• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مولانا عبد المالک شہید مرحوم کی یاد میں۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

مولانا عبد المالک شہید مرحوم کی یاد میں۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

فون کی گھنٹی بجی، ہیلو! جی، السلام عليكم! میں عبدالمالک شہید بات کر رہا ہوں، کیا پروفیسر صابر صاحب سے بات ہو سکتی ہے، میں نے کہا جی، ایک منٹ ٹھہرئے۔ پروفیسر صاحب نے ان سے بات کی۔ بعد میں، میں نے ان سے پوچھا کہ اگر یہ شہید ہیں تو بات کیسے کر رہے تھے، پروفیسر صاحب مسکرائے اور بولے یہ ان کا نام اور لقب دونوں ہیں۔تب میں کلاس چہارم میں پڑھتا تھا اور ہم گاؤں میں رہتے تھے، مجھے اس بات کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی، بس اتنا پتا تھا کہ عبدالمالک شہید پروفیسر صاحب کے دوست ہیں۔

میں ساتویں کلاس میں تھا جب ہم شہر منتقل ہوئے۔ میں نماز پڑھنے بلال مسجد گیا، دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ ہیں، سر پر جناح کیپ پہنے ہوئے نماز ادا کر رہے تھے۔ میں روزانہ مسجد جاتا، ان پر نظر پڑتی۔ ایک دن، وہ میرے پاس آئے، مصافحہ کیا اور بولے، کیا آپ پروفیسر صابر کے بیٹے ہیں، میں نے کہا “جی ہاں”،کہنے لگے میں عبدالمالک شہید ہوں، یہ میری ان سے باقاعدہ پہلی ملاقات تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی.

مولانا عبد المالک شہید صاحب، جماعت اسلامی ٹوبہ کے امیر تھے، نائب امیر ضلع بھی رہے۔وہ بلال مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے، اسی مسجد میں وہ باقاعدگی سے جمعہ بھی پڑھاتے تھے، ان کا لائبریری نما آفس بھی اسی مسجد میں تھا۔

مولانا جماعت کے رکن تھے، لیکن انہیں سیاست نہیں آتی تھی۔ انہوں نے جمعہ کے خطبے میں بکھی بھی جماعت کامقدمہ بیان نہیں کیا تھا۔ وہ چلتے پھرتے اسلام کی عملی مثال تھے۔فرقوں کی بات انہوں نے کبھی کی ہی نہیں، جب بھی کوئی ان سے مسلکی سوال پوچھتا تو وہ بڑے پیار سے ٹال دیتے تھے یا بات بدل دیتے تھے۔

بلال مسجد میں وہ ہماری قرآن کلاس لیا کرتے تھے۔ تفہیم القرآن پڑھایا کرتے تھے۔ میں اس کلاس میں بھی جان بوجھ کر ان سے کچھ مسلکی سوال پوچھتا، وہ ہمیشہ کی طرح مسکرا کر ٹال دیتے۔ وہ ہر جمعہ کی نماز میں صرف دو سورتیں ہی تلاوت کرتے تھے۔کبھی کبھار میرے دل میں آتا کہ میں ان سے کہوں کہ مولانا کوئی اور سورت بھی تلاوت کر لیا کریں، لیکن کہہ نہیں پاتا تھا، لیکن اندر ہی اندر ان دونوں سورتوں کی عادت ہو گئی تھی۔ایک بار وہ دو، تین ہفتے جمعہ پڑھانے نہ  آئے، میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، کہنے لگے کمالیہ اور ٹوبہ جمعہ پڑھانے جانا پڑ گیا تھا۔میں نے ان سے یہ ہی کہا، کہ آپ جماعت کے ضلعی امیر ہیں، آپ جہاں مرضی جائیں لیکن جمعہ آپ بلال مسجد  میں  ہی پڑھایا کریں، مسکرا کر بولے، جی بہتر۔

مولانا بلال مسجد میں ہی اعتکاف  میں بیٹھا کرتے تھے۔ نماز تراویح کے بعد، وہ مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے تھے، میں بھی انکے ساتھ بیٹھ جاتا تھا، تو پھر باتوں کے ادوار چلتے تھے، میرا دوست عبداللہ بھی اس محفل کا لازمی حصہ ہوتا ،کبھی کبھار یہ دور سحری تک بھی چلتے تھے۔

میں جماعت اور جمعیت کا سخت ناقد تھا، میں انکے سامنے دونوں کی خوب برائیاں کرتا تھا، مجال ہے کبھی انہوں نے غصہ کیا ہو۔ ایک بار کہنے لگے، آپ جمعیت میں شامل ہو جائیں، میں نے کہا مولانا یہ سزا تو نہ  دیں، میرا جواب سن کر وہ مسکرانے لگ گئے۔

ان کی زبان میں بلا کی تاثیر تھی، جب بھی مسجد کے اخراجات کے لیے اپیل کرنی ہوتی، وہ اتنے پیار اور تحمل سے کرتے تھے کہ تمام نمازی، مسجد کی ضرورت سے زیادہ مدد کرتے تھے۔
جمعہ کے خطبے میں انہوں نے کبھی فرقے سے متعلق  مسائل پر بات نہیں کی تھی اسی وجہ سے، ان کے پیچھے جمعہ پڑھنے کے لیے دور دراز سے لوگ آیا کرتے تھے، شاید اسی خوبی کی وجہ سے سب لوگ ان سے پیار کرتے تھے۔

وہ کتنے بڑے اور صبر کرنے والے انسان تھے، اسکا مجھے اندازہ نہیں تھا۔ ان کے جوان سالہ بیٹے کا انتقال ہو گیا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد جمعہ تھا، وہ جمعہ پڑھانے آئے۔ خطبے کے دوران، انہوں نے اپنے بیٹے کی وفات کا ذکر کیا اور سب سے دعا کی درخواست کی، انکی آواز میں غم، ہم سب کو محسوس ہو رہا تھا، ایسا صبر، کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔

بلال مسجد کے ساتھ، خواتین کا مدرسہ بھی تھا، مولانا اس مدرسہ کے مہتمم بھی تھے، وہ وہاں بھی قرآن کلاس لیا کرتے تھا، میری بڑی بہن بھی اس کلاس میں ان سے پڑھتی تھی، جب انہیں معلوم ہوا کہ اسکا میڈیکل میں داخلہ ہو گیا ہے تو وہ نہایت خوش ہوئے۔مجھے خصوصی مبارکباد دی۔

مولانا کا آفس بھی مسجد کے ساتھ تھا، اس میں گھومنے والی کرسی تھی، میں انکی غیرموجودگی میں، انکی کرسی پر  بیٹھ کر  کتابیں پڑھا کرتا تھا، ایسے ہی ایک دن وہ یکدم آفس آ گئے، میں شرمندہ سا ہوا، وہ مسکرا کر کہنے لگے، آپ بیٹھے رہیں۔ وہ مجھے جماعت کا لٹریچر پڑھنے کو دیا کرتے تھے۔

میں مولانا کو جان بوجھ کر فرقی مسائل کی طرف لاتا، لیکن وہ اس طرف آتے ہی نہیں تھے، ایک دفعہ میں مسجد شارٹس پہن کر چلا گیا، وہ میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا میڈیکل میں داخلہ ہو گیا، ہم نے بلال پارک والا گھر بھی چھوڑ دیا، یوں مولانا سے ملاقاتوں کا سلسلہ پہلے کم ،بعد میں تقریباً ختم ہو گیا، میں سیکنڈ ائیر MBBS میں تھا، جب مجھے اطلاع ملی کہ مولانا عبدالمالک شہید صاحب وفات پا گئے ہیں، یہ خبر، میرے لیے ایک دھماکے سے کم نہیں تھی، میں ان کے جنازے پر گیا، انکا آخری دیدار کیا۔۔۔عمر کے آخری حصے میں وہ کافی کمزور ہو گئے تھے۔اب میں مسجد میں تراویح کے لیے جاتا ہوں، تو مولانا کی بہت یاد آتی ہے ، تراویح کے بعد کی، ہماری باتیں یاد آتی ہیں۔ جمعہ کی نماز میں، کان انکی وہ دو سورتیں سننے کو ترستے ہیں۔
وہ دوسروں کے لیے ایک عالم دین تھے۔میرے لیے وہ عالم دین کے ساتھ ساتھ،میرے بزرگ اور دوست تھے، جن کی کمی آج بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
میں اللہ سے دعا گو ہوں ، کہ وہ ا ن کی قبر کو منور کرے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply