غور سے سنیں۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

ایک شخص کی بیگم کو بخار ہوا۔ وہ اسے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گیا۔ ڈاکٹر نے بخار چیک کرنے کیلئے اس کی بیگم کو تھرمامیٹر دیا اور کہا کہ پلیز اسے دو منٹ کیلئے منہ میں رکھ لیں۔ وہ شخص غور سے دیکھتا رہا۔ ڈاکٹر نے بخار چیک کرنے کے بعد دوا تجویز کر دی۔ جب واپس جانے لگے تو اس شخص نے تھرمامیٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب یہ تعویذ کتنے کا ملے گا۔ میری بیوی گھر میں اکثر بولتی رہتی ہے لیکن آپ نے اس تعویذ کے ذریعے اس کو کچھ دیر کیلئے مکمل طور پر خاموش کرا دیا۔
یہ ایک لطیفہ ہی نہیں بلکہ ہمارا مجموعی سماجی رویہ ہے کہ بیشتر حضرات بیگمات کے ذیادہ بولنے کا شکوہ تو کرتے ہوئے اکثر نظر آتے ہیں لیکن اس کی بات کو کبھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ ماہرین نفسیات کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ بعض نفسیاتی مسائل صرف بات غور سے سن لینے سے ہی حل ہو جاتے ہیں اس کیلئے کسی قسم کے تردد کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ بعض مسائل کا حل بیان کرنے والے کی بات میں ہی موجود ہوتا ہے لیکن من حیث القوم ہم میں دراصل کسی کی بات سننے کی تربیت ہی نہیں ہے یا شاید اتنا حوصلہ ہی نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک استاد اس وقت تک بہترین استاد نہیں کہلا سکتا جب تک وہ بہترین سننے والا نہیں بن جاتا۔ ماہرین تعلیم کے مطابق طالب علم کی بات غور سے سنے بغیر ایک استاد اس کے اندر موجود صلاحیتوں کو اجاگر نہیں کر سکتا۔ ایک کامیاب استاد وہی ہے جو طلباء کی بات کو غور سے سنے۔ اسی طرح ایک اچھے طالب علم کیلئے بھی اچھا سامع ہونا اتنا ہی ضروری ہے۔ اب ایک ڈاکٹر کی مثال لیجئے۔ ایک کامیاب ڈاکٹر بننے اور درست تشخیص کیلئے مریض کی بات کو غور سے سننا بہت ضروری ہے۔ مریض کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا ڈاکٹر اس کی بات دھیان سے سنے۔ بیشتر مریضوں کو اس سے
تشفی ملتی ہے اور ان کی آدھی بیماری ڈاکٹر کے غور سے سننے سے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اب ہم والدین کی مثال لیتے ہیں۔ اکثر والدین محض اس وجہ سے بچوں کی اچھی پرورش میں ناکام ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی بات سننا ہی گوارا نہیں کرتے کیونکہ ان والدین کے پاس یا تو اتنا وقت نہیں ہوتا یا وہ بچے کی بات سننا غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ بچے کی کوئی بات غیر ضروری نہیں ہوتی بلکہ بعض والدین اپنے بچوں کو قائل کرنے کی بجائے اپنی نااہلی چھپانے کیلئے انھیں ڈانٹ کر بٹھا دیتے ہیں جس کے بچے کے رویوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
چند سال قبل خاکسار کی ملاقات ایک معروف ہسپتال کے کلینکل سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ کیساتھ ہؤئی۔ انھوں نے گفتگو کے دوران کہا ” والدین اپنے بچوں کو میرے پاس اس شکایت کیساتھ لے کر آتے ہیں کہ یہ کہنا نہیں مانتا، جھگڑالو، ضدی، چڑچڑا ہو گیا ہے، پلیز اس کی کونسلنگ کر دیں۔ اکثر بچوں کے ساتھ پہلے ہی سیشن میں پتہ چلتا ہے کہ بچہ بالکل نارمل ہے، کونسلنگ کی ضرورت والدین کو ہے”۔ بچے میں تجسس فطری طور پر پایا جاتا ہے۔ سوال کرنا بچے کی فطرت ہے۔ جب تک آپ بچے کی بات کو غور سے نہیں سنیں گے آپ کو بچے کے مسائل کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ جب وہی بچہ بڑا ہوتا ہے تو ایسے والدین اور بچوں کے درمیان ایک خلا پیدا ہو چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بچے اپنے مسائل اپنے والدین کی بجائے دیگر ایسے لوگوں سے بیان کرتے ہیں جو بچوں کے خیرخواہ نہیں ہوتے جس کے باعث وہ بچے یا بچیاں بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں اور انکی تربیت اور اخلاقیات تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے۔ گھروں سے بھاگنے والے بچے عام طور پر انھی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ بس بچے کی بات کو توجہ سے سنئیے، بات پوری ہونے دیں اور درمیان میں مت ٹوکیں۔ اس طرح نہ صرف آپ اپنے بچے کے مسائل سے آگاہ ہوں گے بلکہ آپ کے بچے میں خود اعتمادی بھی آئے گی اور اس کی تربیت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بچوں کی جنسی تربیت ایک الگ اور مکمل تحریر کا متقاضی ہے جس کو پھر کسی وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔
ذرا سوچیں کہ آپ کی بیگم کیلئے آپ ہی سب کچھ ہیں۔ وہ اگر اپنے مسائل آپ کو نہیں بتائے گی تو کس کو بتائے گی؟ لہٰذا اپنی بیوی کی بات کو غور سے سنیں، اس سے پیار اور رشتوں میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کی بات کو نہیں سنیں گے تو وہ ظاہر ہے اپنے کسی اور رشتہ دار کو بتائے گی جو کہ آپ کو قطعاً اچھا نہیں لگے گا۔ بیوی کے لیے بھی یہ لازم ہے کہ جب خاوند کام سے تھکا ہارا شام کے وقت گھر واپس آئے تو چہرے پر مسکراہٹ کیساتھ خوش آمدید کہیں اور گھر آتے ہی شکوے شکائیتوں کے انبار مت لگائیں۔ مناسب وقت دیکھ کر اپنی بات کا اظہار کریں۔
بقول چارلس نارتھم لی اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوں تو پہلے آپ لوگوں کی بات کو توجہ سے سنئیے۔ میں پیشہ کے لحاظ سے ایک وکیل ہوں۔ بہت سے فیملی مقدمات میں پیش ہوتا رہا ہوں۔ مقدمہ کے دوران جب معاملہ کی جڑ تک پہنچے تو کئی مقدمات میں میاں بیوی کے درمیان مؤثر ابلاغ کا فقدان پایا گیا اور بہت سی غلط فہمیاں محض اردگرد کے لوگوں کی پیدا کردہ ہوتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لہٰذا بیوی کیساتھ نرم رویہ رکھیں۔ اس کی بات کو دھیان سے سنیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ بچے والدین کی عادات اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا اس کا بہترین حل یہی ہے کہ میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کی بات کو تسلی اور حوصلہ سے سنیں۔ بچے بھی آپ کی پیروی کریں گے۔ اپنے لیے نہ سہی اپنی آنے والی نسل کیلئے ہی اپنے رویے میں تبدیلی لائیں۔ اس سے نہ صرف آپ کی زندگی میں راحت و سکون آئے گا بلکہ بچوں پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ بیگمات کے بیشتر مسائل تو محض سننے سے ہی حل ہو جاتے ہیں۔ لیکن بہت سے میاں بیوی ایک دوسرے کی بات تسلی سے سننا ہی گوارا نہیں کرتے۔ اسی لیے بیشتر لوگ عورت کی لمبی زبان کے شکوے کرتے نظر آتے ہیں لیکن گونگی عورت سے کوئی شادی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ دوہرے معیار ختم کیجئے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply