• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایران میں ولایتِ فقیہ اور کورونا وائرس(حصہ اوّل)۔۔حمزہ ابراہیم

ایران میں ولایتِ فقیہ اور کورونا وائرس(حصہ اوّل)۔۔حمزہ ابراہیم

نوٹ:اس مضمون کو ایران کی حکومت کے اور ایرانی قوم کے معاملات میں دخل اندازی نہ سمجھا جائے،یہ ایک علمی مضمون ہے جو نیک نیتی سے لگایا جارہا ہے،تاکہ اس موضوع پر صحت مند ،علمی مکالمہ وجود میں لایا جاسکے،ہمیں خوشی ہوگی اگر کوئی اور نقطہ ء نظر اس موضوع پر سامنے آئے اور علمی انداز میں پیش کیا جائے،ہم ایسا مضمون ضرور لگائیں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایران یا کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات پر لکھنا اس وقت ہی مناسب ہوتا ہے جب وہ حالات ہمارے ملک کے داخلی مسائل سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایران اور سعودی عرب پاکستانی زائرین اور معتمرین سے ہر سال اربوں روپے کا زر مبادلہ کماتے ہیں۔ پاکستان کے غریب عوام سارا سال رقم اکٹھی  کرتے ہیں تاکہ وہ مقدس مقامات کی زیارت کر سکیں۔ اس دوران میزبان ملک کے ہوٹلز اور ٹرانسپورٹ کا کاروبار چمکتا ہے۔ نذرانےکی مد میں بھی موٹی رقم میزبان ملک کے ہاتھ آتی ہے۔ لیکن پاکستانیوں کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اس وقت دیکھنے آیا جب سالہا سال سے کمائی کرنے والے ان ممالک نے کورونا وائرس پھیلتے ہی پاکستانی مہمانوں کو مناسب دیکھ بھال فراہم کرنے کے بجائے ایئرپورٹس یا زمینی رستوں سے واپس بھیج دیا۔

مقدمے کے طور پر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارے مذہب میں سیاست کیلئے بھی اتنی ہی اخلاقی  ہدایات موجود ہیں، جتنی صحت کیلئے ہیں۔ کچھ مذہبی رہنما جدید دور کے سیاسی ماڈلز میں سے اپنی پسند کا ماڈل(فاشزم) اسلام کے لبادے میں پیش کر کے اسے اسلامی سیاست کا نام دیتے ہیں۔ مسلمان معاشروں کی  بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں کمیونزم اور کیپٹلزم کی رد میں تو بہت کچھ لکھا گیا لیکن فاشزم جنگ عظیم دوم میں مغربی سرزمینوں پر شکست کھانے کے بعد کلمہ پڑھ کر ہماری صفوں میں آ گھسااور ہم نے بھی بغضِ یہود میں ہٹلر و مسولینی کو پیر و مرشد قرار دیا، حالانکہ مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے بدترین دشمن نازی افکارہی ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگوں نے طبِ اسلامی کے نام پر جعلسازی شروع کر رکھی ہے۔ کسی بھی چیز کے ساتھ ” اسلامی“ کا لاحقہ لگا کر سادہ لوح دیہاتیوں کو اپنے مقاصد کیلئےاستعمال کیا جاتا ہے۔ ایران میں بھی  یہ کام ہو رہے ہیں اور انقلاب کے بعد اس عمل میں تیزی آئی ہے۔ آئیے اس  سانحے کا جائزہ لیتے ہیں۔

+18 PG

اس مضمون کا مرکزی موضوع ایران میں رائج  مذہبی نظام ہے۔ کرونا وائرس کا بحران ایک مثال کے طور پر زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ مضمون طویل ہے اور اس میں کچھ دیگر مضامین کے لنکس بھی فراہم کئے گئے ہیں، لہذا قاری سے صبر و تحمل  سے پڑھنے کی استدعا کی جاتی ہے۔اٹھارہ سال سے کم عمر افراد، اور وہ احباب جن کے جذبات علمی تنقید کو برداشت نہ کر سکتے ہوں، اس مضمون کو نہ پڑھیں۔

علم اور مذہب کا فرق

علم اور مذہب میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ علم کی تفسیر نہیں ہوا کرتی۔ تفسیر کا مطلب یہ ہے کہ کسی متن سے قاری صاحب کیا مراد لیتے ہیں۔ مذہبی کتب کا متن ایسا ہوتا ہے کہ اکثر مقامات پر اس کا مطلب واضح نہیں ہوتا اور اگر بعض اوقات واضح ہو تو اس کا ظاہری معنی بعض فرقوں یا علماء کیلئے قابلِ قبول نہیں ہوتا، چنانچہ دینی رہنماؤں کو مقدس متن  کی تفسیر لکھنا پڑتی ہے۔ اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ متعدد تفاسیر وجود میں آ جاتی ہیں، اور وہ سبھی صحیح بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً تفسیر ابن عباسؓ اپنی جگہ صحیح ہے تو تفسیر ابن کثیر اپنی جگہ درست، اور تفسیر عثمانی یا تفسیر نمونہ کو بھی غلط نہیں کہا جا سکتا۔ ریاست کے خلاف ہر قسم کے طریقے اپنا کر جہاد کرنا مفتی شامزئی کے نزدیک اسلام کا حکم ہے تو مفتی سرفراز نعیمی اس کو اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں۔

‏ایران کے شہر قم میں آیت اللہ سعیدی کا فرمانا ہے کہ قم کا مقدس حرم  دار الشفا ہے، اسے کھلا رہنا چاہئیے اور عوام کو پوری قوت کے ساتھ زیارت کیلئے آتےرہنا چاہئے۔ اسی شہر قم میں آیت اللہ مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ کسی شخص تک کرونا وائرس کا جراثیم منتقل کرنے کا گناہ قتل کے برابر اور اس کی سزا دیت ہے۔ ایسی متضاد تفاسیر مذہبی لوگوں کے کسی نہ کسی حصے کے لئے ٹھیک بھی ہوتی ہیں۔ علماء کا اصول یہ ہے کہ اگر دینی رہنما کا اجتہاد اللہ کو پسند آ جائے تو اسے دو نیکیاں ملتی ہیں، نہ آئے تو ایک نیکی ملتی ہے۔ دین کی متعدد تفاسیر کا امکان پائے جانے سے دینی رہنماؤں کو عوام سے ہٹ کر ایک الگ طبقاتی مقام مل جاتا ہے۔ وہ ’اتحادِ عالم و معلوم‘ کے قائل ہو جاتے ہیں۔ دینی رہنماؤں کی تفاسیر ہی دین کہلاتی ہیں۔

مذہب کے برعکس علم کی دنیا میں متن کی ایک ہی تشریح ہوا کرتی ہے اور کوئی تفسیر نہیں ہوا کرتی۔ جس بات کا ایک معین اور واضح معنی نہ ہو، علم اس کو  اپنے دائرے سے خارج سمجھتا ہے۔ چنانچہ نیوٹن کے کشف کردہ قوانین اتنے سال گزرنے کے باوجود وہی تشریح رکھتے ہیں جو نیوٹن کے زمانے میں تھی۔ آج بھی انجینیرنگ کے کئی شعبے انہی قوانین کی بنیاد پر قائم ہیں۔ سائنس دان  امریکی ہوں، چینی یا عرب؛ یہودی ہوں، مسلمان یا ملحد؛ جمہوریت پسند ہوں یا کسی کمیونسٹ تنظیم کے کارکن؛ سب ایک ہی تشریح پر متفق ہیں اور آج تک ان کی کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔ علم کی دنیا میں عقل کے سوا کوئی رہنما نہیں ہوتا نہ کوئی عالم مقدس ہوتا ہے۔ علم سیکولر ہوتا ہے اور اس کی نگاہ میں صرف سچ مقدس ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ڈارون یا اس کے بعد آنے والے کسی سائنس دان کی کوئی بات علم کے قوانین پر پوری نہ اترے تو وہ نظریہ ارتقا کا حصہ نہیں بنے گی کیونکہ علم کے لئے عالم نہیں، سچ مقدس ہے۔

یہاں ایک اور غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے۔ علم کے سیکولر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ علم کے آ جانے سے لوگ مذہب کو چھوڑ دیتے ہیں۔ لوگ نہ علم کی وجہ سے مذہب کو اپناتے ہیں، نہ اسکی وجہ سے ترک کرتے ہیں۔ اگر کمیونسٹ حکومتوں نے روایتی مذاہب پر پابندی لگائی تو انہیں لینن یا ماوزے تنگ کو خدا  اور کمیونزم کے نفاذ  کو ہدفِ زندگی بنانا پڑا۔ چی گویرا  وغیرہ آفاقی شہداء  قرار پائے۔  مذہب انسان کی ضرورت ہے، جیسا کہ نیند یا پانی پینا انسان کی ضرورت ہے۔ مذہب سے لگاؤ  ارتقا کے مشکل مراحل میں بقا کی جدوجہد کی وراثت ہے: جنگل کی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے جو انسان مشترکہ جہاں بینی کی بنیاد پر تعاون کا رجحان رکھتے تھے، وہی باقی رہے۔ کمیونٹی بلڈنگ کے علاوہ مذہب  انسان کو مقصد ِ حیات بھی فراہم کرتا ہے۔    حتی کہ کارل مارکس نے بھی مذہب کو  زندگی کی تلخی کم کرنے والا تریاق (pain  killer) کہا ہے، اگرچہ اسکی بات میں سے آخری جملہ اٹھا کر اسکو مذہب دشمن مشہور کر  دیا گیا:

Religion  is  the  sigh  of  the  oppressed  creature,  the  heart  of  a  heartless  world,  and  the  soul  of  soulless  conditions.  It  is  the  opium  of  the  people.

ترجمہ: ”دینپسیہوئی مخلوق کی آہ ہے، وہ ایک جذبات سے پاک دنیا میں احساس کاشعلہ ہے، وہ بے روح حالات کی روح ہے۔ دین عوام کی افیون ہے“۔

1849ءمیں جب کارل مارکس یہ جملے لکھ رہا تھا، ہسپتالوں میں درد سے کراہتے ہوئے شخص کو درد کی شدت میں کمی لانے کیلئے  افیون دی جاتی تھی، اور اس نے مذہب کیلئے افیون کا لفظ اسی پس منظرکی وجہ سے  استعمال کیا تھا۔

مذہب مناظرانہ بحثوں سے نہیں پھیلا کرتا،  مذہب کے وسیع پیمانے پر  پھیلاؤ کے اسباب بحث و مباحثہ وغیرہ نہیں، کچھ اور ہیں۔چھاپہ خانے کی ایجاد سے پہلے عام لوگوں کو کتاب خوانی کی سہولت میسر نہیں تھی، اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کی پیدا کردہ آسانیوں کے نہ ہوتے ہوئے عوام کے پاس مطالعے کا وقت بھی نہ تھا۔ پڑھنا لکھنا، بحث مباحثے کرنا، خواص ہی افورڈ کر سکتے تھے۔ جو خواص علم کی وادی میں جاتے تھے، وہ  مذہب کو سیاست اور علم سے الگ کر کےسیکولر ہو جایا کرتے تھے۔علمی ترقی کا دین پر صرف یہ اثر ہوتا ہے کہ ہم مذہب کی نئی تفسیر کر لیتے ہیں اور پھر یہ کہنا ہوتا ہے کہ یہ سب تو پہلے ہی مذہب میں تھا۔

زمانے کا امام علم ہوتا ہے۔ زمانہ گھڑی کے چلنے سے نہیں بدلتا بلکہ نئی ٹیکنالوجی آ جانے سے بدلتا ہے۔  علم ٹیکنالوجی کو جنم دے کرزمانے کو  بدلتا ہے اور پھر اس بدلے ہوئے زمانے کے ساتھ دین کی تفسیر بدل جاتی ہے۔چنانچہ بیسویں صدی میں ٹیلی ویژن شیطان کا گھر ہوتا ہے تو اکیسویں صدی میں ٹی وی چینلز پر براجمان ہونا فرضِ عین بن جاتا ہے۔عباسی دور  میں  مسلمان لشکر سنٹرل ایشیاء پہنچے تو انہیں کاغذ بنانے کی ٹیکنالوجی ملی۔ اس سے پہلے وہ چمڑے، لکڑی اور پتھر پرہی لکھ سکتے تھے۔ اس ٹیکنالوجی نے انہیں یونانی، چینی اور ہندوستانی علوم کا ترجمہ کرنے  اور علمی کتابیں لکھنے کی صلاحیت بخشی۔ عباسی خلیفہ مامون الرشید کی علم دوستی اور اسکے قائم کردہ  دارالترجمہ نےزمانے کو بدل دیا۔ علوم کے ترجمے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے حدیث اور تاریخ کی کتب تدوین کیں اور قرآن و حدیث میں جن  جدیدمسائل کا حل نہ ملتا تھا، فقہ کی شکل میں لکھنا شروع کیا۔زمانہ بدلنے سے   اسلام کی پہلی بڑی تفسیر فقہ کے نام سے سامنے آئی۔ تب سے یہ سلسلہ جاری ہے کہ  علماء کے ذوق کے مطابق   یونان کی منطق کو استعمال کر کے علم کو  دینی متون کے ساتھ  کبھی ٹکرایا تو کبھی ملا دیا جاتا ہے۔ الفاظ کے الٹ پھیر کو ”عقلی دلائل“ پکارا جاتا ہے اور اس پر تجربے یا کائنات کے ریاضیاتی اصولوں سے ہم آہنگ ہونے کی کوئی قید نہیں لگائی جاتی۔  فقہ اور اصول فقہ کے فنون کا جنم اسی طرح ہوا تھا۔ اصول فقہ تو ایسی جادوئی مشین ہے کہ اس میں کسی بھی تحریر کو ڈال کر  سو دو سو فتوے نکالے جا سکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اس عمل کے دوران ”اختلاف بین العلماء “ واقع ہو جاتا ہے۔ یہ بڑی نازک صورتِ حال ہوتی ہے۔مثال کے طور پر یونان کی ابتدائی سائنس سے تعارف کے بعد جب معلوم ہوا کہ زمین گول ہے، تو علماء میں زمین کے گول ہونے یا نہ ہونے پر جنگ چھڑ گئی جو اب تک جاری ہے۔

ٹیکنالوجی کی بنیاد علم پر ہوتی ہے، لہٰذا اگر علم صحیح نہ ہو تو کبھی ٹیکنالوجی کو جنم نہیں دے سکتا۔ اس کی ایک مثال نیوٹن کے قوانین کی بنیاد پر بننے والے انجن اور خلا میں بھیجے جانے والے راکٹ ہیں۔ چنانچہ ارتقا کے علم کی بنیاد پر برائلر مرغی بنائی گئی، یا مختلف ادویات یا حیاتیاتی ہتھیار بنائے گئے۔ یہاں سے یہ بات بھی سمجھ آ جانی چاہیے کہ جو لوگ کرونا وائرس کو کسی لیبارٹری کی پیداوار سمجھتے ہیں ان کو نظریہ ارتقا کو درست کہنا ہو گا، ورنہ ان کا یہ دعویٰ ایک کھلا تضاد ہے۔

جدید دور  میں اسلام کی تفسیر بطور نظامِ حکومت

پچھلی صدی میں ہر صدی کی طرح اسلام کی نئی تفاسیر سامنے آئیں۔ ان میں سے ایک تفسیر اسلام کو مذہب کے بجائے قومی ریاست قرار دینا تھی۔ اس میں اصولِ دین کی جگہ ریاستی ادارے اور فروع دین کی جگہ ریاست کا قانون لے لیتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعتِ محض کے حکم کو حکمران کی اطاعتِ محض قرار دیا جاتا ہے۔ ایران میں یہ سوچ ایک خام شکل میں انیسویں صدی کے عالم ملا احمد نراقی نے افلاطون کے ”فلاسفر کنگ“ کے تصور سے متاثر ہو کر پیش کی تھی، جس میں بادشاہ کیلئے فقیہ ہونے کا تصور دیا گیا تھا۔ برصغیر میں اس سوچ کی بنیادیں 1820 کے عشرے میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی رکھ چکے تھے، انہوں نے اپنے افکار زیادہ تفصیل سے پیش کئے تھے اور انہوں نے پانچ سال کے لئے وادی پشاور میں ایک مذہبی ریاست بھی قائم کی تھی۔ ان کی ریاست کا جائزہ ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتاب المیہ تاریخ میں پیش کیا ہے۔ جوں جوں سائنس نے زمانے کو آگے بڑھایا، اسلام کو ریاست کے طور پر پیش کرنے والوں کی سوچ جڑیں پکڑتی گئی۔ یہ سوچ ان ممالک میں پروان چڑھ رہی تھی جہاں انگریزوں اور دوسری یورپی طاقتوں کا اقتدار قائم ہونے کی وجہ سے نئے خیالات متعارف ہو چکے تھے، یعنی ہندوستان اور مصر!

بیسویں صدی کے پہلے نصف  میں یہ تفسیر مصر کی اخوان المسلمون اور برصغیر کی   خاکسار،  منکرین حدیث، جمیعت علمائے اسلام اور جماعت ِاسلامی وغیرہ نے  پیش کی۔  جیسا کہ دین کی تفاسیر ہمیشہ متعلقہ زمانے کے افکار کی روشنی میں کی جاتی ہیں، اس تفسیر جس میں دین کو ریاست یا نظامِ حکومت قرار دیا گیا تھا، پر بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں اٹلی اور جرمنی کے فاشزم کے گہرے اثرات تھے۔ اگرچہ سیکولر جمہوریت کیلئے بھی دین  کے اصولِ عدل سے دلائل نکالے جا سکتے تھے، لیکن چونکہ فاشسٹ حکومتیں انگریزوں کی دشمن تھیں اور انگریزوں کو علماء اپنا روزگار چھیننے والا سمجھتے تھے، لہٰذا دشمن کے دشمن کو دوست سمجھ کر اس کے نظام کو اسلام کی نئی تفسیر بنا دیا۔ فاشزم میں لیڈر کے پاس مطلق اقتدار اور اس کالوگوں کو اپنا غلام بناکر انکی زندگیوں کو روبوٹ کی طرح کنٹرول کرنا بھی ان حضرات کیلئے بہت پر کشش تھا۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے تاریخ میں تحریف کر کے جعلی بیانیہ کھڑا کیااور صرف تاریخ کے  ان حصوں کا انتخاب کیاجنھیں وہ فاشزم کے مطابق ڈھال سکتے تھے ۔

ایران میں اس تفسیر کو آیت اللہ خمینی نے  شیعہ اسلام کے عاشقانہ اور عوامی انداز کے ساتھ ملا دیا۔ وہ شیعہ فقہ کے ساتھ ساتھ قدیم فلسفے اور تصوف کے ماہر بھی تھے، لہٰذا افلاطون کے ”فلاسفر کنگ“ اور صوفیا کے ”مرشد“ یا ”انسانِ کامل“ والے تصور نے بھی اس فقہ شاہی کے نظریے کی صورت گری کی۔ ایران میں اس تفسیرکو ولایتِ فقیہ کا نام دیا گیا۔ اگرچہ باقی شیعہ مراجع اس تفسیر کو قبول نہیں کرتے تھے لیکن دینی متن کے اعتبار سے یہ تفسیر بھی ٹھیک تھی اور دوسری تفسیریں بھی ٹھیک تھیں۔

تصوف اور سیاست کے ملاپ کا مطلب یہ ہوا کہ حاکم کے ذاتی زندگی کے تجربات  کی اہمیت بہت زیادہ ہو گئی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ تصوف میں جس چیز کو علمِ شہودی یا علمِ حضوری کہا جاتا ہے وہ اصل میں علمِ حصولی ہی ہے۔ صوفی  جب اپنے تئیں  حق سے ملاقات کرتا ہے تو اپنی زندگی کے فکری و عملی تجربات اور تہذیب سے ہی رجوع کر رہا ہوتا ہے۔ اسی لئے ہر صوفی کا تصوف دوسرے سے الگ ہوتا ہے، جیسے ہر مصور کی نقاشی اور ہر شاعر کی شاعری دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ چنانچہ ولایتِ فقیہ میں بھی ہر ولی فقیہ کا اندازِ حکمرانی دوسرے سے الگ ہو گا۔چنانچہ آیت اللہ خمینی میں اخوانی اسلام کے ساتھ ساتھ مرجعیت، ایرانی تہذیب، یونانی فلسفے اور ملا صدرا کے تصوف کی جھلک ملتی ہے تو آیت اللہ خامنہ ای کے ہاں ایرانی و مسلم تاریخ اور اخوان المسلمون کا رنگ ہے۔چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب شمالی افریقہ سے عرب بہار کی آندھی اٹھی تو آیت اللہ خامنہ ای کا تجزیہ اخوان المسلمون سے مختلف نہ تھا۔انہوں نے اس کو اسلامی بیداری قرار دیا۔

اب اگرچہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اللہ کو قرار دیا گیا تھا، لیکن خدا ایک معبود ہی نہیں، ریاست کا اعلیٰ ترین مقام بھی بن چکا تھا۔ اسلام میں چونکہ عام انسان خدا کو دیکھ یا سن نہیں سکتے، لہٰذا بادشاہ، یعنی ولی فقیہ، کا حکم خدا کا حکم کہلایا۔

ایران میں انقلاب آنے کے بعد بیروزگار علماء کی دیہاڑیاں لگ گئیں۔ جہاں انکا کوئی کام نہ ہو وہاں بھی ایک اچھی تنخواہ والی ملازمت  ملنے لگی۔ بجلی کے محکمے، پانی کے ادارے ، یونیورسٹیوں میں، تیل و گیس کے کارخانوں  میں، ہر جگہ   نمائندگی ولی فقیہ   کے عنوان سے ایک ادارہ بن گیا جس میں متعدد علمائے کرام سرکاری ملازم ہوکر تنخواہیں وصول فرمانے لگے۔

شاہ کے ایران اور فقیہ کے ایران میں صرف یہ  تین فرق ہیں کہ فقیہ نے جبری حجاب لاگو کر رکھا ہے،  بے اختیاروزیراعظم کی جگہ بے اختیار صدر نے لے لی ہے اور خارجہ پالیسی میں ایران عرب نیشنلزم کی حمایت کرتا ہے۔ باقی وہی پرانا ایران ہے۔ اس دور میں بھی مذہبی لوگ شاہ کی خوشامد کرتے مگر وزیراعظم کو اسلام نافذ نہ کرنے کا دوش دیتے تھے، اب رہبر کی تعریف کر کے صدر کو براکہا جاتا ہے۔ تمام اختیارات رکھنے والا رہبر ”مظلوم“ کہلاتا ہے۔میانمار اور چین کے مسلمان ہوں یا ملائشیا اور جنوبی ایشیاء  کے شیعہ، جس مسلمان کی مظلومیت کی وجہ عرب نیشنلزم نہیں، اسکی  عملی حمایت نہیں کی جاتی۔ایران کی خارجہ پالیسی پر حافظ الاسد کی چھاپ بہت نمایاں ہے۔

یہاں پچھلی صدی کے پہلے نصف میں برصغیر کے شیعہ علماء کے اندازِ فکر کی طرف اشارہ نہ کرنا نا انصافی ہو گا۔ آیت اللہ سید علی نقی نقوی نے پہلی بار واقعہ کربلا کو نئے دور کے سیاسی نظریات کے آئینے سے دیکھا تو انہوں نے”شہیدِانسانیت“ میں اس واقعے کی تشریح  ٹالسٹائے اور گاندھی جی کے ”عدم تشدد“  کے تصور کی بنیاد پر کی۔ علامہ ابن حسن جارچوی نے اپنی کتاب ”فلسفہٴ آلِ محمد“ میں واقعہ کربلا کو سوشلزم کے قریب سمجھا۔ان دونوں نے فاشزم کے نظریات کو اسلامی لبادہ دینے کے بجائے اسکے متضاد نظاموں کو اسلام کے ساتھ زیادہ سازگار پایا۔ یوں یہ لوگ مجلسِ احرار، خاکسار اور اخوان المسلمون کے فکری منہج سے بالکل الگ تھے۔  ان لوگوں کی کتابیں فارسی اور عربی میں ترجمہ ہوئیں اور ان کے اثرات ڈاکٹر علی شریعتی اور آیت اللہ مطہری سمیت بیسویں صدی کے تمام اہم شیعہ صاحبان فکر و نظر پر  پڑے۔یہ اور بات ہے کہ ان تفاسیر کا کریڈٹ انکے بانیوں کو کم ہی دیا جاتا ہے ۔

اسی طرح ایک اور اہم رجحان جو بیسویں صدی میں سامنے آیا وہ ایران کے انقلابِ مشروطہ (Constututional  Revolution  of  Iran  1905 – 1911) کی شکل میں تھا۔ اس وقت دین کی ایک تفسیر جواس وقت کے   شیعہ مراجع تقلید آیت اللہ نائینی اور آیت اللہ کاظم خراسانی نے پیش کی،اس کے مطابق  سیکولرجمہوریت اسلامی تعلیمات سےہم آہنگ تھی۔ انکے مقابلے پر ایک نیم خواندہ عالم شیخ فضل اللہ نوری نے اس تفسیر کو رد کر کے مذہبی فقہ کو آئین مملکت قرار دینا چاہا ، جسے انہوں نے مشروعہ کا نام دیا۔ عباسی دور کی فقہ بیسویں صدی کے سوالوں کا جواب نہیں رکھتی تھی اور انکا مطالبہ مسترد کر دیا گیا لیکن اس نے ایران کے نیم خواندہ  مذہبی حلقوں میں وہی لہر پیدا کی جو ان سے اسی سال قبل برصغیر میں سید احمد بریلوی پیدا کر چکے تھے۔  ایران میں  1979ء کے انقلاب کے بعد آیت اللہ نائینی و خراسانی کے فکری رجحان کی نمائندگی آیت اللہ خمینی کے قریبی ساتھی اور تہران کے امامِ جمعہ آیت اللہ  سید محمود طالقانی کرتے تھے، لیکن وہ جلد ہی وفات پا گئے اور انقلابی حلقوں پر اخوانی سوچ مسلط ہو گئی جو اسلام کو ریاست قرار دیتے تھے۔ ایران کے انقلاب کے اخوانی رنگ میں ڈھلنے کے عمل میں ایک بڑا کردار ایک دہشتگرد تنظیم مجاھدینِ خلق کا بھی ہے۔ یہ عوام میں مقبول نہ تھے اور انکی اکثریت ٹیکنیکل فنون سیکھنے والے لوگوں کی تھی جو تاریخ اور سماجی علوم  سے اکثر ناواقف ہوتے ہیں۔ ان کے لیڈر مسعود رجوی نے انکو اپنا ذہنی غلام بنا کر دہشتگرد کاروائیوں کا رستہ دکھایا۔ انہوں نے آیت اللہ مطہری اور آیت اللہ بہشتی سمیت کئی اہم لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ وہ دہشتگردی کا سہارا لے کر ہٹلر بننے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ انقلابی قیادت کو جان کا خطرہ لاحق ہوا تو  اخوانی سوچ رکھنے والے علماء کا پلڑا بھاری ہو گیا اور انقلابی عدالتیں نازی ہتھکنڈے استعمال کرنے لگیں۔

البتہ عراق میں اس سوچ کو قدم جمانے کا موقع نہیں ملا ، چنانچہ اب بھی آیت اللہ سیستانی سیکولر جمہوریت کے حامی اور آیت اللہ خراسانی و آیت اللہ نائینی کے ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اسلام کو ریاست کے بجائے مذہب ہی سمجھتے ہیں۔ کورونابحران میں بھی انکا موقف  آیت اللہ خامنہ ای کی نسبت بہت واضح اوراہلِ علم کےموقف کے قریب تر  رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ایران میں ولایتِ فقیہ اور کورونا وائرس(حصہ اوّل)۔۔حمزہ ابراہیم

  1. سورہ الحاقہ
    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    تَنزِيلٌۭ مِّن رَّبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ
    یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے
    (43)

    وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ ٱلْأَقَاوِيلِ
    اور اگر اس (نبی) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی
    (44)

    لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِٱلْيَمِينِ
    تو ہم اِس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے
    (45)

    ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ ٱلْوَتِينَ
    اور اِس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے
    (46)

    فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَٰجِزِينَ
    پھر تم میں سے کوئی (ہمیں) اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا
    (47)

Leave a Reply