• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تبالہ: جزیرہ عرب کے تہذیبی ورثے کا قدیم ترین گاؤں۔۔منصور ندیم

تبالہ: جزیرہ عرب کے تہذیبی ورثے کا قدیم ترین گاؤں۔۔منصور ندیم

سعودی عرب کے جنوب میں بیشہ ضلع کے شمال مغرب میں 48 کلو میٹر کی دوری پر واقع گاؤں “تبالہ” جزیرہ عرب کے ان قدیم ترین تاریخی دیہات میں سے ایک ہے۔ جہاں قبائل نے سکونت اختیار کی تھی اور آج تک ہے۔ یہ مقام اپنے اندر تہذیبی اور تاریخی ورثے کو سموئے ہوئے ہے۔ “تبالہ” مکہ اور یمن کے مابین ایک ربط تھا اور یہ قدیم زمانوں سے ہی تجارتی سامان اور حجاج کے قافلوں کے لیے راہ گزر کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔

اس گاؤں کی تاریخی حیثیت زمانہ قبل از اسلام سے موجود ہے، زمانہ قبل از اسلام کے مشہور شعراء عمرو القیس، عمر بن معاذ کارب ، طرفا بن العبد ، الشفنری الازدی ، ظہیر بن ابی سلمہ ، اور دیگر کی شاعری و قصائد میں بھی “تبالہ” کا تذکرہ کیا گیا۔ بعد از اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی رسول جریر بن عبد اللہ البجالی کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے “تبالہ” بھیجا تھا، اس وقت یہاں کے حاکم اور اس کے ساتھیوں نے بھی صحابی رسول “جرير بن عبدالله البجلي” کے ہاتھوں اسلام قبول کرلیا تھا۔

تبالہ کی آثار قدیمہ کی خصوصیات میں سے ایک تیرہویں صدی ہجری کے اوائل میں اس وقت کے گورنر شالان بن صالح کا محل ہے، پہلی سعودی ریاست کے عہد کے دوران، فازہ قبیلے کے ایک رکن ، “شالان بن صالح” ، نے اس علاقے کی امارت کا اقتدار سنبھالا تھا۔ شالان محل “شاہان بن صالح” نے تعمیر کروایا تھا اور “تبالہ” کی ایک اہم آثار قدیمہ کی عمارتوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے ۔

یہ محل سنہ ہجری 1213 (آج سے قریب 220 برس قبل) میں امام عبد العزیز بن محمد بن سعود کے جھنڈے تلے بِیشہ اور تبالہ میں پہلی سعودی ریاست کے دور میں تعمیر ہوا تھا۔ سنہء ہجری 1230 میں مصر کے حکمران محمد علی نے اسے مسمار کیا تھا ، اس کے بعد محمد علی کی فوج نے سنہ ہجری 1230 کے شروع میں بیسل کی مشہور لڑائی میں عبداللہ بن سعود کی عظیم فوج کو شکست دی ، جب محمد علی اس جنگ کی فتوحات کے بیشہ سے گزرا تو اسی سال صفر کے مہینے کی تیرہویں تاریخ کو اس نے شالان بن صالح کے محل کا محاصرہ کیا ، اور محل پر توپ خانے سے بم پھینکنا شروع کر دیئے یہاں تک کہ اس کی بیرونی دیوار میں بے شمار سوراخ ہوگئے۔ اور پھر اس نے اپنی 1000 سپاہ کے ساتھ مل کر شالان بن صالح کو ساتھیوں سمیت مار ڈالا۔ جو اس وقت محل کے اندر محصور ہوگئے تھے، اور پھر جب عثمانی ترک تبالہ آئے تو وہاں مزاحمت ہوئی جو ایک مہینے سے زیادہ عرصہ جاری رہی، ترکوں نے مہلک توپوں کا استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔

تبالہ وادی بیشہ کی شاخوں میں سے ایک ہے ، اور اس گھاٹی پر مزید متعدد دیہات اور شہر آباد ہیں ، جن میں سب سے اہم سبائیہی ہے ، جو وادی تبالہ کے منہ میں واقع ہے۔ وادی بیشہ اور اس کے بعد ال تھانیا کا مرکز ، اور اس کے بعد تبالا کا مرکز ، پھر سراوت پہاڑوں میں البدایہ کا مرکز ، اور اس کے بعد ال عالیہ گورنریٹ اور سراوت میں وادی تبلہ کی شاخوں پر واقع دیہات سے بھی پہاڑوں میں اجبہ ، شوق ، باشوت ، شفق بلقرن ، اور پھر ، اور الحرجہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تبالہ گاؤں میں سحر انگیز قدرتی جمال نظر آتا ہے۔ یہاں کی اراضی کی نوعیت ایسی ہے جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ گاؤں کے اطراف پہاڑوں کی موجودگی ہے۔ کھجور کو تبالا کے لوگوں کے لئے ایک نشان اور علامت سمجھا جاتا ہے، جو پانی کی وجہ سے ہے، اور انتہائی دلکش قدرتی مناظر کا حسن، یہاں کے آس پاس کے پہاڑی سلسلوں کی وجہ سے ہے جو اس گاؤں کے چاروں طرف ہیں، اس کے سب سے مشہور پہاڑوں میں جبل الغرابہ، جبل السودہ، جبل العيزا اور جبل الحامر جبل العائزہ شامل ہیں۔ تبالہ گاؤں کھجور، گندم، جو مکئی اور تمام اقسام کی سبزیوں کی کاشت کے سبب مشہور ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لیمو، موسمی، انار، انجیر، انگور اور امرود کی زراعت بھی ہوتی ہے۔ یہاں کا مقامی رنگ آج بھی قدیمی طرز کا ہی ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply