسانی مقام کا جائزہ لیا گیا ہے
مقامات وارث شاہ( 1972ء)
وارث شاہ کی ادبی حیثیت ، پنجاب کے رسوم و رواج، سماج میں پھیلی کدورتوں، استحصال، کسانوں کی امنگوں، تمناؤں اور ارمانوں کی آئینہ دار ہے۔ اس کتاب کا انتساب ” جیالے کسانوں کے نام“ ہے۔
روایات فلسفہ(1969ء)
فلسفے کو عام قاری کے لئے آسان ترین انداز میں پیش کیاگیا ہے ۔ وجودیت، جدلی مادیت، نو فلاطونیت، موجودیت، تجربیت، مثالیت پسندی، ارتقایت، روایات فلسفہ کے اہم موضوعات ہیں۔
اقبال کا علم کلام (1972ء)
اس میں “ادبی دنیا” میں چھپنے والے مضامین ہیں۔ مسلمان معاشرے کے جمود کی بڑی وجہ شخصیت پرستی کو قرار دیاگیا ہے ۔ اقبال خود کو فلسفی کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے مگر احباب تھے کہ بزور منوانے پر تلے رہتے تھے۔ جلالپوری نے ان کے اشعار، افکار، خطوط، خطبات، احیائے العلوم
( غزالی کی تصنیف) سے دلائل دے کر ثابت کیا ۔
عام فکری مغالطے(نومبر1985ء)
یہ کتاب اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے۔ اس میں ان فکری مغالطوں کا رد کیا گیا ہے:
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔
بے راہ روی کا نام آزادی ہے۔
ماضی کیسا اچھا زمانہ تھا۔
فلسفہ جاں بلب ہے۔
انسانی فطرت ناقابل تغیر ہے۔
وجدان کو عقل پر برتری حاصل ہے۔
دولت مسرت کا باعث ہوتی ہے۔
تصوف مذہب کا جزو ہے۔
عشق ایک مرض ہے۔
اخلاقی قدریں ادبی و ابدی ہیں۔
عورت مرد سے کہتر ہے۔
فن برائے فن کار ہے۔
انسان فطرتاً خود غرض ہے۔
ریاست اور مذہب لازم و ملزوم ہیں۔
مقالات جلالپوری(1969ء)
اس میں غالب کے فکروفن، جمالیات، کلام منقبت، فرائڈ، ژونگ کے نظریات، خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری، کافکا اور فن و فلسفہ سے متعلق 13تحقیقی و منطقی مقالہ جات ہیں۔
تاریخ کا نیا موڑ (1984ء)
اس میں انسان کی ابتدا اور بتدریج ترقی کو جامعیت سے بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح انسان حالات و حادثات کا جبر توڑتے ہوئے مختلف ادوار سے گزر کر موجودہ سائنس کے دور میں داخل ہوا.
کائنات اور انسان(1989)
اس کتاب میں انسانی سوچ کا ارتقا فلسفیانہ اندازمیں پیش کیا ہے۔ روحوں کا مت کیا ہے، جادو ٹونے کیسے وجود میں آئے، دیومالائی قصے کہانیوں کے اثرات، مذہب اور فلسفے کے مختلف پہلو، منطقی انداز میں سمجھائے ہیں.
روایات تمدن قدیم (1991ء)
اس کتاب میں نمایاں تہذیبوں کا جائزہ جڑوں تک کھود کر پیش کیا گیا ہے۔ عراق، مصر، کنعان، بنی اسرائیل، یونان، ایران، ہند، چین، اس میں شامل ہیں، ان تہذیبوں کا آغاز، رسوم، طبقات، تفریحات، مذاہب، نظریات، انکشافات، جنگیں، اشتمالیت کے تصورات، خیر و شر کی آویزش، توہمات، جادو ٹونے وغیرہ کے باہمی تعلق اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات کا جامع تجزیہ پیش کیا گیا ہے
جنسیاتی مطالعے(1991)
ہمارے معاشرے میں جنس پر بات کرنا ممنوع بلکہ گناہ سمجھا جاتا ہے، اس کتاب میں جلالپوری نے سائنسی طرز تحقیق سے والدین اور نوجوانوں کو اہم معلومات بہم پہنچائیں۔
رسوم اقوام( 1993ء)
اس کتاب میں مصری، یونانی، ہندی، عراقی، چینی اور دیگر اقوام کی رسوم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مثلاً بچے کی پیدائش ، موت، شادی، موسموں، مذہبی تہواروں، اجداد پرستی اور تفریحات وغیرہ کی رسومات، انسانی نفسیات کا بتدریج اتار چڑھاؤ ، خوف، نفسیاتی الجھنیں، احساس کمتری، چڑچڑا پن، عدم برداشت و عدم توازن کے رویے بیان کئے گئےہیں۔
خردنامہ جلالپوری(1993ء)
اس کتاب کے بارے میں سید علی عباس جلالپوری کہتے ہیں کہ انہوں نےBayleکی طرح علمی اور تحقیقی نقطہ نظر سے اس لغات کی تدوین کی ہے۔ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن و دماغ کو روشن کیا جائے اور انہیں تنگ دلی و تنگ نظری سے نجات دلاکر ایسی معلومات بہم پہنچائی جائیں کہ نگاہ میں وسعت اور ذہن و قلب میں کشادگی پیدا کی جائے اور وہ انفرادی و اجتماعی مسائل کا جدید سائنس اور جدید فلسفے کی روشنی میں سامنا کرسکیں.
وحدت الوجود تے پنجابی شاعری
لاہور میں قیام کے دوران یہ کتاب پنجابی ادبی بورڈ نے شائع کی تھی۔ اس کتاب میں تصوف کے آغاز، سفر، شخصیات، موضوعات، مشہور صوفی شعرا اور ان کے کلام سے بحث کی گئی ہے۔ مشرقی پنجاب میں یہ گورمکھی رسم الخط میں شائع کی گئی.
وڈکیاں دی سوجھ
یہ مختصرکتاب سید سبط الحسن ضیغم کی فرمائش پر لکھی۔ اس کتاب میں دنیا کی اعلیٰ علمی شخصیات کی تخلیقات کے چیدہ چیدہ اقتباسات کا پنجابی ترجمہ شامل ہے۔
پریم کا پنچھی پنکھ پسارے (2011ء)
اس مختصر ناولٹ کو اُن کی بیٹی پروفیسر لالہ رخ بخاری نے اپنے ناول خواب ہوئے مہتاب کے ساتھ شائع کیا، جلالپوری کا یہ ناولٹ محبت کی ایک ایسی کہانی ہے جو ذات پات، قوم و مذہب، اونچ نیچ کی تمام جکڑ بندیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔
مکاتیب سیدعلی عباس جلالپوری( 2013ء)
اس کتاب میں اُن کے وہ خطوط شامل ہیں۔جو انہوں نے دوران ملازمت دور دراز مقامات سے اپنی بیگم اور بچوں کو تحریر کیے تھے۔اس میں دیگر افراد کےنام بھی شامل ہیں۔مثلاً جگتار سنگھ، احمد ندیم قاسمی، سید سبط الحسن ضیغم، مشتاق احمد، پروفیسر ظفر علی خان، سید محمد کاظم اور ول ڈیوراں۔
علی عباس جلالپوری پاکستان میں خرد افروزی کی تحریک کے رہنما تھے۔ انہوں نےخرد افروزی (enlightenment)کے عناصر ترکیبی یہ بتائے ۔
سائنس اور فلسفے کو مذہبی تحکم سے نجات دلانے کی کوشش کرنا
انقلابیت،عقلیت پسندی ،یا سائنسی علوم کی روشنی میں معاشرے کو از سر نو مرتب کرنے کی کوشش کرنا
مذھبی منافرت اور جنون کا انسداد
انسان دوستی کا فروغ. علی عباس جلالپوری زندگی بھر ان مقاصد کے لیے کام کرتے رہے
[ وکی پیڈیا، پاکستان کرونیکل، انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا سے استفادہ ]

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply