• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایران میں ولایتِ فقیہ اور کورونا وائرس(دوسرا،آخری حصہ )۔۔حمزہ ابراہیم

ایران میں ولایتِ فقیہ اور کورونا وائرس(دوسرا،آخری حصہ )۔۔حمزہ ابراہیم

نوٹ:اس مضمون کو ایران کی حکومت کے اور ایرانی قوم کے معاملات میں دخل اندازی نہ سمجھا جائے،یہ ایک علمی مضمون ہے جو نیک نیتی سے لگایا جارہا ہے،تاکہ اس موضوع پر صحت مند ،علمی مکالمہ وجود میں لایا جاسکے،ہمیں خوشی ہوگی اگر کوئی اور نکتہ ء نظر اس موضوع پر سامنے آئے اور علمی انداز میں پیش کیا جائے،ہم ایسا مضمون ضرور لگائیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام کو ریاست قرار دینے میں مسئلہ کیا ہے؟

اسلام کو ریاست قرار دینے سے ایک بہت بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ کئی مقامات پر ریاست کا مفاد شریعت کی صریح نصوص سے ٹکرا رہا تھا۔ اس تضاد کا حل پچھلی تفسیر کو بدلنے کے بجائے اس پر ایک نئی تفسیر کی بنیاد رکھ کے نکالا گیا جس کے مطابق اسلام کے احکام کو اسلام پر فدا کیا جا سکتا ہے۔یہ خیال جادو کی چھڑی ثابت ہوا۔ اس جملے کو اسلام کو مذہب کے بجائے ریاست قرار دینے کے تصور سے ملا کر دیکھا گیا تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ ولی فقیہ اگر اسلام کے کسی حکم کو ریاست کے مفاد سے ٹکراتا دیکھے تو ریاست کے مفاد کو ترجیح دے کر اس حکم کو معطل کر سکتا ہے۔ اس نئے نظریے کا نام ”ولایتِ مطلقہٴ فقیہ“ رکھا گیا۔

اس نئی تفسیر سے نئی ریاست کی بہت سی عملی مشکلات حل ہو گئیں۔ مثلاً سود، جسے قرآن میں خدا و رسول سے جنگ قرار دیا گیا ہے، کا نام بدل کر ریاست کے مفاد میں اسے جاری رکھا گیا۔ وطن عزیز میں مفتی تقی عثمانی صاحب بھی اسی قسم کے شرعی حیلے تراش کر ”اسلامی بنکاری“ کے موضوع پر کتابیں لکھ چکے ہیں۔سلفی مسلک سے تعلق رکھنے والی داعش چونکہ  یونانی منطق پر استوار فقہ کو قبول نہیں کرتی، لہذا وہ یہ  فقہی حیلہ نہ سوچ سکے۔ ایران اور داعش میں بنیادی فرق اسی ”ولایتِ مطلقہٴ فقیہ“ کا ہے، ورنہ قدیم  فقہی احکام میں تو انیس بیس کا ہی فرق ہے۔  فقہی کتب کے مطابق غیر مسلم عورت اور لونڈی  پر پردہ کرنا حرام  ہے اور اس سے عفتِ عمومی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ماضی میں اگر غیر مسلم عورت یا لونڈی پردہ کرتی تو اس کو سزا ملتی تھی۔ ایران میں مذہب کی جدید تفسیر میں غیر مسلم عورتوں کیلئے بھی پردہ لازمی قرار پایا۔ اسی طرح ماضی میں مسلمان عورتوں کو زبردستی پردہ نہیں کرایا جاتا تھا۔ لیکن اس نئی تفسیر کے مطابق پردہ جبراً کرایا جانے لگا۔ راہ چلتی خواتین کے لباس پر اخلاقی پولیس اور نیک نوجوان تبصرے اور جانچ پڑتال کرنے لگے، جسے عام خواتین نے اپنی عزتِ نفس کے خلاف جانا اور مزاحمت شروع کر دی۔  اب ایران کے بڑے شہروں میں جبری حجاب کا قانون  ایک مذاق بن گیا ہے۔

فقہی کتب میں موجود سنگساری، جنگ میں غیر مسلم عورتوں کو لونڈیاں بنانے، چور کے ہاتھ کاٹ کر اسے ساری عمر کے لئے معذور کرنے جیسے احکام کو ”اسلام بمعنی ریاست“ کے مفاد میں غیر معینہ مدت کے لئے معطل کر دیا گیا۔ مذہبی کتابوں کی تعلیمات کے برعکس عورتوں کی تعلیم، ان کے ووٹ دینے، کھیل کود، اور ان کے گھر سے باہر کام کرنے کو اسلام کی مصلحت کے طور پر جاری رکھا گیا۔ ”طاغوتی“ شاہ کے زمانے میں بنائی گئی جدید یونیورسٹیوں کو نہ صرف باقی رکھا گیا بلکہ اسی طرز پر مزید ادارے بھی بنائے گئے۔ ایک عدد ”مجمع تشخیصِ مصلحتِ نظام“ بھی بنا دیا گیا جو فقہ کے علمبردار علما کی کونسل اور عملی مسائل سے نبرد آزما پارلیمنٹ کے درمیان تصادم کی صورت میں اسلام، بمعنی ریاست، کے مفاد کو مدنظر رکھ کر کوئی حل نکالتی ہے۔اس نئی تفسیر کا نام ”اسلامِ ناب محمدی“ رکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسے اپنانے کی دعوت دی گئی۔ پاکستان میں اس دعوت کا نتیجہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف خونریز حملوں میں اضافے کی شکل میں نکلا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ برصغیر میں شیعہ مخالف تشدد ایران کے انقلاب سے پہلے بھی موجود تھا، اور یہ سلسلہ دو سو سال پرانا ہے۔ایران کے انقلاب کے بعد سید احمد بریلوی کے روحانی ورثاء نے شیعہ کشی کو سیاسی نصب العین بنا لیا۔

ولایتِ فقیہ سے پیدا ہونے والے نئے مسائل

جہاں ولایتِ مطلقہٴ فقیہ کے تصور نے چمتکار دکھائے وہیں اس میں ایک بہت بڑی خامی بھی ہے۔ آئین اور حتیٰ کہ شریعت کے احکام سے بھی بالاتر اختیارات کا مالک فقیہ بالآخر جدید تعلیم سے محروم مدارس کا فارغ التحصیل فرد ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر ملک کے اہلِ علم اس کو کوئی علمی بات سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ ریاست کے مفاد میں فیصلہ کن قدم اٹھا لیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی لطیف نکتہ ولی فقیہ کی سمجھ میں نہ آئے تو وہی ہوتا ہے جو اب ایران میں ہو رہا ہے۔

اسی طرح اس تصور میں ایک اور بڑی خامی شہریوں کے مفاد پر ریاست کے مفاد کو ترجیح دینا ہے، کیوں کہ اسلام  بمعنی نظامِ حکومت کے مفروضہ مفادپر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے جب ایران نے 14 جنوری 2020ء کو عراق میں امریکی اڈے پر کامیاب میزائیل حملہ کیا تو مسافر طیاروں کی پروازوں کو معطل نہ کیا کیونکہ ایران ممکنہ امریکی جوابی حملے کی صورت میں ان طیاروں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا، تاکہ اگر امریکا غلطی سے کسی مسافر طیارے کو مار گرائے تو ایران اس کے خلاف شور مچا سکے۔ امریکہ چونکہ ایرانی فضا کو نظر میں رکھے ہوۓتھا،اسنےجوابیکارروائیکرنےکےبجائےایرانیوںکیغلطیکاانتظارکیا۔تھوڑیدیربعدہیتہرانمیںایئرڈیفینسسسٹمکےایکاہلکارنے  یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرایا، جس میں کئی ایرانی اور غیر ملکی سوار تھے۔ امریکا نے اپنے سیاروں کی مدد سے اس جرم کے ثبوت اکٹھے کر کے دنیا کو دکھاۓتوایرانکولیتولعلکےبعدمجبورہوکرمانناپڑا۔سردارحاجیزادہنےجیلجانےکےبجائےمقتولینکےورثاءسےمعذرتکرلی۔

اسی قسم کی صورتحال 7 جنوری 2020ء کو ایران کے شہر کرمان میں جنرل قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ کے دوران سامنے آئی۔  ایران عراق جنگ اور بعد ازاں داعش کے خلاف جنگ میں جنرل سلیمانی کے کردار کی وجہ سے ان کے جنازے میں ایرانی عوام کی شرکت بہت زیادہ ہو رہی تھی۔ تہران اور مشہد میں ہونے والے اجتماعات میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے تھے۔ ایرانی انتظامیہ یہ چاہتی تھی کہ کرمان ، جو نسبتاً چھوٹا شہر ہے، میں ہونے والے جنازے کی تصاویر بھی پر ہجوم لگیں۔ چنانچہ انہوں نے شہر سے باہر کسی کھلے میدان میں جنازہ پڑھانے کے بجائے شہر کے بڑے چوک میں جنازے کا اہتمام کیا تاکہ شہر کی سڑکیں بھری بھری معلوم ہوں۔ لیکن جب جلوس جنازہ سڑکوں پر آیا تو  بھگدڑ مچ گئی اور ساٹھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس سانحے کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی اور مرحومین کو شہید قرار دے کر مٹی ڈال دی گئی۔

جب ریاست خدا بن جائے تو وہ اللہ سے نہیں ڈرتی، مصلحتِ نظام ہی بیسویں صدی میں فاشزم کے نمونے پر گھڑے گئے اخوانی نظامِ حکومت کا سب سے خوفناک پہلو ہے۔ اس کے برعکس جب فروری 2019ء میں پاکستان اور بھارت میں فضائی کشیدگی پیدا ہوئی تھی تو ائرپورٹس کو مسافر طیاروں کے لئے بند کر دیا گیا تھا تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔ الله وطن عزیز کو کسی فقیہ کی بادشاہت سے بچائے رکھے۔

کورونا وائرس نظریہ ارتقا کا جیتا جاگتا ثبوت ہے

دسمبر 2019 میں چین کے ساٹھ لاکھ آبادی والے صنعتی شہر ووہان کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو ایسے مریضوں کا سامنا ہوا جن کی بیماری روایتی زکام اور سر درد سے شروع ہو کر کچھ دنوں میں نمونیہ کی شکل اختیار کر لیتی تھی اور مریض کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہونے لگتا تھا۔ بعد ازاں کچھ افراد کے پھیپھڑوں میں خون بھی بھرنے لگ جاتا تھا۔  یہ جراثیم کرونا وائرس کی نسل سے تعلق رکھتا تھا جس کے ہم نوع 2003 میں سارس کرونا چھپکلی سے اور 2012 میں میرس کرونا اونٹوں سے ارتقا پا کر انسانوں کو منتقل ہو چکے تھے۔

یہ وائرس ان جانوروں تک چمگادڑ کی ایک مخصوص نسل پر رہنے والے وائرس سے ارتقا پا کر منتقل ہوئے تھے۔ دستیاب معلومات کے مطابق دسمبر 2019 میں سامنے آنے والا وائرس چمگادڑ کے وائرس سے ارتقا پا کر پنگولین (چیونٹی خور) میں منتقل ہوا اور وہاں سے ارتقا پا کر انسان میں منتقل ہوا ہے۔ چمگادڑ کا وائرس اس تبدیلی کے بغیر انسانی جسم کو نقصان نہیں پہنچاتا، اور اس تبدیلی کے بعد چمگادڑ کے جسم پر نہیں رہ سکتا۔ اس نئے وائرس کا نام ”کویڈ – 19“ رکھا گیا اور اس کی تخلیق میں کارفرما ارتقائی تبدیلیوں کو سمجھنے اور اس کا علاج دریافت کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔چین نے ساٹھ لاکھ آبادی والے اس صنعتی شہر میں جہاں پہلے ہی بہت سارے ہسپتال موجود تھے، اس وبا کے پیش نظر ایک ہفتے کی کم مدت میں ایک ہزار آئی سی یو کمروں پر مشتمل ہسپتال تعمیر کر کے اور شہریوں کو گھروں میں محدود کر کے وہیں ضرورت کی چیزیں مہیا کرنے کا فیصلہ کر کے اس بیماری کے پھیلاؤ کی رفتار کو بہت کم کر دیا۔ ایران میں  یہ مرض جنوری کے مہینے میں ہی پھیلنے لگ گیا تھا لیکن اس کے باوجود ایرانی حکومت اس کے خلاف بروقت قدم اٹھانے میں ناکام رہی اور ایرانی عوام کو ایک بڑی دلدل میں پھنسا دیا۔

ایران میں کورونا وائرس کا موجودہ بحران

اب ہم ایران میں صحتِ عامہ کے موجودہ بحران کی طرف آتے ہیں۔ جب یہ وائرس چین میں ظاہر ہوا تو ایرانی رہبر کے لئے اس کے وجود کو قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ انہوں نے جس دینی ماحول میں جوانی گزاری ہے وہاں علم، خصوصاً نظریہ ارتقا، کے خلاف جگت بازی کی جاتی ہے۔ کچھ علما، جیسے آیت الله کمال الحیدری، نے اس علم کو تھوڑا بہت سمجھا ہے، لیکن دینی حلقوں کا عمومی رویہ جاہلانہ انکار کا ہی ہے۔ ارتقا کی سائنس سیکھنے والوں کو بندر کی اولاد کہا جاتا ہے، حالانکہ اس کے مطابق انسان بشمول علمائے کرام بندروں کی ’اولاد‘ نہیں بلکہ ان کے ’چچا زاد بھائی‘ ہیں جو لاکھوں سال پہلے الگ ہو چکے ہیں۔ نیز نظریہ ارتقا کے مطابق انسان اور بندر کی ذہنی صلاحیتوں میں اسی طرح بہت زیادہ فرق ہے جیسے مرغی اور عقاب کی قوتِ پرواز میں بہت فرق ہے۔ انسان کے اندر الفاظ و معانی کا ایک جہان آباد ہو سکتا ہے، انسان کے احساسات اور سماجی تعلقات پیچیدہ اور تہہ در تہہ ہیں، انسان پیچیدہ ریاضی سیکھ سکتا ہے۔ نظریہ ارتقا کی انسان شناسی سینکڑوں کتب پر مشتمل ایک وسیع علم ہے۔

ساری عمر نظریہ ارتقا کو سمجھنے کی زحمت نہ کرنے والے رہبر معظم کے لئے اس وائرس کا وجود قبول کرنا ممکن نہ تھا، جس کے وجود کی واحد توجیہ حیاتیاتی ارتقا ہی ہے، چاہے قدرتی ہو یا مصنوعی، اور چونکہ انسان قدرت کے قوانین نہیں بنا سکتا لہٰذا ارتقا کے قانون کا انکار کرنے والے رہبر کے لئے ساری دنیا میں مچنے والے شور کی ایک ہی توجیہ ہو سکتی تھی اور وہ یہ تھی کہ ہو نہ ہو یہ امریکہ کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے جو چینی اور ایرانی سائنسدانوں کو بھی ”مغرب زدہ“ کر چکا ہے۔ لیکن سائنس دشمنی کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ چنانچہ ایران کے اصول گرا طبقے نے کرونا وائرس کی خبروں کو انقلاب کی سالگرہ اور اس کے بعد پارلیمانی انتخابات وغیرہ کو نقصان پہنچانے کے لئے امریکہ کا پروپیگنڈا کہا۔ولی فقیہ کے جتھے سے تعلق رکھنے والے ایرانی صحافیوں کو ایرانی سائنسدانوں کی طرف سے عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کا ٹاسک دے دیا گیا۔ اخباروں، ٹی وی اور منبروں پر اس وائرس کے وجود کی خبروں کو جھوٹی افواہیں کہا جانے لگا۔ پاکستان میں بھی ان صحافیوں کی نقل کرنے والے لاہور کے ایک مولوی صاحب نے  ایسی ہی باتیں کرنا شروع کر دیں۔

چین سے کورونا وائرس کو بذریعہ جہاز ایران لایا گیا

عقل اور علم کو معطل کر کے ہر معاملے میں ولی فقیہہ کی بات کی اندھا دھند پیروی کرنے والی سپاہ پاسداران انقلاب کی ہوائی جہازوں کی کمپنی ”ماہان ایئر“ نے‏چین کی طرف پروازیں جاری رکھیں۔ ایسے وقت میں جب چین سے باہر جانا مشکل تھا، ماھان ایئر چین سے لوگوں کے باہر نکلنے کا وسیلہ بن گئی۔ فروری 2020ء کے شروع میں ایرانی عوام کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایرانی ایئر پورٹس کی ایسی کئی ویڈیوز پوسٹ کی جانے لگیں جن میں ماھان ایئر کے جہاز سے اترنے والے چینیوں کو دوسری فلائٹس پکڑ کر یورپ یا عرب ممالک جاتے دیکھا جا سکتا تھا۔ ان میں ایسے چینی بھی آ گئے جو چین کے اندر وبا پھیلنے کے خوف سے بھاگ رہے تھے مگر جراثیم ان کے بدن میں شامل ہو چکا تھا۔ یہ لوگ ایرانی ایئرپورٹس اور ماھان ایئر کے جہازوں پر اس وائرس کو منتقل کرتے رہے۔ چنانچہ سینٹرل ایشیا کے وہ ممالک جن کی سرحدیں چین سے ملتی تھیں، ان سے پہلے ایران نے اس وائرس کو درآمد کر لیا۔پڑھے لکھے ایرانیوں نے سوشل میڈیا پر ان پروازوں کے خلاف آواز اٹھائی تو سوشل میڈیا پر موجود نیم خواندہ دیہاتی بسیجی اور انقلابی جتھوں نے گالم گلوچ اورغداری کے الزامات سے ان کا منہ نوچ لیا۔ ان کے لئے ”اتحادِ عالم و معلوم“ کے عقیدے کے تحت ولی فقیہ خود دین تھا اور اس کی ہر بات کا دفاع واجب تھا۔ پارلیمنٹ کے الیکشن سے ایک ہفتہ پہلے ایران کے مختلف شہروں بالخصوص قم میں لوگ مرنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ وائرس جنوری میں ایران آ چکا تھا۔ ایران کے ڈاکٹروں نے ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کے پھیپھڑوں کا ایکس ریز کی مدد سے عکس بنا کر انتظامیہ کو دکھایا تو انہیں ہراساں کیا گیا۔ جاہلانہ اعتراضات کر کے ان کی رپورٹس کو مسترد کر دیا گیا۔ ڈاکٹروں نے عوام کو بتانا چاہا تو ان کو اسلام دشمنی کا طعنہ ملا۔

جس نے کورونا  کا نام لیا  وہ دشمن ہے

24 فروری 2020 کو پارلیمنٹ کے الیکشن کے بعد رہبر نے کہا کہ ایران میں کرونا وائرس کی افواہیں ”دشمن“ نے پھیلائی تھیں تاکہ عوام الیکشن میں شریک نہ ہوں۔ ایک ایسا عہدیدار جو اپنے ملک کے آئین سے بالاتر اختیارات رکھتا ہے اور اس کا فرض ہے کہ ایسے موقع پر محکمۂ صحت کی رپورٹ کو سنجیدہ لے، اس کی طرف سے ایسی غیر ذمہ دارانہ بات نہایت افسوسناک ہے۔ لیکن اس کی وجہ رہبر کی جہالت تھی، وہ اگر حقیقت کو سمجھ جاتے تو نہ صرف ماہان ایئر کی چین کو جانے والی پروازیں روک لی جاتیں بلکہ الیکشن کو بھی کچھ ماہ کے لئے ملتوی کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح 11 فروری کو انقلاب کی سالگرہ کے جلوس یا دیگر عوامی اجتماعات کو ملتوی کیا جا سکتا تھا۔ مقدس مذہبی مقامات پر زائرین کو دو تین فٹ دور رہنے کی ہدایت کی جا سکتی تھی، مساجد میں نماز باجماعت اور نماز جمعہ پر پابندی لگائی جا سکتی تھی۔ اس طرح وائرس کے پھیلنے کی رفتار کو ہسپتالوں میں موجود سہولیات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکتا تھا۔ ایران پہلے ہی پابندیوں کی زد پر ہے، اسے چین کی طرف پروازیں جاری رکھنے کی عیاشی زیب نہیں دیتی تھی۔

حقائق کو چھپانے کی روش

الیکشن کے بعد  24 فروری 2020ء کو ہی قم کے ایم این اے نے بیان دیا کہ میرے شہر میں پچاس کے لگ بھگ لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس پر رہبر کے حمایتی انقلابی جتھے نے ان پر ملک دشمنی کا الزام لگایا۔ عوام میں مرض پھیلنے لگا تو وہ خرافاتی علمائے کرام کی باتوں میں آ کر شفا ڈھونڈنے حضرت امام علی رضاؑ اور حضرت سیدہ معصومہؑ کے مزارات پر آ کر چھینکنے لگے۔

کچھ ڈاکٹروں سے عوام کا یوں اندھیرے میں قتل ہونا برداشت نہ ہوا تو انہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر احتیاطی تدابیر اور اپنے ہسپتالوں کو درپیش مسائل کو ویڈیوز میں ریکارڈ کر کے شائع کر دیا۔ انہیں گرفتاری اور پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا۔ جلوس، جمعہ، زیارات، الیکشن سمیت دیگر عوامی اجتماعات جاری رہے۔ کوویڈ-19 سے مرنے والوں کے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پر وجہٴ مرگ سانس کی تکلیف یا ہارٹ اٹیک لکھنے کا حکم دے دیا گیا۔ ایرانی انتظامیہ ولی فقیہ پر ایمان کی وجہ سے ڈاکٹرز کو ”دشمن“ کا ساتھی سمجھ رہی تھی، جبکہ حقیقت میں ولی فقیہ اپنی حماقت کی وجہ سے انجانے میں ایرانی عوام کے دشمن بن چکے تھے۔

بیماری پھیلنے کی خبروں کو عزاداری اور زیارت کے خلاف سازش قرار دیا گیا

جب قم اور مشہد کے زائرین میں یہ بیماری پھیلنے کی خبریں عام ہوئیں تو ایرانی علمائے کرام نے پینترا بدل کر ان خبروں کو عزاداری اور زیارت کرنے کے خلاف سازش قرار دیا۔ کسی بھی ملک میں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے، لہٰذا اگر سازش کا ثبوت ڈھونڈے بغیر الزام لگانے کی عادت بنا لی جائے تو کسی بھی معاملے کو کسی ملکی سرگرمی کے خلاف سازش قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس نفسیاتی حالت کو مالیخولیا کہا جاتا ہے اور ایرانی علما کی اکثریت سیاسی مالیخولیا کا شکار ہیں اور ان کو ماہرینِ نفسیات سے علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ بہر حال علمائے کرام کے اس جھوٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ سادہ لوح مریدوں نے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں اور سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کی ہدایات سے کفر کیا۔ اصفہان میں تو مومنین کرام نے عزاداری کا جلوس نکال دیا۔

حقائق سامنے آنے کے بعد بھی قوم سے معافی نہ مانگی گئی

بہر حال نہ تو ارتقاء کی سائنس کوئی جھوٹ ہے نہ کرونا وائرس کوئی مذاق ہے۔ جلد ہی ایران میں حالات تیزی سے بگڑنے لگے۔ آہستہ آہستہ علمائے کرام کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ ان کے اپنے رشتہ دار اور اہم حکومتی عہدیداروں میں اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔ خطرہ سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ 27 فروری کو رہبر نے سرکاری ٹی وی پر آ کر اس وائرس کے وجود کا اقرار کیا اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس کا سامنا کرنے والے ڈاکٹرز اور نرسوں کا شکریہ ادا کیا، لیکن تکبر یا خوف کی وجہ سے اپنی غلطی پر معذرت نہ کی۔

مریضوں کی تعداد کو کم کر کے بتایا  گیا

یکم مارچ کو گرگان کے علاقے سے ایک سرکاری ہسپتال کے سربراہ کی طرف سے حکومتی اہلکاروں کو دی جانے والی بریفنگ کی ویڈیو سامنے آئی۔ اس ویڈیو میں وہ ثبوت دکھا کر انتظامیہ کے افسروں کو بتا رہے ہیں کہ ہمارے ہسپتال میں 594 مریض ایسے آئے ہیں جن کے پھیپھڑے بلغم سے بھرے ہیں، کچھ میں خون ہے۔ وبا کے زمانے میں اتنی بڑی تعداد میں ایسے مریض آنا اس بات کی علامت ہے کہ انہیں کرونا لگ چکا ہے۔ گرگان کا علاقہ وبا کے مرکز قم سے چھ سو کلومیٹر دور ہے۔ ایرانی حکومت کی طرف سے یکم مارچ کو ملک بھر میں مریضوں کی تعداد 978 بتائی گئی۔

آیت الله خامنہ ای اپنی 24 فروری والی تقریر سے صاف مکر گئے

3 مارچ کو آیت الله خامنہ ای دوبارہ پردہ سکرین پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اپنی 24 فروری والی تقریر سے مکر کر صاف صاف جھوٹ بولا کہ ہم نے اس وبا کے بارے میں عوام کو بروقت مطلع کر دیا تھا۔ بہر حال اب چونکہ یہ وبا ایران کی ریاست کو ختم کرنے کی طرف گامزن تھی، دینی حلقوں کو علم کا تابع بنانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ انہوں نے تمام محکموں کو ایرانی محکمۂ صحت کی ہدایات کی پیروی کرنے کی تلقین کی۔ محکمہٴ صحت نے پہلی فرصت میں لوگوں کے جمع ہونے کے مقامات کو لیبارٹریوں میں تیار کردہ خالص ترین میتھائل الکوحل سے دھویا اور شہروں میں جمعے کی نماز معطل کر دی۔ مشہد کے  آیت الله علم الہدیٰ نے اب ڈر کر نیا پیغام ریکارڈ کرا دیا جس میں لوگوں کو رش والی جگہوں پر اکٹھا ہونے سے روکتے ہوئے کہا کہ شفا یابی کے لئے امام رضا کے حرم پر آنے کے بجائے گھر بیٹھ کر توسل کریں کیوں کہ شفا ضریح پر لگے سونے چاندی سے نہیں ملتی۔ اگرچہ اب بھی کچھ علمائے کرام اور کچھ انقلابی لوگ ان مزارات پر جا کر انہیں اپنی زبان سے چاٹ رہے ہیں اور اس حرکت کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رہے ہیں، لیکن قم کے امام جمعہ آیت اللہ سعیدی کی طرف سے اعلانات کے باوجود ایرانی عوام کی اکثریت وائرس کے ختم ہونے سے پہلے ان مقدس مقامات کی زیارت کرنے بھی نہیں جا رہے۔ خواہش ہی کی جا سکتی ہے کہ آیت الله سعیدی جیسے جاہل علمائے کرام کے جھانسے میں آ کر ان مزارات پر زبان لگانے والے عقیدت مند بھی بیمار نہیں ہوں گے اور کرونا وائرس کے دوبارہ ان مزارات پر منتقل ہونے کا سبب نہیں بنیں گے۔

 وائرس کے وجود کو تسلیم کرنے کے بعد غیر سنجیدگی

اس وائرس کے وجود کو تسلیم کرنے کے بعد ایران میں ایک اور فاش غلطی کا ارتکاب کیا جاتا رہا اور وہ حکمرانوں کا سنجیدہ نہ ہونا تھا۔ مختلف مولانا حضرات یا عہدیدار اس میں مبتلا ہونے کے بعد ہنستے مسکراتے پیغام ریکارڈ کرا تے رہے کہ ”میں بھی کرونائی ہو گیا، ہا ہا“، جو کہ عوام کے زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ اس غیر سنجیدگی کی وجہ یہ ہے کہ یہ وائرس فرد کے لئے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ لیکن یہی چیز اسے معیشت کے لئے بہت خطرناک بناتی ہے۔اس وائرس میں سب سے خطرناک بات ہی یہ ہے کہ موت کا سبب بننے کی صلاحیت رکھنے والا یہ وائرس ابھی تک صرف دو سے آٹھ فیصد مریضوں کو مار رہا ہے۔ بیماری کے شروع کے دنوں میں مریض کو زیادہ نقصان نہیں پہنچاتا، اور اس وجہ سے وہ مریض بیماری سے بے خبر گھر میں محدود ہونے کے بجائے ادھر ادھر کھانستا اور زکام پھینکتا رہتا ہے۔ اس طرح یہ وائرس دوسرے لوگوں کو لگ جاتا ہے۔ چنانچہ اگر اس کے متاثرین کی تعداد بہت زیادہ ہو تو کم شرح کے باوجود اموات کی تعداد بڑھ جائے گی۔ یعنی اگر آنے والے چند ماہ میں یہ مرض ایران کی ساری آبادی کو لگ جائے تو آہستہ آہستہ اموات کی بڑھتی تعداد ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھا دے گی، اور وہ شرح اموات جو نظام صحت اور غذائی اجناس کی تجارت کے قائم رہنے کی صورت میں دو فیصد ہونے کا امکان ہے، بیس فیصد تک بھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اس معاملے میں جاہل مجتہدین کرام کو لگام دینا بہت ضروری ہے۔

اس نکتے کو مزید بہتر سمجھنے کے لئے ایبولا وائرس کی مثال پر غور کریں جو 1976ء میں سامنے آیا اور اس کی شرح اموات 80 فیصد تھی۔ اس وائرس کی حالیہ وبا ابھی چند سال پہلے، 2013ء تا 2016ء، مغربی افریقہ میں آئی۔ لیکن چونکہ اس کی شرح اموات زیادہ ہے لہٰذا یہ وائرس مریض کو بہت زیادہ نقصان پہنچا کر جلد ہی موت سے ہمکنار کر دیتا ہے ۔ پس شرح اموات بلند ہونے کی وجہ سے اس سے متاثر ہونے والے لوگ بیماری کو معاشرے میں منتقل کرنے سے پہلے ہی گر جاتے ہیں۔ ایبولا میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد چند ہزار نفوس تک محدود رہتی ہے اور یہ ملک گیر یا عالمی وبا کی شکل اختیار نہیں کرتا۔

 نام نہاد  اسلامی سیاست کے بعد  طبِ اسلامی: یک نہ شد، دو شد

‏ایران  کے ساتھ ایک اور مذاق ”طبِ اسلامی“ اور ”طبِ اہلبیت“ کے نام سے بھی جاری ہے۔ ان لوگوں کو رہبر معظم کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ قم میں آیت اللہ تبریزیان ”طبی اجتہاد“ پر درسِ خارج دیتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کو بھی ان صاحب نے حیوانات کے پیشاب کے نجس یا پاک ہونے کے مسائل جیسا کوئی معاملہ سمجھ رکھا ہے جسے یہ اجتہادی طریقوں سے سیکھ لیں گے۔ ایران کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں ان کے شاگردوں کو ”دانشکدہٴ طبِ سنتی“ کے نام سے ڈپیارٹمنٹ بنا کر ملازمتیں دی گئی ہیں۔ ‏ایران میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد اس ”طبی مرجع“ نے اپنی ادویات کی مہم چلا دی جس کا مختصر جائزہ سابقہ مضمون بعنوان ”قم کا ابوجہل“میں پیش کیا جا چکا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ایرانی ڈاکٹر ہسپتالوں میں ملک کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ آیت الله اور ان کے شاگرد مختلف ویڈیو پیغامات اور اپنے ٹیلی گرام چینل پر ان کے خلاف گھٹیا مہم چلائے ہوئے ہیں، حالانکہ متعدد علمائے کرام ان کی معجونیں کھانے کے باوجود ہلاک ہو چکے ہیں۔

تا دمِ تحریر ایران میں اموات کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ شبیری زنجانی کی بہن اور بھانجا کرونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ہلاک شدگان میں آیت الله رضا لنگرودی، آیت الله ہاشم بطحائی، ‏مولانا جمال خلیلیان، مولانا محمد رضا شفیعی، مولانا ہادی خسروشاہی اور مولانا عبدالحمید مقدسیان شامل ہیں۔ آیت اللہ تبریزیان کے شاگرد مولانا شہریار شریفی کرونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ وہ ایران کے قصبے صومعہ سرا میں مرکز طبِ معصومین کے منتظم تھے۔ سرکاری ملازمین میں سے ایران کی نائب صدر محترمہ معصومہ ابتکار اور نائب وزیر صحت اس مرض میں مبتلا ہیں جبکہ مرکزی سیکرٹری زراعت رضا پور خان علی، سپاہ پاسداران انقلاب کے انٹیلی جنس چیف رمضان پور قاسم، رکن پارلیمنٹ محترمہ فاطمہ رہبر، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی کے سیکرٹری مولانا حسین شیخ الاسلام سمیت کچھ نرسیں اور ڈاکٹرز فوت ہو چکے ہیں۔ باقی ممالک کی نسبت ایران میں آئی سی یو کی سہولیات میں کمی کی وجہ سے کئی جوان لوگ بھی راہی عدم ہوئے ہیں۔ ایرانی پارلیمنٹ کے آٹھ فیصد اراکین اس بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں،عوام میں ٹیسٹ کٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے متاثرین کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

رہنما کی ایک اجتہادی غلطی نے قوم کو موت کے منہ میں دھکیل دیا

ایران میں آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے کم علمی میں کی گئی اجتہادی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کرونا وائرس پورے ملک میں پہنچ چکا ہے۔ ایران کے بڑے شہروں میں عوام گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایک ماہ قبل ماہان ایئر کی چین کو جانے والی پروازیں اور انقلاب کی سالگرہ یا انتخابات وغیرہ کو نہ روکنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پورے ملک میں زندگی کی سرگرمی بہت کم ہو گئی ہے، جس کا مطلب روزانہ کا بھاری معاشی نقصان ہے۔ پہلے عوامی اجتماعات کو ملتوی کیا جاتا تو اب لوگ کم از کم اپنے روزمرہ کے کام جاری رکھ سکتے تھے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں پورے یقین سے صرف ایک بات کہی جا سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کو اجتہادی خطا کی صرف ایک نیکی ملے گی۔ اس غلطی کا شمار بھی تاریخ کی ان معروف اجتہادی خطاؤں میں ہو گا جن کی وجہ سے ہزاروں لوگ مارے گئے۔

امریکی پابندیاں ایران کی عوام پر ظلم ہیں

آخر میں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ایران پر امریکی پابندیاں ایرانی محکمۂ صحت کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اب جبکہ ایرانی علما کی جہالت کی رکاوٹ کافی حد تک دور ہو چکی ہے، تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک اب پابندیوں کی وجہ سے یورپ ، امریکہ یا دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے ادویات اور حفاظتی سامان نہیں خرید سکتا۔ ایران نے آئی ایم ایف سے پانچ بلین ڈالر کا ادھار مانگا ہے جو اس ادارے میں امریکی اثر و رسوخ کی وجہ سے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگرچہ جنوری میں مساجد اور دیگر عوامی مقامات پر رش ختم کر کے اموات کی تعداد چند سو تک محدود کی جا سکتی تھی، لیکن اب یہ تعداد لاکھوں میں ہونے کا امکان ہے۔ تہران کی بہترین درسگاہ، شریف یونیورسٹی، کے محققین کے علمی تخمینے کے مطابق اگر محکمۂ صحت کی شفارشات پر سختی سے عمل کیا جائے تو اموات کی تعداد بارہ ہزار تک بھی محدود کی جا سکتی ہے۔ لیکن چونکہ عوام کی اکثریت آپس میں میل ملاپ کے دوران ان ہدایات کا کما حقہ خیال نہیں رکھ پاتی، لہٰذا یہ تعداد ایک لاکھ دس ہزار ہلاکتوں تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر دینی حلقے دوبارہ علم کے باغی ہو جائیں اور عوام کو ورغلا کر سائنس سے کفر پر قائل کر لیں، تو اموات کی تعداد تیس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔

پاکستان میں کورونا کے آنے کی وجہ زائرین  نہیں ، حکومتی کمزوری ہے

آخر میں یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں کرونا وائرس کا آنا ناممکن نہیں تھا، نہ ہی یہ صرف ایران کے راستے سے آیا ہے۔ہمارے ملک میں یہ مرض چین، ایران، سعودی عرب اور یورپی ممالک سے آیا ہے۔ اس کا جائزہ 25 مارچ 2020ء کو شائع ہونے والے ایک مضمون بعنوان ”پانچ ہزار زائرین سے بڑا مسئلہ لاکھوں یورپ پلٹ افراد اور سائنس دشمن علماء ہیں“ میں پیش کیا جا چکا ہے۔ یورپی ممالک میں یہ بیماری اٹلی کے شہر وینس میں 23 فروری کو ہونے والے میلے سے پھیلی کہ جہاں پوری دنیا سے سیاح آئے تھے۔ ہماری حکومت نے تفتان بارڈر پر ایک خیمے میں متعدد افراد کو ٹیسٹ کیے بغیر رکھ کر صحت مند افراد کو بھی اس وائرس میں مبتلا کر کے نااہلی کا ثبوت بھی دیا ہے۔ ائرپورٹس پر بھی لوگوں کے حلق سے نمونے لے کر چیک کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہو سکا۔ بیرون ملک مقیم متعدد پاکستانی بھی نادانی میں ان ممالک میں اس وبا کے پھیلنے کی خبریں سن کر پاکستان لوٹے ہیں، اور اس دوران وہاں کے ائرپورٹس سے اس وائرس کو اٹھا لائے ہیں۔ پاکستان میں ٹیسٹ کٹس کے نہ ہونے کی وجہ سے بروقت تشخیص نہیں ہو سکی اور اعداد و شمار شائع نہیں ہو سکے ہیں، جس نےانہیں اس خوش فہمی میں مبتلا رکھا کہ شاید یہاں یہ وائرس نہیں پھیل رہا۔ اسی طرح بہت سے لوگ یہ سمجھتے رہے کہ گرمیوں میں یہ وائرس نہیں پھیلے گا، جب کہ گرمیوں میں بھی انسان کا جسم تو اسی درجۂ حرارت پر رہتا ہے۔ یوں مشرق بعید، خلیجی ریاستوں اور مغربی ممالک سے بہت سے پاکستانی راستے میں آلودہ ائرپورٹس سے وائرس اٹھاتے وطن آ گئے۔

اب ہم نے فرقہ وارانہ یا نسلی تعصب پھیلانے والی تنظیموں کے پراپیگنڈے میں آنے کے بجائے اس وائرس کا مل کر مقابلہ کرنا ہے۔ ہماری حکومت معاشی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے اس کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس وبا کا سامنا ہمیں مل کر اور سائنس سے رہنمائی لے کر کرنا ہے۔ ہسپتال اس وبا کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، لہٰذا ہمیں گھروں میں مریضوں کی دیکھ بھال کرنا سیکھنا ہو گا۔ ایران کی مثال سے ہم صرف یہ سیکھ سکتے ہیں کہ مذہبی علما ایران جیسے تیل سے مالا مال ملک کو بھی تباہی کے دہانے پر لا سکتے ہیں، لہٰذا ان کے بجائے سائنس اور جدید سماجی علوم سے رہنمائی لینی چاہیے۔

نوٹ: علمی تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ وائرس کسی لیبارٹری کی پیداوار نہیں ہے اور مصنوعی ارتقاء (جنیٹک انجینئرنگ) کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس وائرس کے قدرتی ارتقاء کو سمجھنے کیلئے سترہ مارچ 2020ء کو ”نیچر میڈیسن“ نامی علمی جریدے میں شائع ہونے والے اس سائنسی مقالے کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے:

The proximal origin of SARS-CoV-2

Advertisements
julia rana solicitors london

ایران میں ولایتِ فقیہ اور کورونا وائرس(حصہ اوّل)۔۔حمزہ ابراہیم

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ایران میں ولایتِ فقیہ اور کورونا وائرس(دوسرا،آخری حصہ )۔۔حمزہ ابراہیم

  1. آیت اللہ خمینی کے آیت اللہ خامنہ ای کے نام آخری خط کا متن،جس میں ولایت مطلقہ فقیہ کا رقیدہ بیان کیا گیا ہے:

    بسمه تعالى‏

    جناب حجت الاسلام آقاى خامنه ‏اى، رئیس محترم جمهورى اسلامى- دامت افاضاته پس از اهداى سلام و تحیت، من میل نداشتم که در این موقع حساس به مناقشات پرداخته شود. و عقیده دارم که در این مواقع سکوت بهترین طریقه است. و البته نباید ماها گمان کنیم که هر چه مى ‏گوییم و مى‏ کنیم کسى را حق اشکال نیست. اشکال، بلکه تخطئه، یک هدیه الهى است براى رشد انسانها. لکن صحیح ندانستم که جواب مرقوم شریف و تقاضایى که در آن شده بود را به سکوت برگزار کنم. لهذا، آنچه را که در نظر دارم به طور فشرده عرض مى‏ کنم.

    از بیانات جنابعالى در نماز جمعه این طور ظاهر مى ‏شود که شما حکومت را که به معناى ولایت مطلقه ‏اى که از جانب خدا به نبى اکرم- صلى اللَّه علیه و آله و سلم- واگذار شده و اهمّ احکام الهى است و بر جمیع احکام شرعیه الهیه تقدم دارد، صحیح نمى‏ دانید. و تعبیر به آنکه این جانب گفته ‏ام حکومت در چهارچوب احکام الهى داراى اختیار است بکلى بر خلاف گفته‏ هاى این جانب بود. اگر اختیاراتِ حکومت در چهارچوب احکام فرعیه الهیه است، باید عرضِ حکومت الهیه و ولایت مطلقه مفوضّه به نبى اسلام- صلى اللَّه علیه و آله و سلم- یک پدیده بى‏ معنا و محتوا باشد و اشاره مى‏ کنم به پیامدهاى آن، که هیچ کس نمى ‏تواند ملتزم به آنها باشد: مثلًا خیابان کِشی ها که مستلزم تصرف در منزلى است یا حریم آن است در چهارچوب احکام فرعیه نیست. نظام وظیفه، و اعزام الزامى به جبهه ‏ها، و جلوگیرى از ورود و خروج ارز، و جلوگیرى از ورود یا خروج هر نحو کالا، و منع احتکار در غیر دو- سه مورد، و گمرکات و مالیات، و جلوگیرى از گرانفروشى، قیمت گذارى، و جلوگیرى از پخش مواد مخدره، و منع اعتیاد به هر نحو غیر از مشروبات الکلى، حمل اسلحه به هر نوع که باشد، و صدها امثال آن، که از اختیارات دولت است، بنا بر تفسیر شما خارج است؛ و صدها امثال اینها.

    باید عرض کنم حکومت، که شعبه ‏اى از ولایت مطلقه رسول اللَّه- صلى اللَّه علیه و آله و سلم- است، یکى از احکام اولیه اسلام است؛ و مقدم بر تمام احکام فرعیه، حتى نماز و روزه و حج است. حاکم مى‏ تواند مسجد یا منزلى را که در مسیر خیابان است خراب کند و پول منزل را به صاحبش رد کند. حاکم مى ‏تواند مساجد را در موقع لزوم تعطیل کند؛ و مسجدى که ضِرار باشد، در صورتى که رفع بدون تخریب نشود، خراب کند. حکومت مى‏ تواند قراردادهاى شرعى را که خود با مردم بسته است، در موقعى که آن قرارداد مخالف مصالح کشور و اسلام باشد، یکجانبه لغو کند. و مى‏ تواند هر امرى را، چه عبادى و یا غیر عبادى است که جریان آن مخالف مصالح اسلام است، از آن مادامى که چنین است جلوگیرى کند. حکومت مى ‏تواند از حج، که از فرایض مهم الهى است، در مواقعى که مخالف صلاح کشور اسلامى دانست موقتاً جلوگیرى کند.

    آنچه گفته شده است تا کنون، و یا گفته مى‏ شود، ناشى از عدم شناخت ولایت مطلقه الهى است. آنچه گفته شده است که شایع است، مزارعه و مضاربه و امثال آنها را با آن اختیارات از بین خواهد رفت، صریحاً عرض مى‏ کنم که فرضاً چنین باشد، این از اختیارات حکومت است. و بالاتر از آن هم مسائلى است، که مزاحمت نمى‏ کنم.

    ان شاء اللَّه تعالى خداوند امثال جنابعالى را، که جز خدمت به اسلام نظرى ندارید، در پناه خود حفظ فرماید.

    16 دى 1366

    روح اللَّه الموسوی الخمینى‏

Leave a Reply