اگر مسئلہ کشمیر نہ ہوتا۔۔۔۔جبران عباسی

سامراجی قوتوں نے پچھلی تین چار صدیوں میں دنیا کے ہر کونے کو اپنی کالونی بنایا، جزائر غرب الہند کے جزیروں سے لے کر ساحلی افریقہ اور اندرونی جنگلوں کی تہذیبوں تک بھی بارود کی آواز اور بو پھیلی ۔ پھر ایشیا جیسا مال دار ، خوشحال براہِ اعظم اپنے پورے کا نصف انگریزوں ، پرتگیزیوں ، فرنچ کی مقبوضات میں شامل ہو گیا۔

کالونیل ماسٹروں نے اپنی کالونیوں کا خوب استحصال کیا ، سیاسی عدم استحکام اور انارکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تجارتی اجارہ داریاں قائم کیں۔ رفتہ رفتہ سیاسی طور پر اپنی حکومتیں قائم کرنا شروع کر دیں۔ کالونیل ایرا کی ترغیب کو اس وقت فروغ ملا جب امریکہ اور ہندوستان جیسے وسائل سے بھرپور اور امیر خطے بھی ان کی جھولیوں میں جا گرے۔،

بہرحال ماسٹروں کو کالونیل کالجوں سے رخصتی لینی پڑی ، اگرچہ کچھ وراثت میں بھی دینا تھا سو وہ یہ دیتے گئے کہ پڑوسی ملکوں سے تعلقات میں خرابی ، فالٹ لائنس کو پیدا کرنا، زمینوں کے تنازعات ، تقسیم کی پالیسی ، اور منہ زور عسکری ادارے اور کمزور جمہوری ریاستیں جو جھک سکیں یا جھکائی جا سکیں ۔ ہم انھیں کامن ویلتھ اثاثہ بھی کہہ سکتے ہیں اگرچہ کرکٹ اور مختلف گیموں کیلئے  ذہن سازی کی ، ترقی کے ماڈلز فراہم کیے ، بڑی بادشاہتوں کو ختم کیا اور چھوٹی مگر جابر ریاستوں کو سنٹرلائز کیا ، وفاق کی تشکیل دی جس کو چلانے کیلئے عوام کا متحد ہونا لازمی شرط ہے ۔ اور عوام بھی سنٹرلائز ہوئی ( محب وطنی )۔۔۔۔۔۔

کشمیر کے بہت سے سیاسی نقشے ہیں ، اول پاکستان کا سیاسی نقشہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے سٹیٹس پر مبنی ہے ۔ انڈیا میں حالیہ ایک نیا دوسرا نقشہ بنایا گیا ہے ہندوستانی کشمیر اور مقبوضہ کشمیر بمعہ گلگت بلتستان ایسی صورت میں ایل او سی کا کیا سٹیٹس رہ جائے گا ابھی تک ہندوستان نے واضح نہیں  کیا،۔ اگر ہندوستان اسے بین القوامی بارڈر قرار دے گا تو یہ ہندوستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کا آخری حل پیش ہو گا ،پھر اور کوئی حل نہیں  کہ ہندوستانی کشمیر اور پاکستانی کشمیر ۔ یعنی تقسیم پنجاب اور بنگال کی طرح تقسیم کشمیر۔ شاید ہندوستان ،ہندوستانی کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی دلیل دے مگر اس کا یہ موقف انتہائی کمزور اور بھونڈا مذاق تصور کیا جائے گا ۔، تیسرا نقشہ ابھی واضح نہیں بن پا رہا یہ اس وقت واضح ہو گا جب ہندوستان لائن آف کنٹرول پر واضح موقف اختیار کرے گا ۔ یہ بات اور ہے ہندوستان کی کشمیر پالیسی اول  روز سے ہی بددیانتی اور قبضے والی تھی ۔ وجہ جغرافیائی مفادات ۔،

ان سیاسی نقشوں کے بیچ میں ہی کہیں امن کشمیر ڈھونڈنا پڑتا ہے جس کا نقشہ شاید کبھی نہ  بن پائے کیونکہ آزادی ایک ایسی تحریک کا نام ہے جو ہمیشہ بڑے فیصلوں سے بغاوت کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اور بغاوت تشدد کی راہ ہموار کرتی ہے جو پچھلے چالیس سالوں سے کشمیر میں جاری ہے ، تشدد کو دبایا جا سکتا ہے ختم نہیں کیا جاسکتا، تو یہ لازمی ہو گا تشدد کی وجوہات کو درست کیا جائے ۔،

پاکستان نے اب تک جتنے بھی اقدامات کیے وہ شارٹ ٹرم ہیں ، اجے بساریہ کو ایک دن واپس بلانا ہو گا ، اپنے ہائی کمشنر کو بھیجنا ہو گا ، ٹریڈ کو بحال کرنا ہو گا وغیرہ وغیرہ کیونکہ ہمارے کئی اہم سفارتی پروگرامز ہیں جو مسئلہ کشمیر سے ہٹ کر ہیں ، یہ اقدامات محض سفارتی مذمت ہے ،اگرچہ اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں مگر ان سے کسی بڑے مسئلے کا حل ممکن نہیں ۔ لانگ ٹرم انکاونٹر کیلئے پاکستان کو عالمی عدالت سے رجوع کرنا ہو گا اگرچہ شملہ معاہدہ پابند کرتا ہے ، یہ اندرونی معاملہ ہے مگر اب شملہ معاہدے کی بذاتِ خود معاہدہ لکھنے والے نے خلاف ورزی کر دی ہے، ۔ پاکستان ایل او سی  پر ایل او سی کا سٹیٹس برقرار رکھے ۔ ،اقوام متحدہ میں انسانی حقوق پر بھی آواز اٹھانی چاہیے ، کھلی جیل کشمیر میں انسانی حقوق بشمول معلومات تک رسائی ، آزادی اظہار رائے ، اجتجاج سب پر پابندی ہے ۔ ،ہندوستانی سرکار ایک طرف پروپیگنڈا کر رہی ہے ،کشمیری عوام اس فیصلے سے خوش ہیں اور اب کشمیر نارملائزیشن کی طرف جا رہا ہے دوسری طرف شہروں میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے، ۔ یقیناً انسانی حقوق شدید متاثر ہو رہے ہیں ۔

ایک نقشہ جس میں کشمیر کا مسئلہ حل ہو یقیناً قابل ستائش ہو گا، ۔ یہ نقشہ دو حریف ملکوں کے درمیان تعلقات میں زبردست بہتری لائے گا ۔ اشرف غنی نے سلیم صافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہندوستان اور افغانستان بے شمار اختلافات کے مابین ایک عظیم مشترکہ پروگرام پھر بھی رہبر کر سکتے ہیں ،وہ ہے غربت کے خاتمے کا پروگرام ۔ تینوں جمہوریتیں شدید غربت سے متاثر ہیں نتیجتاً بےشمار جرائم کا گڑھ بن گئیں ہیں۔ ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی والے ان تین ممالک میں کم از کم ایک ارب انسان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہ ہیں ۔ معاشی اکنامکس ریجنل زون اب تک محض ایک خواب ہے اگر یہ قائم ہو جائے آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیومن ریسورس کیپٹل کے نیٹ ورک کا حصہ بن جائے گا ، آپس میں شراکت داریاں قائم ہوں گی ، دوبئی یا لندن ، پیرس سے زیادہ ہمارے ریجنل ادارے اور بنک بھروسہ مند اور امیر ترین ہو جائیں گی ۔ مشترکہ مارکیٹ سامنے آئے گی ، دونوں ملک ایک دوسرے کی ضروریات کے تحت پیداوار کو ممکن بنائیں گے، جس سے امپورٹ اور ایکسپورٹ عین ممکن ہے  علاقائی کرنسی میں ہو جو امریکن اجارہ داری کو چیلنج کرے جیسا کہ آسیان سٹیٹس ، یورو ، چینی مصنوعات ، جاپانی ٹیکنالوجی اور پاک ہند ، افغان ایران ، بنگلہ یا سری لنکا کا یہ اتحاد ہیومن ریسورس کا سب سے بڑا نیٹ ورک بنائے گا جو لاکھوں نئے سٹارٹ اپ کی شروعات کرے گا۔،

Advertisements
julia rana solicitors london

خواب ہے شاید خواب ہی رہے، سچائی یہ ہے کہ  یہ ممالک ہمیشہ کنفلکٹ زون میں رہنا پسند کرتے ہیں اپنے اپنے نام نہاد نظریات اور تعصبات کے سبب ۔ بےاعتمادی کی ایسی فضا قائم ہے کہ جاسوس کبوتر بھی خبروں کی زینت بنتا ہے ، نفرتوں کا بازار گرم ہے جہاں نظریوں کی رشوت عام ہے ۔ گلزار مرحوم ، خوش ونت سنگھ ، کلدیپ اور ہزاروں امن پسندوں کا یہ خواب شاید اس دن پورا ہو جائے جس دن کشمیر کی وادی میں گولی کے خالی کھوکھے میں امن کا ایک بیج پھوٹے گا کشمیری عوام کے لہو سے سینچ کر۔۔

Facebook Comments

جبران عباسی
میں ایبٹ آباد سے بطور کالم نگار ’’خاموش آواز ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ مختلف اخبارات کیلئے لکھتا ہوں۔ بی ایس انٹرنیشنل ریلیشن کے دوسرے سمسٹر میں ہوں۔ مذہب ، معاشرت اور سیاست پر اپنے سعی شعور و آگہی کو جانچنا اور پیش کرنا میرا منشورِ قلم ہے ۔ تنقید میرا قلمی ذوق ہے ، اعتقاد سے بڑھ کر منطقی استدلال میری قلمی میراث ہے ۔ انیس سال کا لڑکا محض شوق سے مجبور نہیں بلکہ لکھنا اس کا ایمان ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply